ربیع بنت معوذ
رُبَیع بنت مُعَوِّذْ بن عفراء صحابیہ رسول اور راویہ حدیث ہیں۔
نام و نسب
[ترمیم]رُّبَيِّع بنت مُعَوِّذ نام۔ قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے۔ ربیع بنت معوذ بن حارث بن رفاعہ بن حارث بن سواد بن مالک بن غنم بن مالک بن نجار، والدہ کا نام ام تزید تھا۔ جو قیس بن زعورا کی بیٹی تھی، ربیع کے والد ان کے تمام بھائی عفراء کی اولاد مشہور ہیں، عفراء حارث کی زوجہ اور ان (ربیع) کی دادی رہیں۔[1]
اسلام
[ترمیم]ہجرت کے قبل مسلمان ہوئیں۔
نکاح
[ترمیم]ایاس بن بکر لیثی سے شادی ہوئی، صبح کو پیغمبر اسلام ان کے گھر تشریف لائے اور بستر پر بیٹھ گئے، لڑکیاں دف بجا بجا کر شہدائے بدر کے مناقب میں اشعار پڑھ رہی تھیں، اس ضمن میں آپﷺ کی شان میں بھی کچھ اشعار پڑھے۔ جن میں ایک مصرع یہ تھا،
"اور ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے،" (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو وحی کے بغیر کل کس علم غیب نہیں تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ”نہ کہو اور اس کے علاوہ جو کہتی تھیں وہ کہو“[2]
عام حالات
[ترمیم]غزوات میں شرکت کرتی تھیں زخمیوں کا علاج کرتیں لوگوں کو پانی پلاتیں اور مقتولوں کو مدینہ پہنچاتیں اور فوج کی خدمت کرتی تھیں،[3] غزوہ حدیبیہ میں بھی موجود تھیں، جب بیعت رضوان کا وقت آیا تو انھوں نے بھی آکر بیعت کی۔ سنہ 35 ہجری میں اپنے شوہر سے علاحدہ ہوئیں، شرط یہ تھی کہ جو کچھ میرے پاس ہے اس کو لے کر مجھ سے دستبردار ہو جاؤ، چنانچہ اپنا تمام سامان ان کو دے دیا، صرف ایک کُرتی رہنے دی لیکن شوہر کو یہ بھی گوارا نہ ہوا، جا کر عثمان غنی کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا، چونکہ ربیع نے کل چیزوں کی شرط کی تھی، عثمان غنی نے فرمایا تم کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ اور شوہر سے فرمایا کہ تم ان کے جوڑا باندھنے کی دھجی تک لے جا سکتے ہو۔[4]
وفات
[ترمیم]ربیع کی وفات کا سال نا معلوم ہے۔ لیکن 70ھ کی دہائی میں وفات پائی۔
اولاد
[ترمیم]اولاد میں محمد مشہور ہیں۔
فضل و کمال
[ترمیم]ربیع سے اکیس حدیثیں مروی ہیں، علمی حیثیت سے ان کا یہ پایہ تھا کہ عباس اور زین العابدین ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔[5] راویوں میں بہت سے لوگ ہیں مثلاً عائشہ بنت انس بن مالک، سلیمان بن یسار، ابو سلمہ بن عبد الرحمن نافع، عبادہ بن الولید، خالد بن ذکوان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، ابو عبیدہ بن محمد (عمار بن یاسر کے پوتے) محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان۔
اخلاق
[ترمیم]جوش ایمان اس سے ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ اسماء بنت مخربہ جو ابو ربیعہ مخزومی کی بیوی تھی اور عطر بیچتی تھی چند عورتوں کے ساتھ ربیع کے گھر آئی اور ان کا نام و نسب دریافت کیا، چونکہ ربیع کے والد معوذ بن حارث نے ابو جہل کو بدر میں قتل کیا تھا اور اسماء قریش کے قبیلے سے تھی بولی، ”تو تم ہمارے سردار کے قاتل کی بیٹی ہو؟“ ربیع کو ابوجہل کی نسبت سردار کا لفظ نہایت ناگوار ہوا۔ اور بولیں ”سردار نہیں بلکہ غلام کے قاتل کی بیٹی ہوں۔“ اسماء کو ابو جہل کی شان میں یہ گستاخی پسند نہ آئی، جھنجھلا کر کہا مجھ کو تمھارے ہاتھ سودا بیچنا حرام ہے۔ ربیع نے برجستہ کہا، مجھ کو تم سے کچھ خریدنا حرام ہے، کیونکہ تمھارا عطر، عطر نہیں بلکہ گندگی ہے۔[6] محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت تھی، آپ ان کے گھر اکثر تشریف لے جاتے تھے۔[7]
ایک مرتبہ آپ تشریف لائے اور ان سے وضو کے لیے پانی مانگا۔[8] ایک مرتبہ دو طباقوں میں چھوہارے اور انگور لے کر گئیں، تو آپ نے زیور یا سونا مرحمت فرمایا۔[9] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتبہ کسی نے حلیہ پوچھا تو بولیں "بس یہ سمجھ لو کہ آفتاب طلوع ہو رہا ہے۔"[10]