مندرجات کا رخ کریں

ابو ولید نیشاپوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو ولید نیشاپوری
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 890ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 960ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابن سریج   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص الحاکم نیشاپوری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو ولید حسان بن محمد بن احمد بن ہارون قرشی اموی نیشاپوری ( 277 - 349ھ بمطابق 890 - 960ء ، بزرگ شافعیہ کے ممتاز ائمہ اور صاحبِ وجوہ مجتہدین میں شمار ہوتے ہیں۔

تعلیم و تربیت

[ترمیم]

انہوں نے شیخ المذہب امام ابو العباس بن سریج سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی شاگردی نے انہیں اپنے زمانے کا امام اور خراسان کا فقیہ بنادیا۔[1] )حاکم نے کہا: "یہ خراسان میں اہلِ حدیث کے امام تھے، اور جتنے علماء کو میں نے دیکھا، ان میں سب سے زیادہ زاہد، عابد، متقشف (سادگی اختیار کرنے والے) اور اپنے مدرسے و گھر سے وابستہ رہنے والے تھے۔"

ایک حکایت

[ترمیم]

ان سے روایت ہے کہ انہوں نے حرملہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: امام شافعیؒ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنے منہ میں ایک کھجور رکھی اور اپنی بیوی سے کہا: "اگر میں اسے کھا گیا تو تمہیں طلاق، اور اگر اسے باہر نکال دیا تو بھی طلاق۔" امام شافعی نے جواب دیا: "وہ کھجور کا نصف کھائے اور نصف باہر نکال دے۔" ابو الولید نے کہا: "ابو العباس بن سریج نے یہ حکایت مجھ سے سنی اور اس پر باقی تفریعاتِ طلاق کی بنیاد رکھی۔"

علمی حیثیت

[ترمیم]

ابو الولید کا ذکر شافعی مذہب کی کتاب "الروضة" میں کئی مقامات پر آیا ہے۔

مؤلفات ابو الولید

[ترمیم]
  1. . شرح رسالة الإمام الشافعي في الأصول:امام شافعیؒ کی اصولِ فقہ پر مشہور تصنیف "الرسالہ" کی شرح۔
  2. . المستخرج على صحيح مسلم:امام مسلمؒ کی "صحیح مسلم" پر مبنی ایک مستخرج، جس میں اضافی احادیث اور علمی فوائد شامل کیے گئے ہیں۔[2][3]

وفات

[ترمیم]

ابو الولید نیشاپوری 5 ربیع الاول 349ھ (مطابق 960ء) کو وفات پا گئے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. كحالة، عمر رضا۔ معجم المؤلفين۔ ج مج3۔ ص 192
  2. طبقات الشافعية الكبرى، تاج الدين السبكي، 3/ 226
  3. الاجتهاد وطبقات مجتهدي الشافعية، محمد حسن هيتو، ص224-225