عبد الرحمن اوزاعی
عبد الرحمن اوزاعی | |
---|---|
(عربی میں: عبد الرحمن الأوزاعي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 707ء [1][2] بعلبک [3] |
وفات | سنہ 774ء (66–67 سال)[1][2] بیروت [4] |
وجہ وفات | اختناق |
شہریت | سلطنت امویہ دولت عباسیہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت و جماعت |
عملی زندگی | |
استاذ | عطاء بن ابی رباح ، محمد باقر ، قتادہ بن دعامہ ، ابن شہاب زہری ، مالک بن انس ، ابراہیم بن ابی عبلہ |
تلمیذ خاص | سفیان ثوری ، مالک بن انس ، عبد اللہ ابن مبارک |
پیشہ | فقیہ ، الٰہیات دان ، فلسفی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [5] |
شعبۂ عمل | فقہ |
درستی - ترمیم |
ابو عمرو عبد الرحمن بن عمرو بن یُحمد اوزاعی ایک مشہور و معروف محدث تھے اور اپنے زمانے میں اہل شام کے امام ہوا کرتے تھےـ موجودہ زمانے میں شہر لبنان میں ان کے القاب میں ایک لقب "امام العیش المشترک" کا اضافہ کیا جاتا ہے، کیونکہ یہود و نصاری کے تعلق سے ان کا موقف نہایت نرمی پر مبنی ہوا کرتا تھاـ اسی طرح ان کا ایک دوسرا لقب "شفیع النصاری" بھی مشہور ہے، اس لقب کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دفعہ جبل لبنان کے رہنے والے مسیحیوں کے گروہ نے بغاوت کردی اور اطاعت سے منہ پھیر لیا، لہذا شام کے والی اور عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور دونوں نے جبل لبنان میں رہنے والی مسیحیوں کو شہر بدر کرنے کا عزم کیا، تو امام اوزاعی فرمان خلافت کے سامنے مضبوطی سے ڈٹ گئے اور ان کو انصاف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک ٹکڑے کی بغاوت کے سبب پوری جماعت کو سزا دینا بالکل درست نہیں ہے، ان کے اس فیصلے کو دیکھتے ہوئے فرمان شاہی واپس لے لی گئی اور جبل لبنان کے رہائشی حکومت کی پکڑ سے بچ گئے اور انھوں نے امام اوزاعی کے احسان کو یاد رکھا۔[6]
راجح قول یہ ہے کہ امام اوزاعی کی پیدائش شہر بعلبک میں ہوئی، انھوں نے اپنے بچپن کے کچھ ایام کرک بقاعیہ نامی گاؤں میں فقر اور یتیمی کی حالت گزارے، پھر اپنی ماں کے ساتھ شہر بیروت کوچ کرگئےـ اس سے قبل وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ دمشق میں رہا کرتے تھے، انھوں نے حلب حماة، قنسرین اور دیگر کئی شہروں میں نقل مکانی کی ـ ان کو اوزاعی اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ الاوزاع ایک یمنی حمیری قبیلہ تھا جو ذی الکلاع بن قحطان سے نکلا تھا، جس کے کچھ افراد دمشق میں باب الفرادیس کے قریب ٹھہرے، جس جگہ ان کا قیام تھا اس گاؤں کو "الاوزاع" کہا جاتا تھا، علما، فقہا اور مؤرخین نے امام اوزاعی کے والدماجد، والدہ ماجدہ اور ماموں وغیرہ کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھا جتنا امام صاحب نے خود بتایا ہے، مگر انھوں نے اشارہ کیا ہے کہ امام صاحب کے ایک چچابھی تھے اور یہ چیز ثابت شدہ ہے کہ امام نے ایک سے زیادہ مرتبہ شادیاں کی ہیں، ان کی تین بچیاں اور ایک بچہ تھا، ان کی بیٹیوں سے ان کے دو پوتے بھی ہوئے۔[7]
امام اوزاعی کی زندگی دو اہم سیاسی زمانوں میں گذری، لہذا انھوں نے دولت بنی امیہ کی بساط الٹتے اور دولت عباسیہ کو قائم ہوتے دیکھا، ان کے معاصر خلفاء میں؛ الولید بن عبد الملک، سلیمان بن عبد الملک، عمر بن عبد العزیز، یزید بن عبد الملک، ابراہیم بن الولید، مروان بن محمد، ابو العباس السفاح اور ابو جعفر منصور تھےـ امام اوزاعی کا زمانہ علم کی فراوانی اور علما، فقہا، قراء اور محدثین کی کثرت کا زمانہ تھا اس زمانے کی اہم شخصیات میں سے؛ مالک بن انس، جعفر الصادق، سفیان ثوری، حسن بصری، محمد بن سیرین، ابو حنیفہ، لیث بن سعد اور دیگر علما تھےـ امام اوازعی اپنے زمانے کے بہت سے علما سے علمی، فقہی اور جرأت میں فوقیت رکھتے تھے، انھوں نے مسائل فقہیہ کے تعلق سے تیرہ سال کی عمر سے ہی فتوی دینے شروع کردئے تھے اور سترہ سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے مسائل عقائدیہ میں بھی فتوی دینے لگےـ امام اوزاعی اس اسلامی قاعدے "الرحلة فی طلب العلم" پر بہت مضبوطی سے ایمان رکھتے تھے، اسی سبب انھوں نے یمامہ، بصرہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس وغیرہ کا سفر کیا، کئی مرتبہ حج بیت اللہ کیا، یہی وجوہات تھیں کہ وہ علوم دینیہ و شرعیہ میں بہت گہرائی وگیرائی رکھتے تھے، امام اوزاعی نے اموی و عباسی دور میں دو بار قضا کا منصب ٹھکرایا، تو جب ان یزید بن ولید کے زمانے میں قاضی بنائے گئے تو صرف ایک دفعہ عدالت میں آئے پھر استعفی دے دیا، ان کا ایمان تھا کہ قضا کا منصب بہت اہم ذمہ داری ہے، کسی عام انسان کے لیے یہ ذمہ داری بہت مشکل ہے۔[8]
امام اوزاعی
[ترمیم]امام اوزاعی اُن ائمہ تابعین میں ہیں جن کا شمار دوسری صدی کے ممتاز مجتہدین مثلاً امام ابوحنیفہ، امام مالک، سفیان ثوری وغیرہ کے زمرہ میں ہوتا ہے ان کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ دوسری صدی ہجری میں فقہ وحدیث کے جومکاتب فکر پیدا ہوئے، ان میں ایک کے بانی یہ امام اوزاعی بھی ہیں، انھوں نے تقریباً پوری زندگی شام میں بسر کی، اس لیے زیادہ تریہیں ان کے مسلک وفتاوے کی ترویج واشاعت ہوئی اور یہیں سے یہ مسلک اندلس میں پہنچا۔ شام بنوامیہ کا سب سے بڑا سیاسی مرکز تا، اس لی اموی حکومت پربھی ان کے علوم و فضل اور فقہ وفتاوے کا اثر پڑا تھا، غالباً اسی وجہ سے حکومت نے ان کے سامنے عہدۂ قضا پیش کیا؛ مگرانہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شام بنوامیہ کا سب سے بڑا سیاسی مرکز تھا، اس لیے اموی حکومت پربھی ان کے علوم و فضل وار فقہ وفتاوےٰ کا اثر پڑا تھا، غالباً اسی وجہ سے حکومت نے ان کے سامنے عہدۂ قضا پیش کیا؛ مگرانہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ سنہ132ھ میں جب مشرق سے بنوامیرہ کا سیاسی اقتدار ختم ہوا تواس خاندان کے بعض حوصلہ مند افراد مغرب اقصیٰ پہنچے اور اندلس کی حکومت میں ایک نئی جان ڈالی، انھی کے ذریعہ امام اوزاعی کا مسلک اندلس آیا اور ایک مدت تک اس پراہلِ اندلس کا عمل رہا، شام میں تقریباً دوصدی تک اور اندلس میں تقریباً ایک صدی یعنی حاکم بن ہشام متوفی سنہ256ھ کے عہد تک یہ مسلک زندہ رہا، اس کے بعد مشرق میں حنفی وشافعی اور مغرب میں مالکی وحنبلی مسلکوں نے اس کی جگہ لے لی اور بالآخر آہستہ آہستہ اس مسلک پرتعامل ختم ہو گیا، فقہ وحدیث کی کتابوں میں اب بھی ان کے مجتہدات کا ذکر ملتا ہے، ان کے سوانح حیات کی پوری تفصیل ملاحظہ ہو۔
ابتدائی حالات
[ترمیم]أبو عمرو عبد الرحمن بن عمرو بن يُحمد بن عبد عمرو الأوزاعي سنة 88 هـ میں پیدا ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کا تعلق دمشق کے علاقے اوزاع سے تھا، جس سے ان کی نسبہ اوزاعی ٹھری۔ امام بخاری کے مطابق ان کا تعلق اوزاعی قبیلے سے اس لیے جوڑا جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے درمیان رہتے تھے۔ أبو زرعة دمشقي اور امام ذہبی اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق سندھ سے تھا۔ اور اسی کو راجح مانا جاتا ہے۔[9]
بچپن کا نام عبد العزیز تھا، بعد میں انھوں نے اسے تبدیل کرکے عبد الرحمن رکھا اور اسی نام سے وہ مشہور ہیں، ان کی کنیت ابوعمرو اور والد کا نام عمرو تھا۔ [10] شام کے مشہور شہر بعلبک میں سنہ85ھ میں ان کی ولادت ہوئی، ابھی بچے ہی تھے کہ سرسے والد کا سایہ اُٹھ گیا اور یہ یتیم ہو گئے، ماں نے نہ جانے کن کن مصیبتوں اور تکلیفوں کے ساتھ ان کی پرورش کی، حافظ ابنِ کثیر نے لکھا ہے کہ ان کی نشو و نما کسی ایک جگہ نہیں ہوا؛ بلکہ ان کی والدہ (غالباً معاشی پریشانیوں کی وجہ سے) ان کوشہر بہ شہر لیے پھرتی تھیں، بہت دنوں تک اِدھر اُدھر کی خاک چھاننے کے بعد خدا نے نہ جانے کیا صورت پیدا کردی کہ بیروت میں قیام پزیر ہوگئیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان کی ولادت بعلبک میں ہوئی اور پرورش کرک (دمشق کے پاس ایک گاؤں تھا، اس نام کے دوسرے مقامات بھی ہیں، حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ انھوں نے آخری عمر میں بیروت میں سکونت اختیار کرلی تھی؛ مگردوسرے تذکرہ گناروں نے وہی لکھا ہے جس کومیں نے اختیا کیا ہے) میں ہوئی اس کے بعد ان کی والدہ ان کوکرک سے لے کر بیروت چلی آئیں اور یہیں اقامت گزیں ہوگئیں؛ بہرحال بیروت پہنچنے کے بعد غالباً ان کوکچھ اطمینان نصیب ہوا توان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا، ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور بچپن کے دوسرے حالات وکوائف کا ذکر تذکروں میں بہت ہی کم بلکہ قریب قریب نہیں ملتا ہے، اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔
جوبچے خوش حال اور فارغ البال گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں یاکم از کم ان کواپنے والدین کا سایۂ عاطفت ہی نصیب ہوتا ہے، ان کا بچپن ایک خاص نہج سے گزرتا ہے، ان کی تعلیم ایک خاص نظم وترتیب اور تربیت ایک خاص معیار کے مطابق ہوتی ہے، ایسے بچے آگے چل کرجب کسی ممتاز حیثیت کے مالک ہوتے ہیں توان کے بچپن اور ان کی تعلیم و تربیت کے واقعات سینکڑوں آدمیوں کویاد ہوتے ہیں، اس لیے سوانح نگاروں کوان کے ابتدائی حالات معلوم کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی؛ مگرامام اوزاعی اس طرح کی تمام نعمتوں سے محروم تھے، نہ تووہ کسی خوش حال گھرانے میں پیدا ہوئے، نہ ان کے والد کا سایہ ان کے سرپرتھا؛ حتی کہ ان کوسن شعورتک کسی ایک جگہ رہنا بھی نصیب نہیں ہوا، ان کی ولادت کہیں ہوئی بچپن کسی اور جگہ گذرا اور جوانی کے ایام کہیں اور بسر ہوئے؛ ایسی صورت میں ان کے بچپن کے حالات اور تعلیم و تربیت کے ابتدائی واقعات پردۂ اخفا میں ہیں توکوئی تعجب کی بات نہیں۔
