مندرجات کا رخ کریں

جلال الدین رومی

متناسقات: 37°52′14.33″N 32°30′16.74″E / 37.8706472°N 32.5046500°E / 37.8706472; 32.5046500
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نظرثانی بتاریخ 08:50، 20 فروری 2024ء از UrduBot (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (خودکار: درستی املا ← ہے, ظاہر, ے \1)
مولانا جلال‌الدین محمد بلخی
جلال الدین محمد رومی
فائل:Rumi.JPG
معروفیتمولانا (کلاسیکی فارسی)
پیدائشاتوار 6 ربیع الاول 604ھ/ 30 ستمبر 1207ء

وخش (موجودہ تاجکستان)[1][2]بلخ (موجودہ افغانستان)[3][4]
وفاتاتوار 5 جمادی الثانی 672ھ/17 دسمبر 1273ء
(مدت حیات: 66 سال 2 ماہ 17 دن شمسی)

قونیہ، سلاجقہ روم (موجودہ ترکی)
مدفنقونیہ (موجودہ ترکی)
37°52′14.33″N 32°30′16.74″E / 37.8706472°N 32.5046500°E / 37.8706472; 32.5046500
نسلفارسی
عہدقرون وسطی
شعبۂ زندگیخوارزم سلطنت (بلخ: –1212 اور 1213–17; سمرقند: 1212–13)[5][6]
سلاجقہ روم (مالاطیہ: 1217–19; آق شہر: 1219–22; قرمان: 1222–28; قونیہ: 1228 اپنی وفات تک 1273 ء.)[5]
مذہباسلام
مکتب فکرحنفی، تصوف؛ ان کے پیروکاروں نے سلسلہ مولویہ قائم کیا۔
شعبۂ عملعارفانہ کلام، صوفی رقص، مراقبہ، ذکر
اہم نظریاتفارسی ادب، صوفی رقص
کارہائے نماياںمثنوی، دیوان شمس تبریزی، فیہ ما فیہ
قونیہ، ترکی میں واقع مولائے روم کا مزار
قونیہ میں مولائے روم کا مزار

محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز(یہ اصل میں مولانا کا ہی دیوان ہے لیکن اشعار میں زیادہ تر شمس تبریز کا نام آتا ہے اس لیے اسے انھی کا دیوان سمجھا جاتا ہے) ان کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازوال تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، ان کا مکان پیدائش ایران میں ہے اور ان کا مزار ترکی میں واقع ہے۔

پیدائش اور نام و نسب

اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔ اور آپ جلال الدین، خداوندگار اور مولانا خداوندگار کے القاب سے نوازے گئے۔ لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے : محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انھیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 6 ربیع الاول 604ھ میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم

ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاولدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

علم و فضل

مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ درویش احمد چشتی ٹوپاماری

اولاد

مولانا کے دو فرزند تھے، علاؤ الدین محمد، سلطان ولد۔ علاؤ الدین محمد کا نام صرف اس کارنامے سے زندہ ہے کہ انھوں نے شمس تبریز کو شہید کیا تھا۔ سلطان ولد جو فرزند اکبر تھے، خلف الرشید تھے، گو مولانا کی شہرت کے آگے ان کا نام روشن نہ ہو سکا لیکن علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصانیف میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔

سلسلہ باطنی

مولانا کا سلسلہ اب تک قائم ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔

وفات

بقیہ زندگی وہیں گزار کر تقریباً 66 سال کی عمر میں سنہ 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔ مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا رھتاہےاور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔قافلہ سالار عشق حضرت مولانا جلال الدین رومی رضی اللہ عنہ نے شہر قونیہ (ترکی) کو اپنا دائمی مسکن بنایا جو ترکی کے مشہور تاریخی شہر استنبول سے 665 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ھوتے رہیں گے۔ ترکی کے اسی خوبصورت و دلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک موجود ہے۔حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک خوبصورت و دلکش اور ڈیزائن کے لحاظ سے ایک منفرد مزار مبارک ہے، ظاہری خوبصورتی اور جاہ وجلال کے علاوہ انوار و تجلیات کے بھی کیا کہنے. حضرت مولانا روم کے مزار مبارک کے ایک حصہ میں شیشے کی ایک الماری میں حضرت مولانا روم کے تبرکات محفوظ ہیں جن میں حضرت مولانا روم کا لباس مبارک، حضرت مولانا کی جائے نماز، کندھے پر ڈالنے والا رومال، مولانا کی تین ٹوپیاں اور دو عدد جبے سرفہرست ہیں۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔

مثنوی رومی

ان کی سب سے مشہور تصنیف ’’مثنوی مولانا روم‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب ’’فیہ مافیہ‘‘ بھی ہے۔

باقی ایں گفتہ آید بے زباں

در دل ہر کس کہ دارد نورِ جان

ترجمہ: ’’جس شخص کی جان میں نورہوگا اس مثنوی کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خود بخود اتر جائے گا‘‘

اقبال اور رومی

علامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبت تمام محبوب حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں:

آدمی دید است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر

علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے:

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

رومی بین الاقوامی سال

ان کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007ء کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغا بھی جاری کیا۔

28 اکتوبر سے یکم نومبر 2007 ء تک حضرت مولانا جلال الدین بلخی رومی کے 800 سالہ جشن ولادت کی تقریبات کے سلسلہ میں ایران میں پانچ روزہ عظیم عالمی کانگرس کا انعقاد ھوا جو دو روز تہران اور تین روز تک تبریز میں جاری رھی۔ کانگرس میں 30 ممالک کے تقریباً 80 اسکالر کے علاوہ کثیر تعداد میں ایرانی اسکالرز نے بھی شرکت کی۔