تعلیم اور اساتذہ
[ترمیم]اس کے باوجود ان کی انشاپردازی، فصاحت وبلاغت اور تحریر وتقریر کی بے پنا قوت وصلاحیت سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ایسے ماحول اور ایسے اساتذہ کی صحبت میں ہوئی جوان حیثیتوں سے ممتاز تھے، اہلِ تذکرہ نے ان کے زمانہ طالب علمی کے جودوایک واقعے بیان کیے ہیں اور ان کے جن اساتذہ کا تذکرہ کیا ہے، ہم اُسے یہاں نقل کرتے ہیں۔ اُوپرذکر آچکا ہے کہ یہ اپنی والدہ کے ساتھ بیروت میں میں سکونت پزیر ہو گئے تھے، یہ بیروت ہی میں تھے کہ ایک بار ان کویمامہ جانے کا اتفاق ہوا، یمامہ میں اس وقت ممتاز محدث یحییٰ بن کثیر کی مجلسِ درس برپا تھی، اس میں شریک ہونے لگے، ان کویحییٰ کی مجلس ایسی پسند آئی کہ اسی کے ہو رہے، کچھ دنوں کے بعد (غالباً ان کی صلاحیت کے اندازے کے بعد) استاد نے ہدایت کی کہ وہ بصرہ جاکر محمد بن سیرین اور شیخ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہما سے سماع حدیث کریں، استاد کے حکم کے بموجب وہ بصرہ روانہ ہو گئے؛ مگریمامہ سے بصرہ پہنچنا کچھ آسان نہ تھا، یمامہ اور بصرہ کے درمیان کئی سومیل کی مسافت تھی؛ پھرامام اوزاعی کونہ توسواری میسر تھی اور نہ بھرپورزادِراہ، نہ جانے وہ کس کس طرح اور کتنے دنوں میں افتاں وخیزاں بصرہ پہنچے، وہاں پہنچتے ہی یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ جن بزرگوں سے سماع حدیث کے لیے وہ اتنی دور سے پاپیادہ آئے ہیں، ان میں سے ایک یعنی امام حسن بصری رحمہ اللہ واصل بحق ہو چکے ہیں اور دوسرے امام محمد بن سیرین صاحب فراش ہیں، اس خبر سے ان کوجورنج ہوا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے؛ مگرسوائے صبر کے چارۂ کار کیا تھا۔ وہ ابنِ سیرین کی خدمت میں پہنے تودیکھا کہ وہ بستر مرگ پرپڑے ہیں، ایسی حالت میں وہ سماعِ حدیث سے توبہرہ مند نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنی سعادت اسی میں سمجھی کہ وہ مہلت بھی میسر ہے، اس میں حضرت ابن سیرین کی خدمت میں حاضر ہوجایا کریں؛ چنانچہ وہ جب تک وہاں رہے برابر ان کی عیادت کے لیے جاتے رہے، ممکن ہے اس اثنا میں انھوں نے ان سے زبانی کوئی حدیث سنی ہو، جیسا کہ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے؛ مگرعام ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ ان کومحمدبن سیرین سے سماع حدیث حاصل نہیں ہے۔ [11] انھوں نے تابعین کی ایک کثیر تعداد سے حدیث نبوی کی سماعت کی ہے، حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: وقد أدرك خلقا من التابعي۔ [12] ترجمہ:تابعین کی ایک کثیر تعداد کی انھوں نے صحبت اُٹھائی ہے۔ اہلِ تذکرہ نے ان کے جن اساتذہ کا ذکر کیا ہے، ان میں سے چند ممتاز تابعین اور تبع تابعین کے نام یہ ہیں: عطابن ابی رباح، قتادہ، نافع مولی ابن عمر، امام زہری، محمد بن ابراہیم، شداد بن ابی عمارہ، قاسم بن مخیمرہ، ربیعہ بن یزید وغیرہ۔ امام زہری اور یحییٰ بن ابی کثیر کے بارے میں امام اوزاعی کا خود بیان ہے کہ ان دونوں اماموں نے (غالباً زبانی سماع حدیث کے بعد) مجھے اپنے اپنے صحیفے (جن میں ان کی مرویات لکھی ہوئی تھیں) دیے اور فرمایا کہ: اروہا عنی ترجمہ:میرے واسطے سے تم اس کی روایت کرو۔ یعقوب بن شیبہ نے یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ وہ امام زہری رحمہ اللہ سے امام اوزاعی رحمہ اللہ کی روایت کوکوئی اہمیت نہیں دیتے تھے؛ مگرابن شیبہ یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں، زہری سے امام اوزاعی کی روایت خاص چیز ہے۔ [13] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابنِ شیبہ نے ابنِ معین کی اس رائے کوقبول نہیں کیا ہے۔
درس وافتا
[ترمیم]بعض سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ تیرہ برس کی عمر میں مسندِ درس وافتا پربیٹھ گئے تھے؛ مگراس روایت میں یاتومبالغہ ہے یاغلط فہمی کی بنا پرعمر غلط درج ہو گئی ہے، جوحافظ ابن کثیر نے لکھی ہے کہ سنہ13ھ سے جب کہ ان کی عمر پچیس برس کی تھی؛ انھوں نے فتویٰ دینا شروع کر دیا تھا، یہ توپتہ نہیں چلتا کہ انھوں نے باقاعدہ اپنی کوئی مجلسِ درس قائم کی تھی؛ مگرتمام ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ دینی مسائل میں اہلِ شام انھی کی طرف رجوع کرتے تھے، ہقل بن زیاد جوان کے خاص شاگرد ہیں ان کا بیان ہے کہ: أفتى الاوزاعي في سبعين ألف مسألة بحدثنا،وأخبرنا۔ [14] ترجمہ: انھوں نے سترہزار مسئلوں کا جواب حدیث کی روشنی میں دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی خاص مجلس درس توقائم نہیں تھی؛ مگردوسرے طریقوں سے اہلِ علم ان سے استفادہ وروایت کرتے تھے، محاسن المسامی میں ہے کہ وہ نمازِ فجر کے بعد حاص ضرورت کے علاوہ کسی سے بات چیت نہیں کرتے تھے؛ بلکہ ذکرِ الہٰی میں مشغول رہتے تھے، تلامذہ انتظار میں رہتے تھے، جب سورج نکل آتا تھا تواستاد وتلامذہ فقہ وحدیث کے مذاکرہ میں لگ جاتے تھے: قال: ثم يقومون فيتذاكرون في الفقه والحديث۔ [15] اُن سے روایت کرنے والوں میں متعدد اکابر ائمہ ہیں، چند نام یہ ہیں: امام مالک، امام شعبہ، سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان، ابن ابی الزماء، ہقل بن زیاد، ابواسحاق انفرادی رحمہم اللہ علیہم اجمعین وغیرہ۔ امام اوزاعی کویہ فخر حاصل ہے کہ امام زہری اور افتادہ نے بھی جوان کے استاذ اور ائمہ تابعین کے سرخیل ہیں، ان سے روایت کی ہے۔ [16]
فضل وکمال
[ترمیم]ان کے فضل وکمال کا اعتراف تمام اکابر ائمہ فقہ وحدیث نے کیا ہے، یحییٰ بن معین فرماتے تھے، ائمہ توچار ہیں، امام ابوحنیفہ، امام مالک، سفیان ثوری اور امام اوزاعی [17] ابھی تک امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے مسلکوں کی شہرت نہیں ہوئی تھی؛ بلکہ اسلامی مملکت کی بیشتر آبادی انھی ائمہ کے فقہ وفتاوے پرعامل تھی) عبد الرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ اس وقت حدیث میں چار امام ہیں، امام اوزاعی، امام مالک، سفیان ثوری اور حماد بن زید [18] انھی کا قول ہے کہ شام میں امام اوزاعی سے زیادہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جاننے والا کوئی دوسرا نہیں ہے، امام شافعی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے حدیث میں ان سے زیادہ سمجھدار اور فقیہ آدمی نہیں دیکھا۔ [19] سفیان بن عیینہ ان کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ اپنے زمانہ کے امام ہیں، ابواسحاق فراری کا قول ہے کہ میں نے امام اوزاعی اور سفیان ثوری جیسا صاحب علم و فضل نہیں دیکھا۔ [20] ابوزرعہ رازی فرماتے تھے، امام اوزاعی اپنے علم و فضل اور کثرتِ روایت کی بنا پراہلِ شام کے مرجع بن گئے تھے اور اہلِ شام انھی سے فتاوے لیتے تھے، اوپر ذکر آچکا ہے کہ انھوں نے تقریباً سترہزار مسائل کا جواب حدیث وآثار کی روشنی میں دیا تھا، امیہ بن زید سے کسی نے پوچھا کہ مکحول (مشہور تابعی ہیں) کے مقابلہ میں اوزاعی کا کیا درجہ ہے؛ انھوں نے کہا کہ اوزاعی کا رتبہ ہمارے نزدیک مکحول سے زیادہ ہے، پوچھا کہ محکول نے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا، فرمایا کہ ہاں روایت صحابہ کا فضل انھیں ضرور حاصل تھا؛ مگریہ فضل اضافی ہے، امام اوزاعی میں جوفضل وکمال ہے وہ ان کا ذاتی ہے [21] دوسری روایت میں ہے کہ ان میں علم وعبادت اور اظہارِ حق ہرچیز جمع تھی، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ امام اوزاعی ان ائمہ میں ہیں جن کی اقتدا کی جا سکتی ہے۔ [22] امام نووی رحمہ اللہ ان کے فضل وکمال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وقد أجمع العلماء على إمامة الأوزاعى، وجلالته، وعلو مرتبته، وكمال فضله۔ [23] ترجمہ:امام اوزاعی کی امامت، جلالتِ شان، علو مرتبت اور فضل وکمال پرسب کا اتفاق ہے۔ اس کے بعد انھوں نے لکھا ہے کہ ان کے علم و فضل، زہد وتقویٰ اور اظہارِ حق میں ان کی جرأت وہمت کے بارے میں سلف کے اقوال مشہور و معروف ہیں ۔ [24] حافظ ابن کثیر نے ان کے علم و فضل کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے۔ خلفاء وزراء اور تجار وغیرہ کے کسی طبقہ میں بھی ان سے زیادہ صاحب علم و فضل اور فصیح وبلیغ، متقی وپرہیزگار آدمی نہیں دیکھا، فقہ وحدیث، سیرت ومغازی اور دوسرے اسلامی علوم میں نہ صرف اپنے اہلِ وطن پربلکہ تمام ممالکِ اسلامیہ پران کی سیادت کا سکہ بیٹھا ہوا تھا، زبان و ادب کا ذوق بھی ان میں فطری تھا، ان کی تحریر وتقریر دونوں نہایت فصیح وبلیغ ہوتی تھیں، ان کی زبان سے جوبات بھی نکلتی لوگ حسن بیان اور فصاحت کی وجہ سے اس کولکھ لیتے تھے اور وہ تحریر بطورِ نمونہ اپنے پاس رکھتے تھے، دربارِ خلافت میں بھی ان کی تحریریں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں، خصوصیت سے عباسی خلیفہ منصور کوان کی تحریر بہت پسند تھی، ایک بار اس نے اپنے خاص کاتب سے کہا کہ حکومت کی طرف سے جوخطوط وفرامینِ ملک کے دوسرے حصوں میں بھیجے جاتے ہیں، ان میں تمھیں امام اوزاعی کی تحریر سے مدد لینی چاہیے؛ تاکہ ان خطوط کی زبان فصیح وبلیغ سمجھی جائے، کاتب نے کہا کہ امیر المومنین! پوری مملکت میں اس وقت ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جوان کی تحریر کا چربہ اُتار سکے یااس کی تقلید کرسکے۔ [25] ان کے علم و فضل کا تذکرہ اُن کی تصنیفات کے ضمن میں بھی آئے گا۔
عقائد میں ان کا مسلک
[ترمیم]اس زمانہ میں جبروقدر کے مسائل عام طور پررائج ہو گئے تھے، خاص طور پرایمان کے بسیط ومرکب ہونے کی بحثیں عام طور پراہلِ علم کا موضوعِ بحث تھیں، امام اوزاعی اس بارے میں عام محدثین اور سلف کا مسلک رکھتے تھے، فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلاف ایمان وعمل میں تفریق نہیں کرتے تھے، عمل ایمان سے ہے اور ایمان عمل سے، ایمان ایک جامع لفظ ہے، توجواپنی زبان سے ایمان کا اقرار کرے، قلب میں اس کی معرفت رکھے اور عمل سے اس کا ثبوت دے، اس نے ایک کڑا تھام لیا جوٹوٹ نہیں سکتا: فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَاانْفِصَامَ لَهَا۔ [26] اورجوشخص زبان سے توایمان کا اظہار کرے؛ مگرنہ تواس کا قلب اس کی معرفت کا لذت شناس ہو اور نہ وہ عمل سے اس کا ثبوت دے توایسے شخص کا ایمان خدا کے یہاں مقبول نہیں، آخرت میں وہ نامراد ہوگا۔
مناظرہ
[ترمیم]امام اوزادی بحث ومباحثہ اور مناظرہ ومجادلہ سے دور رہتے تھے؛ مگر جب اس کی ضرورت آجاتی تھی تواثبات حق کے لیے مناظرہ بھی کر لیا کرتے تھے، پہلی صدی کے آخر میں یونانی فلسفہ کے اثر سے بہت سے فرقے پیدا ہو گئے تھے، ان میں ایک فرقہ قدریہ بھی تھا، دوسری صدی کی ابتدا میں اس کا بڑا زور تھا، ان کا خیال تھا کہ قدیر کوئی چیز نہیں، خدا پیدا کردینے کے بعد پھرا سمیں کوئی تبدیلی پیدا کرنے پرقادر نہیں ہے، انسان بالکل مختارِ مطلق ہے، وہ جوچاہیے کرے، اس کے لیے محض اس کی مشیت اور اس کا اراداہ کافی ہے۔ ہشام بن عبدالملک متوفی سنہ125ھ سے لوگوں نے ایک قدری کی شکایت کی اس نے اس کوبلوایا اور کہا کیا بات ہے کہ تمھارے بارے میں لو گ چہ می گوئیاں کر رہے ہیں، بولا کہ اگرلوگ میری شکایت کرتے ہیں تواس کا فیصلہ تواسی وقت ہو سکتا ہے جب مجھے کوئی قائل کر دے کہ میں جوکچھ کہتا ہوں وہ غلط ہے؛ اگرکوئی مجھے قائل کردیتا ہے توآپ کومیری طرف سے پوری اجازت ہے کہ میرا سرقلم کر دیں، ہشام نے کہا بات معقول ہے، ہشام نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کوبلواکر عرض کیا کہ آپ ہماری طرف سے اس سے گفتگو کیجئے، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے قدری سے فرمایا کہ تین یاچار باتیں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں، تم ان میں انتخاب کرلو! اس نے کہا آپ تین سوال کرسکتے ہیں، فرمایا:ہل قضى الله على ما نهى؟ کیا خدا نے جس چیز سے روکا ہے اس کے خلاف بھی فیصلہ کرتا ہے؟ بولا کہ اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں؛ پھرپوچھا کہ خدا نے جوحکم دیا ہے، اس کے درمیان خود حائل بھی ہوجاتا ہے، بولا یہ توپہلے سوال سے بھی زیادہ سخت ہے، اس کا بھی میرے پاس کوئی جواب نہیں؛ پھرسوال کیا کہ جن چیزوں کواس نے حرام کیا ہے، اس کے استعمال کی بھی اجازت دیتا ہے؟ کہا یہ اور بھی مشکل ہے، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: امیر المومنین! میں نے تین باتیں پوچھیں، تینوں کے جواب سے عاجز رہا، آپ خود فیصلہ کر لیں، ہشام نے اس کووہی سزادی جس کا وہ مستحق تھا؛ پھرالگ سے ہشام نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگروہ ایک ہی سوال کی اجازت دیتا توآپ اس سے کیا پوچھتے؟ فرمایا: میں اس سے پوچھتا کہ تمھاری اور خدا کی مشیت برابر درجہ کی چیز ہے یاکم درجہ کی، اس کا وہ جوجواب دیتا، اس کے عقیدہ کے خلاف ہوتا؛ پھرانہوں نے اپنے سوالات کی تفصیل بتائی۔
خلافت کی اہلیت
[ترمیم]غیر معمولی علوم و فضل کے ساتھ حکمرانی وانتظام ملکی کی صلاحیت بہت کم جمع ہوتی ہے؛ مگریہ دونوں خوبیاں بیک وقت ان میں موجود تھیں، ایک بار امام اوزاعی رحمہ اللہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ کے پاس گئے، وہاں سے واپس ہوئے توامام مالک رحمہ اللہ نے ان کے متعلق فرمایا کہ سفیان علم میں بڑھے ہوئے ہیں اور اوزاعی علم کے ساتھ انتظامِ ملکی کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: وكان يصلح للخلافة۔ ترجمہ:وہ خلیفہ بنائے جانے کے لائق تھے۔ [27] امام مالک رحمہ اللہ فرماتے تھے انہ یصلح للامامۃ (یہ امامت کے لائق تھے)، ابواسحاق فزاری فرماتے تھے کہ اس زمانہ میں اگرخلفاء کے انتخاب کا اختیار اُمت کودیدیا جائے تومیں امام اوزاعی کومنتخب کروں گا۔ [28] امیرشکیب ارسلاں لکھتے ہیں کہ، امام اوزاعی عالم تھے؛ مگروہ عام علما کی طرح نہیں تھے؛ بلکہ ان کے علم وعمل میں مطابقت تھی، انھوں نے حفظ وروایت اور فکرونظر ہی تک اپنی توجہ مبذول نہیں رکھی؛ بلکہ امت کے ہرکام سے دلچسپی لی؛ انھوں نے عبادت وریاضت کرکے محض اپنی ذات ہی کے نجات کی راہ نہیں ڈھونڈی بلکہ عدل وانصاف کے پھیلانے اور مخلوق خدا کی بھلائی اور راحت رسانی کی فکر بھی کی، امام کثرتِ عبادت اور ورع وزہد کے ساتھ اس حدیث پربھی عامل تھے: عدل ساعة خير من عبادة ألف سنة۔ [29] ترجمہ:ایک گھڑی کا عدل وانصاف ہزار مہینہ کی عبادت سے بہتر ہے۔
سیرت وکردار
[ترمیم]سیرت وکردار میں صحابہ وتابعین کانمونہ تھے، زہدوقناعت سخاوت وفیاضی، حق گوئی وبیباکی، وعظ وپند اور امت کی خیرخواہی، یہ سب ان کے نمایاں اوصاف تھے۔ بچپن سے انھوں نے فقروفاقہ کی زندگی بسر کی تھی؛ مگرزہدوقناعت کا حال یہ تھا کہ خود کبھی دربارِ خلافت کا رُخ نہیں کیا، خلفائے بنوامیہ کے یہاں بھی معزز ومحترم تھے اور خلفائے عباسیہ میں بھی ان کا وقار اور اعزاز تھا؛ مگرکبھی کسی سے کوئی مدد نہیں لی؛ خلفائے بنوامیہ نے ان کومتعدد بار جاگیریں دی تھیں؛ نیز دربارِ خلافت میں پیش کیے گئے؛ مگرانہوں نے نہ توکبھی ان جاگیروں کے کسی چپہ سے فائدہ اُٹھایا اور نہ نقد رقم کا ایک حبہ اپنی ذاتی ضروریات پرخرچ کیا؛ بلکہ یہ ساری جائداد اور پوری رقم فقراومساکین اور جہاد فی سبیل اللہ میں لگادی اور خود ہمیشہ فقروفاقہ کی زندگی بسر کی، جب انتقال ہوا توسارا اثاثِ بیت سات دینار سے زیادہ کا نہ تھا۔
جرأت وحق گوئی
[ترمیم]جرأت وحق گوئی ان کی سیرت کا سب سے نمایاں وصف تھا، اس سلسلہ میں امیرشکیب ارسلان نے جوکچھ لکھا ہے، اس کوہم یہاں نقل کرتے ہیں: امام اوزاعی نے خلفاء وامرا کے سامنے جس جرأت وحق گوئی کا ثبوت دیا ہے، اس کی مثال تاریخِ اسلام میں بہت کم ملے گی، لبنان کے عیسائیوں کے بارے میں وہاں کے امیرصالح بن علی کوانہوں نے جوخط لکھا اس کوغور سے پڑھیے، بنوامیہ کے بارے میں عبد اللہ بن علی سے انھوں نے جوگفتگو کی، اس کوسامنے رکھیے، منصور کوانہوں نے جوناصحانہ خطوط لکھے، ان پرایک نظر ڈال لیجئے، ان سب میں آپ کوان کا یہ وصف نمایاں نظر آئے گا: ولعمری لوکان العلماء الذین من نحط الاوزاعی عددا کبیرا فی الاسلام لماقدکان اسرع الفساد الی المجمع الاسلامی ولاکانت انحطت ودل الاسلام بعد ذلک العلو فی الارض وانما کانت آنۃ ھٰذہ الامۃ فسادا مرائہا وجبن علمائہا۔ [30] ترجمہ:خدا کی قسم اگرعلمائے اُمت میں امام اوزاعی کی روش اختیار کرنے والوں کی ایک معتدبہ تعداد موجود رہا کرتی تواسلامی معاشرہ میں نہ تواتنی جلدی فساد پیدا ہوجاتا اور نہ اسلامی حکومت غیر معمولی عروج کے بعد اتنی جلد زوال پزیر ہوتی، اس امت کی ساری مصیبت امراکا بگاڑ اور علما کی بزدلی ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے جن جن مواقع پرامرا اور خلفاء کے سامنے جرأت وحق گوئی کا ثبوت دیا ہے، اس کی تفصیل ملاحظہ ہو، بنوامیہ کی حکومت سے امام اوزاعی کا کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا؛ مگرجس ظلم وتشدد کے ساتھ وہ شام سے جلاوطن کیے گئے تھے، غالباً وہ امام کوپسند نہیں تھا؛ ممکن ہے کہ انھوں نے اس بارے میں کچھ اظہارِ خیال بی کیا ہو، عبد اللہ بن علی جس نے شام سے بنوامیہ کا خاتمہ کیا تھا، جب اس کوبنوامیہ کی طرف سے کچھ اطمینان ہوا تواس نے ان تمام لوگوں کا صفایا کرنا شروع کیا، جن کواموی حکومت سے کسی درجہ میں بھی ہمدردی تھی، اس سللسہ میں امام اوزاعی رحمہ اللہ کی بھی تلاش ہوئی، یہ کئی دن چھپے رہے؛ مگرپھرجرأت کرکے خود دربار میں حاضر ہو گئے، فرماتے ہیں جس وقت میں دربار میں داخل ہوا تودیکھا کہ عبد اللہ ایک تخت پرمتمکن ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک نیزہ ہے، اس کے اردگرد بہت سے جلادنما سپاہی ننگی تلواریں لیے کھڑے ہیں، میں نے پہنچ کرسلام کیا، اس نے سلام کا جواب دینے کی بجائے اپنے نیزہ کوزمین پرپٹکتے ہوئے کہا: اوزاعی! ہم نے ان ظالموں (بنوامیہ) سے ملک اور اس کے باشندوں کونجات دلانے میں جوجنگ کی ہے، یہ جہاد ہے کہ نہیں؟ امام اوزاعی رحمہ اللہ کے لیے یہ بڑا سخت وقت تھا؛ مگرانہوں نے نہایت ہی حکیمانہ جواب دیا، فرمایا کہ میں نے یحییٰ بن سعید کے واسطہ سے یہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سنی ہے کہ: تمام اعمال کا مدار نیت پر ہے، ہرشخص اپنے اعمال میں جیسی نیک وبدنیت کرے گا، ویسا ہی اسے اجر ملے گا۔