تہران میں اس عظیم کانگرس کا افتتاحی اجلاس بروز اتوار 28 اکتوبر 2007 ء کو ایران کے صدر محترم جناب آقای محمود احمدی نژاد کی زیر صدارت تہران کے کانفرنس ہال میں منعقد ھوا۔اجلاس کی ابتدا قرآن پاک کی آیات بینات سے ھوئی۔

کانگرس کے منتظم اعلیٰ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ صدر محترم نے اپنے طویل و مفید خطاب میں حضرت مولانا روم کی عالمگیر شخصیت اور ان کے فلسفہ عشق پر جامع انداز میں روشنی ڈالی اور حاضرین و سامعین سے داد حاصل کی۔ استاد جلال ذوالفنون نے سہ تار پر مثنوی کے ابتدائی اشعار پیش کیے جس کے بعد افتتاحی اجلاس اختتام پزیر ھوا۔

30 اکتوبر 2007ء بروز منگل غیر ملکی مندوبین بذریعہ ہوائی جہاز حضرت شمش الدین تبریزی کے شہر تبریز روانہ ھوئے جہاں حضرت مولانا روم کے علاوہ حضرت شمس تبریزی کی یاد میں جشن شمس تبریزی کی تقریبات کا اھتمام کیا گیا تھا۔

تبریز کے گورنر نے اپنے صدارتی خطبہ میں حضرت مولانا روم اور حضرت شمس تبریزی کے بارے میں نہایت پر مغز گفتگو فرمائی اور اس اجلاس کا اختتام موسیقی کی تقریب سے ھوا جس میں ایرانی موسیقاروں نے موسیقی کے ساتھ مثنوی اور دیوان شمس کے اشعار پیش کیے۔

مذکورہ تقریبات میں پاکستان سے جسٹس جاوید اقبال، ان کی اہلیہ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، ڈاکٹر محمد اکرام شاہ، ڈاکٹر محمد سلیم مظہر، ڈاکٹر محمد ناصر، ڈاکٹر عفان سلجوق، ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، ڈاکٹر خالدہ آفتاب، جناب افتخار احمد حافظ قادری اور مجلہ پیغام آشنا کے مدیر ڈاکٹر محمد سلیم اختر نے شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. William Harmless, Mystics, (Oxford University Press, 2008), 167.
  2. en:Annemarie Schimmel, "I Am Wind, You Are Fire," p. 11. She refers to a 1989 article by Fritz Meier:

    Tajiks and Persian admirers still prefer to call Jalaluddin 'Balkhi' because his family lived in Balkh, current day in en:Afghanistan before migrating westward. However, their home was not in the actual city of Balkh, since the mid-eighth century a center of Muslim culture in (Greater) Khorasan (Iran and Central Asia). Rather, as Meier has shown, it was in the small town of Wakhsh north of the Oxus that Baha'uddin Walad, Jalaluddin's father, lived and worked as a jurist and preacher with mystical inclinations. Franklin Lewis, Rumi : Past and Present, East and West: The Life, Teachings, and Poetry of Jalâl al-Din Rumi, 2000, pp. 47–49.

    Lewis has devoted two pages of his book to the topic of Wakhsh, which he states has been identified with the medieval town of Lêwkand (or Lâvakand) or Sangtude, which is about 65 kilometers southeast of Dushanbe, the capital of present-day Tajikistan. He says it is on the east bank of the Vakhshâb river, a major tributary that joins the Amu Daryâ river (also called Jayhun, and named the Oxus by the Greeks). He further states: "Bahâ al-Din may have been born in Balkh, but at least between June 1204 and 1210 (Shavvâl 600 and 607), during which time Rumi was born, Bahâ al-Din resided in a house in Vakhsh (Bah 2:143 [= Bahâ' uddîn Walad's] book, "Ma`ârif."). Vakhsh, rather than Balkh was the permanent base of Bahâ al-Din and his family until Rumi was around five years old (mei 16–35) [= from a book in German by the scholar Fritz Meier—note inserted here]. At that time, in about the year 1212 (A.H. 608–609), the Valads moved to Samarqand (Fih 333; Mei 29–30, 36) [= reference to Rumi's "Discourses" and to Fritz Meier's book—note inserted here], leaving behind Baâ al-Din's mother, who must have been at least seventy-five years old."
  3. "UNESCO: 800th Anniversary of the Birth of Mawlana Jalal-ud-Din Balkhi-Rumi"۔ UNESCO۔ 6 September 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2014۔ The prominent Persian language poet, thinker and spiritual master, Mevlana Celaleddin Belhi-Rumi was born in 1207 in Balkh, presently Afghanistan. 
  4. "UNESCO. Executive Board; 175th; UNESCO Medal in honour of Mawlana Jalal-ud-Din Balkhi-Rumi; 2006"۔ UNESDOC – UNESCO Documents and Publications۔ October 2006۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2014 
  5. ^ ا ب H. Ritter, 1991, DJALĀL al-DĪN RŪMĪ, en:The Encyclopaedia of Islam (Volume II: C–G), 393.
  6. en:C. E. Bosworth, 1988, BALḴ, city and province in northern Afghanistan, Encyclopaedia Iranica: Later, suzerainty over it passed to the Qarā Ḵetāy of Transoxania, until in 594/1198 the Ghurid Bahāʾ-al-Dīn Sām b. Moḥammad of Bāmīān occupied it when its Turkish governor, a vassal of the Qarā Ḵetāy, had died, and incorporated it briefly into the Ghurid empire. Yet within a decade, Balḵ and Termeḏ passed to the Ghurids’ rival, the Ḵᵛārazmšāh ʿAlāʾ-al-Dīn Moḥammad, who seized it in 602/1205-06 and appointed as governor there a Turkish commander, Čaḡri or Jaʿfar. In summer of 617/1220 the Mongols first appeared at Balḵ.