مقصد یہ تھا کہ اگرتمہاری نیت صرف ملک گیری کی تھی توتم کواس کا اجرملے گا اور اگر اعلائے کلمۃ اللہ مقصود تھا توپھر جہاد کا ثواب ملے گا، یہ غیر متوقع جواب سن کرابن علی غصہ سے بیتاب ہو گیا اور اسی غصہ میں اپنے نیزہ کوزمین پرایک بار پھرتیزی سے پٹکا اور معاً دوسرا سوال یہ کیا کہ: ياأوزاعي ماتقول في دماء بني أمية؟۔ [31] ترجمہ:اے اوزاعی! بنی امیہ کے خون کے بارے میں کیا خیال ہے؟ (یعنی ان کا قتل کرنا جائز ہے یاحرام)۔ آپ نے اپنی طرف سے کوئی جواب دینے کی بجائے نہایت ہی متانت کے ساتھ ایک حدیث پھرسنائی، وہ حدیث یہ ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان کا خون کرنا تین حالتوں میں جائز ہو سکتا ہے، قصاص میں یاشدی کے بعد زنا میں یاپھرارتداد کے بعد۔ یہ جواب بھی اس کی توقع کے بالکل خلاف تھا؛ اسی لیے اس نے اس دفعہ اور زیادہ غصہ کا اظہار کیا؛ پھرپوچھا: کہ اچھا بنوامیہ کے مال کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟۔ آپ نے فرمایا ان کے پاس جودولت تھی اگروہ حرام ذریعہ سے ان کے ہاتھ میں آئی تھی توبہرحال وہ تمھارے ہاتھ میں پہنچ کرحلال تونہیں ہو سکتی اور اگروہ حلال تھی توتم اس کواسی طریقہ سے لے سکتے ہوجس طرح شریعت نے اجازت دی ہے، یہ جواب سن کروہ بالکل آگ بگولہ ہو گیا، امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ میں اس جواب کے بعد متوقع تھا کہ ابھی وہ میرے قتل کا حکم دیدے گا؛ مگراب اس نے ترہیب کی بجائے ترغیب سے کام لینا شروع کیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ: کیوں اگرآپ کوعہدۂ قضا سونپ دیا جائے توکیا ہرج ہے؟ انھوں نے کہا کہ آپ کے اسلاف نے اس ذمہ داری سے مجھے سبکدوش رکھا تومیں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اسی روش پرقائم رہیں۔ اس سوال وجواب کے بعد اس نے اُن کوواپس جانے کی اجازت دے دی، امام اوزاعی رحمہ اللہ دربار سے رخصت ہوکر ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ عبد اللہ کا ایک قاصد لپکا ہوا ان کے پاس پہنچا، امام اوزاعی نے دیکھا توسمجھے کہ وہ غالباً میرے قتل کا پروانہ لارہا ہے؛ چاہا کہ فوراً سواری سے اُترکر دورکعت نماز ادا کر لیں (قتل سے پہلے دورکعت نماز ایک صحابی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی سنت ہے) چنانچہ انھوں نے نماز کی نیت باندھ لی، قاصد انتظار کرتا رہا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تواس نے دوسودینار کی ایک تھیلی پیش کی اور کہا کہ یہ امیر نے آپ کے لیے بھیجا ہے، امام اوزاعی کا بیان ہے کہ میں نے خوف کی بناپریہ رقم لے لی؛ مگرگھرپہنچنے سے پہلے پوری رقم صدقہ کردی۔ [32]
منصور کوناصحانہ خطوط
[ترمیم]خلفائے عباسیہ میں منصور حددرجہ خودرائے، جابر اور متشدد واقع ہوا تھا؛ اسی نے عہدۂ قضا نہ قبول کرنے پرامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کوکوڑے لگوائے اور قید کر دیا؛ اسی نے طلاق مکرہ میں اس کی مرضی کے خلاف فتویٰ دینے پرامام مالک رحمۃ اللہ علیہ کوسربازار سوار کیا اور اُن کا ایک ہاتھ بازوسمیت اُکھڑوالیا؛ اسی نے سفیان ثوری رحمہ اللہ جیسے برگزیدہ بزرگ کوطرح طرح کی تکلیفیں دیں، یہ سب واقعات امام اوزاعی کے سامنے تھے؛ اس کے باوجود وہ حق گوئی وبیباکی سے سے باز نہیں رہے، منصور اپنی خودرائی اور جبرواستبداد کے باوجود غالباً اپنی سیہ کاری کوچھپانے کے لیے اس بات کا خواہش مند رہتا تھا کہ امام اوزاعی اس کے دربار میں آکراسے نیک مشورے دیں؛ مگرامام اوزاعی بغیرطلب کے نہ کبھی دربار میں آئے اور نہ بغیر کسی شدید ملی ضرورت کے کوئی تحریر لکھی، پہلی بار منصور جب شام آیا اور امام اوزاعی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی توانہوں نے ا سکوبہت سی نصیحتیں کیں، جب واپس ہونے لگے توانہوں نے منصور سے کہا کہ مجھے سیاہ لباس (سیاہ لباس عباسی حکومت کا سرکاری لباس تھا، اس وقت دربار میں اس لباس میں نہ پہنچنے کے معنی حکومت سے بغاوت کے تھے)پہننے سے معاف رکھا جائے، اس نے اجازت دیدی، جب وہ دربار سے رخصت ہو گئے تواپنے ندیمِ خاص ربیع کوان کے پاس بھیجا اور کہا کہ میرا نام ظاہر نہ کرنا؛ بلکہ اپنی طرف سے دریافت کرنا کہ سیاہ لباس وہ کیوں ناپسند کرتے ہیں، ربیع کے دریافت کرنے پرفرمایا کہ سیاہ لباس نہ تواحرام میں استعمال کیا جاتا ہے، نہ تجہیز وتکفین میں اور نہ شادی کے موقع پرتوپھر اس کی کیا ضرورت ہے۔ [33] ایک بار منصور نے ان کوایک خط لکھا اور یہ آرزو کی کہ کوئی خیرخواہانہ مشورہ دیجئے، اس کے جواب میں انھوں نے نہایت مختصر اور بلیغ خط لکھا، اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں: أما بعد! فعليك بتقوى الله، وتواضع يرفعك الله يوم يضع المتكبرين في الارض بغير الحق، واعلم أن قرابتك من رسول الله صلى الله عليه وسلم ولن تزيد حق الله إلاوجوبا۔ [34] ترجمہ: امیر المومنین! آپ اپنے اوپر خدا کا تقویٰ لازم کرلیجئے اور تواضع اختیار کیجئے، خدا تعالیٰ آپ کواس دن بلند کریگا جس دن ان متکبرین کوجوناحق زمین پربڑے بنتے ہیں، ذلیل کرائے گا اور اچھی طرح غور کرلیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی قرابت خدا کے یہاں حق سے زیادہ آپ کوکچھ نہ دلائیگی۔ اس خط میں امام اوزاعی رحمہ اللہ نے منصور کی تین کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ہے، جنھوں نے اس کوحددرجہ مستبد بنادیا تھا، یعنی خوفِ خدا کی کمی، حکومت کا غرور اور نسلی شرف؛ اگرکوئی دینی یاملی ضرورت پیش آجاتی تھی توبغیرطلب بھی اس کوخط لکھ کراس کی طرف متوجہ کرتے تھے؛ ابراہیم بن علی اور محمد بن حسن نے منصور کے خلاف جب علم بغاوت اُٹھایا تومنصور نے سرحدی مسلمانوں سے بھی مدد مانگی؛ انھوں نے اس کومدد نہیں دی؛ چونکہ وہ رومی حکومت کے بالکل زد میں تھے (غالباً حکومت نے منصور کی خفگی سے فائدہ اُٹھایا) انھوں نے بہت سے سرحدی مسلمانوں کوقید کر لیا اور منصور کے پاس خط لکھا کہ اگرآپ چاہیں توفدیہ دے کرمسلمان قیدیوں کوچھڑا سکتے ہیں، منصور چونکہ ان سے ناخوش تھا اس لیے اس نے انکار کر دیا، امام اوزاعی رحمہ اللہ کوجب اس کی اطلاع ہوئی کہ ہزاروں مسلمان رومیوں کے ہاتھ قیدوبند کی مصیبت جھیل رہے ہیں اور منصور کورہا کرنے کی کوئی فکر نہیں ہے توانہوں نے ایک لمبا سخت خط لکھا جس میں منصور کی ذمہ داری کا ذکر کرکے مسلمان قیدیوں کی رہائی کی طرف توجہ دلائی، اس خط کومع ترجمہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں: أمابعد! فإن الله تعالى إسترعاك أمر هذه الأمة لتكون فيها بالقسط قائما وبنيه صلى الله عليه و سلم في خفض الجناح والرأفة متشبها وأسأل الله تعالى أن يسكن على أمير المؤمنين دهماء هذه الأمة ويرزقه رحمتها فان سايحة المشركين غلبت عام أول وموطؤهم حريم المسلمين واستنزالهم العواتق والذراري من المعاقل والحصون وكان ذلك بذنوب العباد وماعفا الله عنه أكثر فبذنوب العباد استنزلت العواتق والذرارى من المعاقل والحصون لايلقون لهم ناصرا ولاعنهم مدافعا كاشفات عن رؤسهن وأقدا مهن فكان ذلك بمرأى ومسمع وحيث ينظر الله إلى خلقه وإعراضهم عنه فليتق الله یاأميرالمؤمنين وليتبع بالمفادات بهم من الله سبيلا وليخرج من حجة الله تعالى فان الله تعالى قال لنبيه ومالكم لاتقاتلون في سبيل الله والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان وقد بلغني عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال إني لأسمع بكاء الصبي خلفي في الصلاة فأتجوز فيها مخافة أن تفتتن أمه فكيف بتخليتهم ياأميرالمؤمنين في أيدي عدوهم يمتهنونهم ويتكشفون منهم مالانستحله نحن إلابنكاح وأنت راعي الله والله تعالى فوقك ومستوف منك يوم توضع الموازين القسط ليوم القيامة فلاتظلم نفس شيئا وإن كان مثقال حبة من خردل أتينا بها وكفى بنا حاسبين۔ [35] ترجمہ: اما بعد! اللہ تعالیٰ نے آپ کواس اُمت کا ذمہ دار اور نگہبان اس لیے بنایا ہے کہ آپ اس میں انصاف قائم کریں اور مسلمانوں کے ساتھ محبت اور شفقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مشابہت پیدا کریں، میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں پراس وقت جومصیبت آئی ہے، اُس میں وہ آپ کواطمینان نصیب کرے اور ان پررحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اس سال کی ابتدا میں (رومی) مشرکین کوجوغلبہ ہوا ہے، اس میں انھوں نے مسلمانوں کے گھروں کوروند ڈالا ہے، ان کی عورتوں اور بچوں کو، ان کے گھروں اور قلعوں سے نکال کر ذلیل کیا ہے، یہ سب بندوں کے گناہوں کا نتیجہ ہے؛ اگرچہ خدا نے ان کے گناہوں کوبہت کچھ معاف کر دیا ہے (ورنہ اور بڑی مصیبت آتی) توبندوں کے گناہوں ہی کا نتیجہ ہے کہ عورتیں اور بچے اپنے گھروں اور پناہ گاہوں سے اس طرح نکالے گئے کہ نہ ان کا کوئی مددگار ہے اور نہ ان کی طرف سے کوئی مدافعت کرنے والا ہے، عورتوں کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ ان کے سراور پیرننگے ہیں اور یہ سب ہمارے دیکھتے اور سنتے ہورہا ہے اور جس وقت خدا تعالیٰ اپنی اور ان کی عزت کی تخلیق پرنگاہ ڈالے گا توامیرالمؤمنین! اس بارے میں آپ کو خدا سے ڈرنا چاہیے اور ان کا فدیہ دے خدا کے غصب سے بچنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہیے اور اس کی حجت سے کوئی مفر تلاش کرنا چاہیے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے کہ تم کوکیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستہ میں لڑتے نہیں اور کمزور مرد، عورتیں، بچے اس بستی سے نکلنے کی دُعا کرتے ہیں، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی پہنچا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگرنماز میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تواس کومختصر کردیتا ہوں کہ اس کی ماں پریشان نہ ہو، ان احکام کی موجودگی میں امیر المومنین! مسلمانوں کواُن کے دشمنوں کے ہاتھ میں چھوڑ دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ ان کوتکلیف دیں اور اُن کی بے حرمتی کریں، آپ خدا کے راعی ہیں اور خدا تعالیٰ آپ کے اوپر راعی ہیں وہ آپ سے اس دن اس ذمہ داری کا پورا پورا حق چاہے گا، اس نے کہا جس دن ہم انصاف کی ترازو لگائیں گے اس دن کسی پرکوئی ظلم نہ ہوگا؛ اگرکوئی رائی کے برابر بھی برائی کریگا توہم اس کوسامنے لائیں گے اور ہمارا حساب کافی ہے۔ اہلِ تذکرہ بیان کرتے ہیں کہ اس خط کا یہ اثر ہوا کہ اس نے فورا فدیہ دے کرمسلمانوں کورہا کرلینے کا حکم دیا: فلما وصل إليه كتابه أمر بالفداء۔ [36] ترجمہ:جس وقت یہ خط پہنچا؛ اسی وقت اس نے فدیہ دیکر مسلمانوں کوچھڑالینے کا حکم دیا۔ اس خط کی اہمیت کا پورا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب منصور کی مستبدانہ روش کوبھی نگاہ میں رکھا جائے۔
غیر مسلم رعایا کے ساتھ عدل کی تاکید
[ترمیم]ان کا یہ طرزِ عمل صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ نہیں تھا؛ بلکہ غیر مسلموں پربھی وہ اسی طرح شفیق ورحیم رہتے تھے، اس سلسلہ میں امیرشکیب ارسلاں کا بیان ملاحظہ ہو: امام اوزاعی رحمہ اللہ ضروری سمجھتے تھے کہ اسلام نے انسان کوجوبنیادی حقوق دیے ہیں وہ ان کودین و مذہب کی تفریق کے بغیر دیے جائیں؛ چنانچہ امیر صالح بن علی نے جب جبل لبنان کے نصاریٰ پرظلم کیا توانہوں نے سخت نکیر کی اور اس کوخط لکھا وہ اس آیتِ قرآنی پرعامل تھے: وَلَايَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّاتَعْدِلُوا۔ [37] ترجمہ:اور کسی قوم کی دُشمنی تمھیں اس بات پرآمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرو۔ [38] اسی طرح جب اہلِ قبرص کا معاملہ پیش ہوا تواس میں بھی مداخلت کی، غرض یہ کہ ان کی روش سے صاف طور پرمعلوم ہوتا تھا کہ اسلام عدل واصاف اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے والادین ہے اور ظلم وتعدی سے اس کونفرت ہے۔ [39] ایک بار منصور نے ان کوبلابھیجا، دور سے آنا تھا، اس لیے دیر ہو گئی، دربار میں پہنچے تومنصور نے کہا میں دیر سے منتظر تھا، آپ نے اس کا توکوئی جواب نہیں دیا؛ لیکن یہ پوچھا کہ آپ نے کس لیے یاد کیا ہے؟ بولا کچھ اخذ واستفادہ کرنا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا، میں تیار ہوں؛ مگراس شرط کے ساتھ کہ میں جوکچھ کہوں اسے آپ بھول نہ جائیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کے ارشادات کوبھلادوں، جب کہ میں نے خود ہی اس کے لیے آپ کوتکلیف دی ہے، فرمایا ہاں اس کوآپ سن تولیں گے مگراس پرعمل نہ رکیں گے، ان کا یہ اندازِ گفتگو منصور کے حاجب ربیع کوبرا معلوم ہوا اور اُن کوتنبیہ کرنی چاہی؛ مگرمنصور نے اس گستاخی سے یہ کہہ کراسے رُوک دیا کہ تم کومعلوم نہیں ہے کہ یہ درس وافادہ کی مجلس ہے، شاہی دربار نہیں، جب امام اوزاعی رحمہ اللہ کوپورا اندازہ ہو گیا کہ منصور میں اس وقت جذبہ نصیحت پذیری موجود ہے اور ان کی باتوں کوبڑی توجہ سے سن رہا ہے تواس کے سامنے چند احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کیں، پہلی حدیث مکحول کے واسطہ سے یہ بیان کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی بندے کوخدا کے دین کی کوئی بات معلوم ہوتی ہے اور وہ اس کوقبول کرکے اس کی قدر کرتا ہے تواس کے لیے وہ خدا کی ایک نعمت ہوتی ہے، جوخاص طور پراس کے لیے بھیجی گئی ہے اور اگروہ اُٹھ کر اس کی ناقدری کرتا ہے تواس کے اوپر وہ ایک حجت ہوتی ہے اور اس ناقدری کی وجہ سے وہ اپنے گناہوں میں بھی اضافہ کرلیتاہے اور خدا کا غضب بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس حدیث کے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ جوباتیں میں کہوں اس کی قدردانی تمھارے لیے مفید ہوگی اور اگرناقدری کروگے تودنیا وآخرت دونوں جگہ تم نقصان اُٹھاؤگے؛ پھردوسری حدیث یہ سنائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوحاکم رعیت پرظلم وزیادتی کرکے چین کی نیند سوتا ہے، خدا اس کے اوپر جنت حرام کر دے گا، یہ حدیث سنانے کے بعد آپ نے ایک لمبی تقریر کی جس کا ایک ایک جملہ حرزجان بنانے کے قابل ہے، عام فائدہ کے لیے ہم یہاں چند جملے نقل کرتے ہیں: امیر المومنین! جس نے حق بات کوناپسند کیا، اس نے خدا کوناپسند کیا، اس لیے کہ اللہ سراسر حق ہی ہے، ہُوَالْحَقُّ الْمُبِیْن، امیر المومنین جس چیز نے لوگوں کے دلوں کوآپ کی طرف مائل کیا اور انھوں نے آپ کو اپنا حاکم بنایا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت نسبی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے نہایت ہی مہربان، رحیم، ہمدرد اور غم خوار تھے، آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ لوگوں پرحق(خدا کا حق ہویابندوں کا) نافذ کریں، ان کے درمیان انصاف کریں، ان کی غلطیوں سے چشم پوچی کریں (اس بات پراس ماحول کوسامنے رکھ کرغور کرنا چاہیے جس میں ادنی سی غلطی پرگردن زدنی کا حکم ہوجایا کرتا تھا) ان کے اوپر اپنا دروازہ کھلا رکھیں، یہ نہ ہو کہ آپ کے دروازہ پرپہرہ دار بیٹھے رہیں اور لوگ آپ تک نہ پہنچ سکیں، آپ کوعوام کی خوش حالی سے مسرت ہو اور ان کی بدحالی سے رنج، آپ کے زیرحکومت عرب وعجم، مسلم وکافر سبھی ہیں ان میں سے ہرایک کا یہ حق ہے کہ آپ ان کے ساتھ انصاف کریں؛ پھرسوچئے کہ یہاں گروہ درگروہ ایسے لوگ ہیں، جنہیں آپ سے کوئی نہ کوئی شکایت ہے اور ان پرکوئی نہ کوئی ظلم آپ کی طرف سے ہوا ہے، امیر المومنین! مکحول سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی رہا کرتی تھی، جس پرآپ ٹیک لگاکرچلا کرتے تھے اور ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے منافقین پرایک رعب بھی طاری رہتا تھا؛ چنانچہ ایک دن حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اے محمد! کیا یہی چھڑی ہے جس سے آپ نے اپنی اُمت کا سرکچلتے اور خوف زدہ کرتے ہیں؟ آپ سوچیے کہ اس شخص کا خدا کے یہاں کیا حال ہوگا جس نے لوگوں کے چہرے خون آلود کیے، ان کا خون بہایا، ان کی بستیاں اُجاڑدیں، ان کوجلاوطن کیا اور ان پررعب جمایا۔ امیر المومنین! اپنے نفس کواپنے فائدہ ہی کے لیے راضی کرلیجئے اور اس کے لیے اپنے رب سے امان حاصل کیجئے۔ امیر المومنین! اگرحکومت وسلطنت آپ سے پہلے گذرنے والوں کے ساتھ رہنے والی ہوتی تووہ آپ تک نہ پہنچتی اور یہ آپ کے پاس بھی باقی نہیں رہے گی، جس طرح دوسروں کے پاس باقی نہیں رہی، آپ نے اس آیت: لَايُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَاكَبِيرَةً [40] کی تفسیر اپنے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صغیرہ سے مراد تبسم اور کبیرہ سے مراد ضحک، یعنی کھل کرہنسنا ہے توپھر کیا وہ مظالم خدا کے یہاں لکھے ہوئے نہ ہوں گے اور اُن کا بدلہ نہ ملے گا، جوآپ کے ہاتھوں اور زبان کے ذریعہ ہوئے ہیں۔ امیر المومنین! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوکتنا احساسِ ذمہ داری تھا، اس بارے میں یہ روایت مجھے ملی ہے، فرمایا: لوماتت سخلۃ علی شاطئی الغرات لخشیت ان اسئال عنہا۔ ترجمہ:اگربکری کا بچہ (بغیر میری دیکھ بھال کے) فرات کے کنارے مرجائے تومجھے ڈر ہے کہ مجھ سے اس کی باز پرس ہوگی۔ توپھر اس کے بارے میں آپ سے کتنی زبردست بازپرس ہوگی، جو آپ کے سامنے آپ کے عدل سے محروم رہا، امیر المومنین! اس آیت: يَادَاوُودُ إِنَّاجَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاتَتَّبِعِ الْهَوَىٰ۔ [41] ترجمہ: اے داؤد! ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے؛ لہٰذا تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلے کرواور نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلو۔ [42] کی تفسیر آپ کے دادا (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم)نے کیا فرمائی؟ یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اے داؤد! اگرتمہارے سامنے دوآدمی فیصلہ کرانے کے لیے آئیں اور ایک کی طرف تمھارا میلان ہو اور اس سے تمھیں محبت ہوتو ہمارے دل میں یہ خیال نہ ہو کہ کاش! اسی کے موافق فیصلہ ہوا اور وہ اپنے فریق کے مقابلہ میں کامیاب ہو؛ اگرایسا کرو گے تومیں نبوت کی ذمہ داری تم سے واپس لے لوں گا؛ ظاہر ہے کہ اس کے بعد نہ تمھاری خلیفۃ الارض کی حیثیت باقی رہے گی اور نہ کوئی دوسرا شرف (کیونکہ یہ سب نبوت کے طفیل میں ہے) اے داؤد! میں نے جن لوگوں کوبندوں کے پاس رسول بناکر بھیجا ہے، ان کوان کا اسی طرح گلہ بان ہونا چاہیے جس طرح اونٹ کے گلہ بان، اُن کی گلہ بانی کرتے ہیں، ان کے علم کا تعلق دیکھ بھال اور نگرانی سے ہے اور ان کی نرمی کا تعلق حکمرانی سے ہے؛ تاکہ شکستہ دلوں کے زخم پرپھایا رکھیں اور مجبوروں اور ناتوانوں کی ضروریات پوری کریں۔ امیر المومنین! آپ پرایک ایسی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اگروہ آسمان وزمین اور پہاڑوں پرڈالی جاتی تووہ اس کے اُٹھانے سے انکار کردیتے، مجھ سے یزید بن یزید فقیہ شام نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک شخص کوزکوٰۃ کی وصولی پرمقرر کیا، کچھ دنوں کے بعد یکھا کہ وہ گھرپرموجود ہے، آپ نے پوچھا کہ کیا چیز مانع ہوئی کہ تم وصولی پرگیے نہیں، تم کومعلوم نہیں کہ تم کواس کام کا اجرجہاد کے برابر ملے گا، اس نے کہا ایسا نہیں ہے، آپ نے فرمایا کیوں؟ اس نے کہا کہ مجھے یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہروالی اور حاکم بلایا جائے گا اور اس کوآگ کے پل پرکھڑا کر دیا جائے گا، جس کی وجہ سے اس کے جسم کے اعضا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے، اس کے بعد پھروہ واپس لایا جائے گا اور اس سے حساب کتاب ہوگا؛ اگراس نے اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دی ہے توبچ جائیگا؛ ورنہ پھروہ پل اس کوجہنم میں پہنچادے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ یہ روایت کس نے بیان کی ہے، اس نے کہا ابوذر اور سلمان نے، آپ نے ان دونوں صاحبوں سے اس روایت کے بارے میں دریافت کرایا؛ انھوں نے کہا کہ ہم نے یہ روایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ روایت سن کرایک سرد آہ کھینچی اور فرمایا کہ افسوس عمر کوبھی اس سے گذرنا ہوگا۔ امام اوزاعی کی اس تقریر کا منصور پراس قدر اثر ہوا کہ وہ منہ پررومال ڈال کرزور زور سے رونے لگا، امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے گریۂ بے اختیار نے مجھے بھی رُلادیا، جب اس کے آنسو کچھ تھمے توامام اوزاعی رحمہ اللہ نے پھراپنی تقریر شروع کی، فرمایا: امیر المومنین! آپ کے دادا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ اور طائف کی امارت کی خواہش کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میرے چچا! امارت جس کا حق ادا نہ کیا جائے اس سے الگ گھلگ رہنا بہتر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان سے جومحبت اور تعلق خاطر تھا اسی کی بناپر انھوں نے ان کوامارت سے دور رہنے کا مشورہ دیا، اس لیے کہ آپ خدا کے یہاں اس کے وبال سے ان کوبچا نہیں سکتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی: وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ [43] توآپ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ، اپنی پھوپھی، اپنی صاحبزادی، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کومخاطب کرکے فرمایا: إِنِّي لَسْتُ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللهِ شَيْئًا إِنَّ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ (شعب الایمان، حدیث نمبر:7164، شاملہ،موقع جامع الحدیث) ترجمہ: میں خدا کے یہاں تم کوبچا نہ سکوں گا، ہوشیار! کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمھارے لیے تمھارا عمل [44] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ لوگوں کے معاملات کی ذمہ داری وہی شخص اُٹھا سکتا ہے جواچھی رائے اور پختہ عقل رکتھا ہو، لوگوں کی دیکھ بھال کرتا ہو، اس سے برائی نہ پیدا ہوتی ہو، وہ بے دینی پرلپکتا نہ ہو اور خدا کے معاملہ میں لَوْمَۃَ لَائِمْ سے ڈرتا نہ ہو؛ پھرآپ نے فرمایا حاکم کئی طرح کے ہوتے ہیں، ایک تووہ مضبوط، قوی ارادہ حاکم جواپنے کوبھی قابو میں رکھے اور اپنے کارندوں کوبھی تویہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے، جس پرخدا کیرحمت سایہ افگن رہتی ہے، دوسرے وہ کمزور حاکم جواپنے کوتوقابورکھتا ہو؛ مگراس کے عمال اور کارندے اس کی کمزوری کی وجہ سے نفس پروری میں منہمک ہوجائیں تویہ ہلاکت وتباہی کے کنارے کھڑا ہوا ہے، بس اللہ ہی اس کوبچاسکتا ہے، تیسرے وہ حاکم جوعمال پرتوکڑی نگاہ رکھتا ہے؛ مگرخود نفس کا بندہ ہے، تویہ اس ظالم چرواہے کی طرح ہے، جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے إِنَّ شَرَّ الرِّعَاءِ الْحُطَمَةُ بدترین چرواہا وہ ہے جوجانوروں پرظلم کرتا ہو۔ مجھے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی معلوم ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: اے اللہ! اگرتویہ جانتا ہے کہ اگردوفریق میرے پاس آئیں اور میں ان میں سے اس شخص کی طرف مائل ہوجاؤں جوحق سے دور ہو؛ خواہ میرا رشتہ دار ہویااجنبی تومجھے ایک لمحہ کی بھی مہلت نہ دے، امیر المومنین! سب سے سخت چیز قیامِ حق اور خدا کے یہاں سب سے معزز چیز تقویٰ ہے، جوشخص اللہ کی اطاعت کے ذریعہ عزت چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کوبلندی وعزت دیتا ہے اور جوشخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اور عزت کا خواہاں ہوتا ہے، خدا اسے پست اور ذلیل کردیتا ہے، والسلام علیکم۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ تقریر کرنے کے بعد میں مجلس سے اُٹھ گیا، منصور نے پوچھاکہ یہاں سے کہاں جانے کا قصد ہے، بولے وطن! اگرآپ اجازت دیں، منصور نے کہا: آپ کواجازت ہے، میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے ایسی قیمتی نصیحتیں کیں، میں ان کوانتہائی خوشی سے قبول کرتا ہوں، خدا مجھے ان پرعمل کی توفیق دے اور میری مدد کرے وَھُوَ حَسْبِیْ وَنِعْمَ الْوَکِیْل میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ آئندہ بھی اسی طرح اپنی زیارت سے سرفراز کرتے رہیں گے، امام اوزاعی یہ کہہ کررخصت ہوئے کہ انشاء اللہ ایسا ہی کروں گا، منصور نے حکم دیا کہ آپ کوسفر خرچ دے دیا جائے؛ چنانچہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا مگرآپ نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا: مَاکُنت لابیع نصیحتی بعرض عن الدنیا ولابکلہا۔ ترجمہ: میں اپنی نصیحت کودنیا کی ایک حقیر متلع کیا، پوری دنیا کے بدلہ بھی نہیں بچ سکتا۔ راوی کا بیان ہے کہ منصور کوچونکہ ان کے طرز عمل سے واقفیت تھی، اس لیے ان کے ردکردینے سے کبیدہ خاطر نہیں ہوا، اس نصیحت نامہ کے ایک ایک لفظ سے امام کے خلوص، للّٰہیت اور حق لوگوں کا پتہ چلتا ہے، آپ کی للّٰہیت اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ منصور جس کے استبداد وجبر کا ایک زمانہ شکار ہو چکا تھا، وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اس میں منصور کی کوئی ایسی کمزوری نہیں ہے جس کا ذکر نہ کیا گیا ہو؛ مگرجوکسی شخص کی معمولی بات سننا گوارا نہ کرتا ہو، وہ اپنی کمزوریاں اس شخص کی زبان سے سنتا اور ان کے دور کرنے کا وعدہ کرتا ہے، جس کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ عباسیوں کی حکومت کوپسند نہیں کرتا؛ انھوں نے حکومت کے بعض ایسے معاملات میں دخل اندازی کی ہے، جس کی توقع اس زمانہ میں نہیں کی جا سکتی تھی، اوپر مسلمانوں کے فدیہ دے کررہا کرانے اور لبنان کے عیسائیوں پرظلم سے باز رکھنے کا ذکر آچکا ہے، وہ غالباً حضرت عمربن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا زمانہ واپس لانا چاہتے تھے؛ یہی وجہ ہے کہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہوش وحواس کی حالت میں حضرت عمربن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے۔ [45]
عبادت وتقویٰ
[ترمیم]عبادت وتقویٰ میں بھی وہ ممتاز تھے، نماز نہایت ہی خشوع وخضوع سے پڑھتے تھے، خصوصیت سے رات کا بیشتر حصہ ذکرونوافل میں گزرتا تھا، فرماتے تھے کہ جولوگ رات کی نمازوں میں جتنا طویل قیام کریں گے، اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے قیامت سے قیام کوہلکا کر دے گا، اپنے اس قول کے ثبوت میں وہ قرآن کی اس آیت کوپیش کرتے تھے: وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلاً طَوِيلاًo إِنَّ هَؤُلا يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءهُمْ يَوْمًا ثَقِيلاً۔ [46] ترجمہ:اورکچھ رات کوبھی اُس کے آگے سجدے کیا کرو اور رات کے لمبے وقت میں اُس کی تسبیح کرو، یہ لوگ تو(دُنیا کی) فوری چیزوں سے محبت کرتے ہیں اور اپنے آگے جوبھاری دن آنے والا ہے، اُسے نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ [47] حج کے لیے سفر کیا توزیارتِ حرمین کا ذوق وشوق اتنا غالب رہا کہ پورے سفرِحج میں بے خبر ہوکر ایک دن نہیں سوہئے، نیند کا زیادہ غلبہ ہوا توکجاوے سے ٹیک لگائی یالیٹ پوٹ لیا، ابن عساکر کا قول ہے کہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کثرتِ عبادت اور نماز کی خوبی میں ممتاز تھے، ولید بن مسلم کا قول ہے کہ عبادت میں امام اوزاعی سے زیادہ کوشش واہتمام کرنے والا میں نے کسی کونہیں دیکھا۔ [48] رات کے وقت نماز میں اس قدر روتے تھے کہ مصلی ترہوجاتا تھا، ایک بار ایک عورت ان کی اہلیہ سے ملنے آئی، اس نے دیکھا کہ مصلے کا ایک حصہ ت رہے، پوچھا کہ کیا مصلے پرکسی بچے نے پیشاب کر دیا ہے، نیک بخت بولیں: ھٰذا من اثردموع الشیخ من بکائہٖ فی سجودہ ہکذا یصبح کل یوم۔ [49] ترجمہ:یہ شیخ کے آنسوؤں سے تر ہو گیا ہے، یہ روزانہ سجدوں میں اسی طرح رویا کرتے ہیں۔ ابومسہر کا قول ہے کہ: کان اوزاعی یحیی اللیل قرانا وبکاءً۔ [50] ترجمہ:اوزاعی روتے اور (نماز میں) قرآن کی تلاوت میں رات ختم کر دیا کرتے تھے۔ مگران کی یہ رقیقی القلبی رات کی تنہائیوں تک محدود تھی، مجمع عام میں وہ بڑے ضبط سے کام لیتے تھے، ہدایہ میں ہے کہ ان کومجلس میں روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا؛ مگرجب وہ تنہائی میں ہوتے تھے تواس قدر روتے تھے کہ ان کے حال پررحم آتا تھا، نہایت خاموش اور سنجیدہ آدمی تھے؛ کبھی قہقہہ لگاکر نہیں ہسنتے تھے اور نہ مذاق وہنسی کرتے تھے۔
خشوع
[ترمیم]خضوع وخشوع کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اوپر خدا کی عظمت وبرتری اور احساس وذمہ داری اور قیامت کی باز پرس کی ایک مستقل کیفیت طاری ہوجائے، نماز سے اس کیفیت کا تعلق ضمنی یابطورِ مشق کے ہے، امام اوزاعی پریہ کیفیت ہمہ وقت طاری رہتی تھی، بشربن منذر کہتے تھے کہ: وکان من شدۃ الخشوع کانہ اعمی۔ [51] ترجمہ:شدت خشوع کی وجہ سے یہ اندھے معلوم ہوتے تھے۔ ان کے اوپرجو رقتِ قلبی کی جوکیفیت بیان کی گئی ہے وہ بھی اسی خشوع قلب کا نتیجہ تھی، ایک بار کسی نے ان سے خشوع کی تعریف پوچھی توفرمایا کہ آنکھوں اور بازؤں کوجھکاؤ اور رقتِ قلب کا نام خشوع ہے۔ [52]
امربالمعروف
[ترمیم]امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ اس کوبرائی سے روکا جائے اور بھلائی کی ترغیب دی جائے، اللہ تعالیٰ نے دست وبازو، زبان وقلم، قوت واقتدار اور مال ودولت یااس کے علاوہ جوبھی صلاحیت عطا کی ہے، ان کواسی راہ میں لگادینا ایمان کی سب سے بڑی علامت ہے، امام اوزاعی رحمہ اللہ اس وصف میں صحابہ کرام وتابعین کا نمونہ تھے، ان کواللہ تعالیٰ نے زبان وقلم کی جوصلاحیت عطا کی تھی، اس کوانہوں نے اسی مقصد میں پورے طور سے لگادیا تھا، ان کے تمام معاصرین کا بیان ہے کہ: وکانا انصح للامۃ۔ [53] ترجمہ: امت کے سب سے بڑے خیرخواہ تھے۔ انھوں نے امرا وخلفاء سے جومکالمے کیے اور اُن کوجوخطوط لکھے ہیں وہ اسی جذبۂ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا نتیجہ تھے، اس کی تفصیل اُوپر آچکی ہے۔
ہرطبقہ میں اُن کی عزت تھی
[ترمیم]اپنے انھی اوصاف ومحاسن اور سیرت وکردار کی وجہ سے ہرطبقہ میں معزز ومحترم تھے، حافظ ابنِ کثیر نے لکھا ہے: وقد كان الاوزاعي في الشام معظما مكرما أمره أعز عندهم من أمرالسلطان۔ [54] ترجمہ: امام اوزاعی شام میں اس قدر معزز ومکرم تھے کہ ان کا حکم اہلِ شام کی نظر میں بادشاہِ وقت کے حکم سے زیادہ قابل قدر اور محترم تھا۔ شام کے بعض امرا نے ان کے بارے میں کوئی سخت قدم اُٹھانا چاہا توان کے ہم نشینوں نے مشورہ دیا کہ ان کونہ چھیڑو ورنہ: واللّٰه لوأمر أهل الشام أن يقتلوك لقتلوك۔ [55] ترجمہ:خدا کی قسم اگراہلِ شام کووہ تمھارے قتل کا حکم دیدیں تووہ تم کوقتل کردینگے۔ امام اوزاعی کی وفات کے بعد شام کے امیر نے آپ کی تدفین کے بعد کہا کہ خدا آپ کے حال پررحم فرمائے، مجھے جس نے امارت سپرد کی ہے (یعنی منصور) میں اس سے بھی زیادہ آپ سے ڈرتا تھا۔ [56] بقیہ بن ولید کہتے تھے کہ ہم لوگوں کوامام اوزاعی کے ذریعہ آزماتے تھے اور اگرکوئی شخص ان کے بارے میں اچھی رائے رکتھا تھا توہم اس کے بارے میں سمجھتے تھے کہ انہ ہو صاحب سنۃ ترجمہ: یہ متبع سنت ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ حج کے لی تشریف لے گئے توسفیان ثوری نے جوپہلے سے وہاں موجود تھے، بستی سے باہر نکل کراستقبال کیا اور اُن کے اُونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے آگے آگے پیدل چل رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے: طرقوا للشارع۔ [57] ترجمہ: شیخ کے لے راستہ دے دو۔
بیش قیمت اقوال
[ترمیم]فرمایا کہ جب تم کوکوئی حدیث نبوی صحیح طریقہ سے مل جائے توپھر اس میں چون وچرا کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوکچھ کہتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے مبلغ کی حیثیت سے کہتے تھے (یعنی اس کواللہ ہی کا پیغام سمجھنا چاہیے)۔ سلف صحالین یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین وتابعین کے اقوال واعمال کواپنے اوپر لازم کرلو؛ اگرچہ لوگ اس میں تمھارا ساتھ نہ دیں، اس کے مقابلہ میں اور کسی شخص کی رائے کوخواہ وہ کتنے ہی اچھے اور دلفریب پیرائے میں کیوں نہ پیش کی گئی ہو، کوئی اہمیت نہ دو اور اس کے قبول کرنے سے پرہیز کرو، اس سے دین بھی واضح اور روشن رہے گا اور تم بھی راہِ راست پرقائم رہوگے، فرماتے تھے: العلم ماجاء عن أصحاب محمد، ومالم يجئ عنهم فليس بعلم۔ [58] ترجمہ:حقیقی علم وہ ہے جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین سے ثابت اور منقول ہے اور جوان سے ثابت نہ ہو وہ علم نہیں ہے۔ ولید کا بیان ہے کہ میں نے امام اوزاعی سے خود سنا ہے وہ کہتے تھے کہ دنیا میں انسان کی عمر کی جتنی گھڑیاں گزار رہا ہے وہ سب اس کے سامنے ترتیب سے پیش کی جائیں گی توزندگی کی جوساعت اللہ کی یاد سے غفلت میں گذری ہے اس پرنفس کوسخت افسوس ہوگا۔ ان کامعمول تھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد کسی سے بات چیت نہیں کرتے تھے؛ لیکن اگرکوئی شخص کوئی بات پوچھتا تواس کا جواب ضرور دیتے تھے، ایک عیسائی نے ایک مٹکا شہد ہدیہ دیا اور کہا کہ آپ ایک خط شہر بعلبک کے والی کو (مالی مدد کے لیے) لکھ دیجئے، آپ نے اس سے کہا کہ اگرخط لکھوانا چاہتے ہوتو اس کی شرط یہ ہے کہ یہ شہد واپس لے لو؛ ورنہ میں شہد توقبول کرلوں گا؛ مگرخط نہیں لکھ سکتا، وہ راضی ہو گیا، آپ نے شہد واپس کر دیا اور اس کی امداد کے لیے خط لکھ دیا اور اس کی مدد ہو گئی؛ اس سے معلوم ہوا کہ کسی مقصد کے حصول یاسفارش کے لیے جوہدیے پیش کیے جاتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں، فرمایا کرتے کہ سلامتی اور عافیت کے دس اجزاء ہیں، جن میں 9/کے برابر توخاموشی ہے اور اسی کا ایک جز لوگوں سے بے نیازی ہے، ایک بار اپنے ایک شاگرد سے فرمایا کہ جوشخص موت کوزیادہ یاد کرتا ہے، اس کوہرمعاملہ میں آسانی میسر آتی ہے اور جوشخص یہ جان لے کہ گفتگو بھی ایک عمل ہے (جس کی باز پرس ہوگی) تو وہ بات چیت کم کرے گا۔ اُن کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں سب سے زیادہ کمی مونس وغمخوار بھائی کی، حلال پیسے اور اتباعِ سنت کی ہوگی (یہ ایک حدیث نبوی کی تفسیر ہے)۔ فرماتے تھے کہ سلفِ صالحین کا حال یہ تھا کہ صبح صادق کے وقت یااس سے کچھ پہلے ہی سے وہ ذکر وعبادت میں مشغول ہوجاتے تھے، جب طلوعِ آفتاب کا وقت ہوتا تھا توسب لوگ جمع ہوکر پہلے قیامت اور اس کی ہولناکی کے بارے میں بات چیت کرتے تھے؛ پھرتعلیم دین کا چرچا ہوتا تھا، فرماتے تھے کہ پانچ باتیں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین میں مشترک تھیں: (1)اجتماعیت (2)اتباعِ سنت (3)تعمیرمساجد (4)تلاوتِ قرآن پاک (5)جہاد فی سبیل اللہ۔ [59] فرماتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کوذلیل کرنا چاہتا ہے تواس میں بحث ومباحثہ اور جدال ومناظرہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور علم وعمل کے دروازے ان کے لیے بند کردیتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ دونوں کی محبت ایک مؤمن ہی کے قلب میں جمع ہو سکتی ہے، جوشخص علما کے شاذونادر اقوال پرعمل کرے گا وہ ایک دن اسلام کے دائرہ سے نکل جائے گا، فرمایا کہ برا ہو غیر عابد فقہا اور حرام چیزوں کوشبہ کی بناپرحلال کردینے والوں کا ، جس شخص نے دین میں کوئی بدعت ایجاد کی اس کا ورع وتقویٰ سلب ہوا۔ فرماتے تھے کہ سنت نبوی پرجم جاؤ اور اہلِ سنت کا جوموقف ہے وہی تم اختیار کرو، جس چیز سے وہ رُکے تم بھی رکو، سلفِ صالح کے راستہ پرچلو، ایمان بغیر زبان کی شہادت کے استوار اور درست نہیں ہوتا اور ایمان وقول بغیر عمل کے درست نہیں ہوتے اور یہ تینوں چیزیں حسب سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نیت کے بغیر درست نہیں ہوتیں، کسی نے پوچھا کہ اس حدیث اکثرامتی دخولا فی الجنۃ اہل الیلہ مین اہل الیلہ سے کون لوگ مراد ہیں، فرمایا: الذین یعرفون الخیر ولایعرفون الشر۔ ترجمہ:جوصرف بھلائی ہی جانتے ہیں برائی اور شر سے وہ واقف ہی نہیں
ان کا فقہی مسلک
[ترمیم]اوپر ذکر آچکا ہے کہ وہ ایک علاحدہ مکتب فقہ کے بانی تھے، ان کے فقہی مسلک کی پوری تفصیل اور اس کے امتیازات کی فہرست تونہیں تیار کی جا سکتی، اس لیے کہ نہ توان کی مرویات ہی جمع ہوسکیں اور نہ ان کے فقہی مجتہدات ہی مرتب کیے جاسکے، کتاب الرد علی السیر الاوزاعی میں امام ابویوسف رحمہ اللہ نے ان کی بہت سی فقہی رایوں کا تذکرہ کیا ہے؛ مگران کا تعلق ایک خاص موضوع سیروغزوات سے ہے، صاحب حسن المساعی نے چند عام مسائل کا تذکرہ کیا ہے، جن میں وہ دوسرے ائمہ سے اختلاف رکھتے ہیں، ان کا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے: (1)نبیذ سے وضو کے جواز کے قائل تھے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے، دوسرے ائمہ کواس سے اختلاف ہے؛ مگراس اختلاف کادارومدار نبیذ کی تعریف پ رہے، اہلِ عراق اس کی جوتعریف کرتے ہیں، اس سے یہ اختلافات ختم ہوجاتے ہیں۔ (2)پانی کم ہویازیادہ اس میں اگراتنی نجاست پڑجائے، جس سے کوئی تغیرواقع نہ ہوتوان کے نزدیک وہ پاک ہے، اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔ (3)کتے اور سور کے جھوٹے کووہ پاک سمجھتے تھے، یعنی وہ پیابھی جا سکتا ہے اور اس سے وضو بھی کیا جا سکتا ہے؛ اگریہ دونں کھانے میں منہ ڈالدیں توا سکا کھانا حرام نہیں سمجھتے تھے، امام زہری اور امام مالک کی بھی یہی رائے ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔ (4)سجدۂ سہو میں ان کا مسلک یہ تھا کہ اگر نماز میں کوئی کمی ہوئی ہے توسجدۂ سہو سلام سے پہلے کرنا چاہیے اور اگرزیادتی ہوئی ہے توسلام کے بعد امام مالک اور ایک روایت میں امام احمد کی بھی یہی رائے ہے۔ (5)نماز میں کوئی شخص بھول کرکھا، پی لے تواس کی نماز باطل ہوجاتی ہے؛ خواہ نمازِ فرض ہویانفل؛ کیونکہ ایسا بے کار فعل جونماز کی جنس سے نہیں ہے، اس میں عمداً اور نسیاناً دونوں برابر ہیں۔ (6)اگرجوتے اور چمڑے کے موزے کے نچلے حصہ میں نجاست لگ جائے اور اسکواس طرح زمین پررگڑدیا جائے کہ اس کی نجاست دور ہوجائے تواس سے نماز پڑھی جا سکتی ہے، ایک روایت کے مطابق امام احمد کی بھی یہی رائے ہے، ان کے سامنے یہ حدیث ہے: إِذَاوَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ۔ (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب فِي الْأَذَى يُصِيبُ النَّعْلَ،حدیث نمبر:328، شاملہ، موقع الإسلام) (7)نماز عیدین میں استفتاح یعنی ثنا وغیرہ کا پڑھنا، تکبیراتِ زوائد کے بعد ہونا چاہیے، اس رائے میں یہ تمام ائمہ اربعہ سے منفرد ہیں، دوسرے ائمہ استفتاح کے بعد تکبیر زوائد کہتے ہیں۔ (8)غسل جمعہ فجر سے پہلے بھی کیا جا سکتا ہے، دوسرئے ائمہ کے یہاں اس کا استحباب طلوع سورج کے بعد شروع ہوتا ہے۔ (9)رمضان میں قصداً مباشرت کرنے والا اگرکفارہ ادا کر دے تواس پرقضا نہیں ہے؛ اگربھول کرجماع کرلے تواس پرقضاہے کفارہ نہیں۔ (10)قربانی کے چمڑے کوفروخت کرکے اس کی چلنی اور دوسری استعمال کی چیزیں خریدی جا سکتی ہیں اور ان کا استعمال ہو سکتا ہے، دوسرے ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ فروخت کرنے کے بعد قیمت کا صدقہ کردینا ضروری ہے۔ کتاب المغنی لابن قدامہ میں دوسرے ائمہ کے ساتھ ان کے مسلک کا تذکرہ بھی ملتا ہے؛ اگراس سے ان کی فقہی رایوں کوعلیحدہ کر لیا جائے توایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی۔ ان کا فقہی مسلک کتنی مدت تک زندہ رہا؟ اور اس کے زوال کے اسباب کیا ہوئے؟ اوپر یہ بھی ذکر آچکا ہے کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کا یہ مسلک شام میں دوصدی تک اور اندلس میں تقریباً ایک صدی تک زندہ رہا؛ مگراس کے بعد کچھ داخلی اور خارجی اسباب ایسے پیدا ہوئے جس کی بنا پریہ فنا ہو گیا، کن اسباب کی بنا پریہ مسلک زندہ نہ رہ سکا اس کی کچھ تفصیل یہاں کی جاتی ہے: امام اوزاعی رحمہ اللہ کا ذہن کچھ قدرۃ بھی محدثانہ طرزِ فکر سے زیادہ ہم آہنگ تھااور ان کی تعلیم و تربیت بھی حدثنا واخبرنا ہی کے ماحول میں ہوئی تھی؛ یہی وجہ ہے کہ جب ان سے پیش آمدہ مسائل میں استفسار کیا تھا تووہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنیمیں سادہ طور سے ان کا جواب دیتے تھے، زیادہ تدقیق وتفتیش اور فرضی قیاس آرائی کوپسند نہیں کرتے تھے، اوپر ذکر آچکا ہے کہ انھوں نے سترہزار مسائل کا جواب حدیث وآثار کی روشنی میں دیا تھا، جب تک مسلمانوں میں سادہ اسلامی زندگی کا رواج رہا، اس وقت تک ان کے مسلک پرتعامل باقی رہا؛ مگرجب فقہا کی ژرف نگاہی اور باریک بینی کا دور شروع ہوا اور انھوں نے مسائل کی تخریج وتفریع کی بھرمار کردی توامام اوزاعی رحمہ اللہ کا سادہ اور ٹھیٹھ مسلک اُن کی دقت پسندی کے آگے نہ ٹھہرسکا اور ان کا خالص محدثانہ مکتب فکر فقہی مکتب فکر کے سامنے شکست کھاگیا (اس دور میں دوسرے محدثانہ مکاتب فکر مثلا سفیان ثوری، داؤدِ ظاہری، اسحاق بن راہویہ اور طبری وغیرہ کا بھی یہی حشر ہوا، ان مسلکوں کی شکست سے اُمت کوسب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کا تعلق اصل ماخذ یعنی کتاب وسنت سے کم ہو گیا اور براہِ راست کتاب وسنت سے اجتہاد کا دروازہ ہی بند ہو گیا)۔ اسی کے ساتھ کچھ سیاسی اسباب بھی ایسے پیدا ہوئے جنھوں نے ان کے مسلک کوختم کرنے میں مدد دی تھی، امام اوزاعیؒ کے مسلک کی ترویج اور اس کے زوال کے اسباب پرعام مؤرخین اور تذکرہ نگاروں نے جوروشنی ڈالی ہے وہ یہاں پیش کی جاتی ہے، قدما میں لسان الدین بن الخطیب نے اور متاخرین میں علامہ کردعلی اور خضری نے قدرے تفصیل سے لکھا ہے، امام ذہبی لکھتے ہیں: کَانَ أَھْلُ الشَّامِ، ثُمَّ أَهْلُ الْأُنْدُلُسِ عَلَی مَذْہَبِ الْأَوْزَاعِیْ مدۃ من الدھر ثُمَّ فنی الْعَارِفُوْنَ بِہٖ۔ [60] ترجمہ: اہلِ شام پھراہلِ اندلس، امام اوزاعی کے مسلک پرایک مدت تک عامل رہے؛ پھراس کے جاننے والے ختم ہو گئے۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک اس مسلک کے اختتام کا سبب یہ ہے کہ اس کے جاننے والے باقی نہیں رہے تھے؛ مگراس کے جاننے والے کیوں باقی نہیں رہے؟ اس کا جواب اس بیان میں نہیں ہے، حافظ ابن حجر تہذیب میں لکھتے ہیں: وإليه فتوى الفقه لاهل الشام۔ [61] ترجمہ:اہلِ شام فقہی مسائل میں انھی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ دوسری جگہ اسی کتاب میں ہے: كانت الفتيا تدور بالاندلس على رأي الاوزاعي إلى زمن الحكم بن هشام المتوفي سنة 256۔ [62] ترجمہ:اندلس میں امام اوزاعی کے مسلک کے مطابق حکیم بن ہشام متوفی سنہ256ھ کے زمانہ تک فقہا فتوے دیتے اور عمل کرتے رہے۔ (کتاب میں سنہ250ھ اس کی وفات درج ہے؛ مگر صحیح سنہ206ھ ہے، ابن اثیر نفح الطیب وغیرہ) اس بیان سے بھی اس مسلک کے زوال پرتوکوئی روشنی نہیں پڑتی؛ مگراس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دوسری صدی کے نصف آخر تک اُندلس میں فیصلے اس مسلک کے مطابق ہوتے تھے۔ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں بڑی تفصیل سے امام اوزاعی کے حالات لکھے ہیں؛ مگراس بارے میں انھوں نے کچھ نہیں لکھا ہے؛ البتہ اپنی ایک دوسری کتاب میں اتنا لکھا ہے کہ: وقد كان أهل الشام على مذهب الأوزاعي نحوا من مائتي سنة۔ [63] ترجمہ:اہلِ شام دوسوبرس تک امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مسلک پرعامل رہے۔ اس بیان سے ایک دوسرا گوشہ واضح ہو گیا، وہ یہ کہ شام میں دوسوبرس تک ان کا مسلک چلا، شیخ کرد علی نے کچھ اور زیادہ وضاحت کی ہے، یہ علم نہیں ہو سکا کہ ان کا ماخذ کیا ہے: بعمل بمذہبہ فی الشام نحو مائتی سنۃ وآخر من عمل بمذہبہ احمد بن سلیمان قاضی الشام وعمل اہل الاندلس بمذہبہ اربعین سنۃ ثم تتاقض بمذۃبہ الامام مالک۔ [64] ترجمہ:شام میں تقریباً دوصدی تک ان کے مسلک پرعمل باقی رہا، شام کے آخری قاضی جنھوں نے ان کے مسلک پرعمل کیا وہ احمد ابن سلیمان تھے، اہلِ اندلس محض چالیس ہی برس ان کے مسلک پرعمل کرسکے تھے کہ امام مالک کے مسلک سے یہ شکست کھاگیا۔ کرد علی کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ اندلس میں محض چالیس برس ان کا مسلک زندہ رہا؛ مگریہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ دوسرے تذکرہ نگاروں نے یہ مدت زیادہ بیان کی ہے اوپرحافظ ابن حجر کا بیان گذرچکا ہے، آگے علامہ خضری کا بیان آتا ہے۔ قاضی احمد سلیمان جن کوشیخ کرد علی نے شام میں مسلک اوزاعی کا آخری مفتی وقاضی قرار دیا ہے، ان کے بارے میں امام ذہبی کا بیان ملاحظہ ہو وہ سنہ347ء کے حوادث کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: انہ مات مفتی دمشق علی مذہب الاوزاعی القاضی ابو الحسن احمد ابن سلیمان جزلم وکانت لہ حلقہ کبیرۃ بالجامع۔ ترجمہ:اسی سنہ میں امام اوزاعی کے مسلک کے مفتی قاضی ابو الحسن احمد بن سلیمان جزلم نے انتقال کیا، جامع دمشق میں ان کا بہت بڑا حلقہ درس تھا۔ (حیدرآباد کی مطبوعہ تاریخ ذہبی میں جزلم کی بجائے حزام ہے؛ مگرامیرشکیب ارسلان نے پوری تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ لفظ حزام نہیں؛ بلکہ جذلم ہے [65] اس بیان سے واضح طور پرمعلوم ہوا کہ اس مسلک کے مطابق چوتھی صدی کے نصف تک فتوے دیے جاتے رہے اور اسی مسلک کے علما کا عہدۂ قضا پرتقرر ہوتا رہا، اس کے بعد سرکاری طور پران کا مسلک ختم ہو گیا؛ مگراس بیان کے آخری ٹکڑے حلقہ کبیرۃ سے پتہ چلتا ہے کہ شام میں اس کے بعد بھی اس مسلک کا چرچا رہا ہوگا؛ کیونکہ ان کے انتقال کے بعد یکایک تویہ مسلک ختم نہیں ہو گیا ہوگا، خضری نے التشریع لاسلامی میں اس مسئلہ کے ہرپہلو پرروشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں: وکان اہل الشام یعملون مذہبہ ثم انتقل مذہب الاوزاعی الی الاندلس مع الداخلین ایہا من اعقاب بن امیۃ ثم اضمحل امام مذہب الشافعی فی الشام وأمام مذهب مالك في الأندلس ، وذلك في منتصف القرن الثالث۔ [66] ترجمہ:اہل شام بہت دنوں تک ان کے مسلک پرعمل کرتے رہے؛ پھران کا مسلک پرعمل کرتے رہے؛ پھراُن کا مسلک بنوامیہ کے ان لوگوں کے ذریعہ اندلس پہنچا؛ جنھوں نے اندلس میں جاکر اپنی حکومت قائم کی؛ پھرشام میں امام شافعی کے مسلک کے آگے اور اندلس میں امام مالک کے مسلک کے سامنے یہ کمزور پڑ گیا اور یہ تسیری صدی کے نصف میں ہوا۔ شام کے بارے میں توعام ارباب تذکرہ لکھتے ہیں کہ وہاں دوسوبرس تک امام اوزاعی رحمہ اللہ کا مسلک زندہ رہا؛ مگراندلس کے بارہ میں انھوں نے کسی مدت کی تعیین نہیں کی ہے، اس کے لیے ہم اندلس کے سب سے قابل وثوق مورخ لسان الدین ابن الخطیب کا بیان نقل کرتے ہیں: اہلِ اندلس اور اہلِ شام ابتدا میں امام اوزاعی کے مسلک کے پیرو تھے؛ مگراندلس کے تیسرے اموی حکمران حکم بن ہشام کے زمانہ میں فقہ وفتاویٰ کی مسند مالکی فقہا نے سنبھال لی؛ پھرآہستہ آہستہ مالکی مسلک کاوہاں عام چرچا ہوا اور اندلس اور قرطبہ دونوں جگہ یہی مسلک رواج پزیر ہو گیا اور اس مسلک کے فروغ کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ حکم نے خود اس مسلک کواختیار کر لیا تھا۔ اس تبدیلی مسلک کا سبب کیا ہے؟ مصنف نے لکھا ہے کہ اس بارے میں دومختلف رائیں ہیں، عام اہلِ علم کا خیال یہ ہے کہ: أن سببه رحلة علما الأندلس إلى المدينة فلما رجعوا إلى الأندلس وصفوا فضل مالك وسعة علمه وجلالة قدره فأعظموه۔ [67] ترجمہ:اس تبدیلی کا سبب یہ ہوا کہ بہت سے علمائے اندلس (تحصیلِ علم اور سماعِ حدیث کے لیے مدینہ منورہ گئے)وہاں امام مالک کی مجلسِ درس برپا تھی، اس میں شریک ہوکر، جب اندلس واپس ہوئے توامام مالک کے فضل وکمال اور جلالت علم کا عام چرچا ہوا، چنانچہ اہلِ اندلس ان کی عظمت کے قائل ہو گئے (اور ان کا مسلک اختیار کر لیا)۔ (2)دوسری رائے یہ ہے کہ جب علمائے اندلس امام مالک کی خدمت میں پہنچے توانہوں نے یہاں کے اُموی حاکم کے عدل وانصاف اور سیرت وکردار کی تعریف کی، امام مالک رحمہ اللہ چونکہ عباسی حکومت کواس کے ظلم وتشدد کی وجہ سے پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے ان کواس خبر سے بڑی خوشی ہوئی اور فرمایا کہ: نسأل الله تعالى أن يزين حرمنا بملككم..... فنميت المسألة إلى ملك الأندلس مع ماعلم من جلالة مالك ودينه فحمل الناس على مذهبه۔ [68] ترجمہ: ہم اللہ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہمارے حرم (مکہ) کوتمہارے حکمران کے (عدل وانصاف) سے مزین کر دے..... یہ بات جب اندلس کے حکمران تک پہنچی اور ساتھ ہی وہ امام مالک کی جلالتِ علم اور ان کے دین وتقویٰ سے واقف ہوا تواس نے امام اوزاعی کے مسلک کوترک کر دیا اور امام مالک کے مسلک کے اختیار کرلینے پراہلِ اندلس کوآمادہ کیا۔ پہلی رائے سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ اس تبدیلی مسلک کا سبب صرف علمی اور دینی تھا؛ مگردوسری رائے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلک کی تبدیلی صرف علمی نہیں تھی بلکہ اس میں کچھ سیاسی مصلحت بھی پوشیدہ تھی، صاحب نفح الطیب نے پہلی رائے کوترجیح دی ہے اور دوسری رائے کوضعیف بتایا ہے؛ مگرمیرے نزدیک دوسری رائے قابل ترجیح ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرفقہ وفتاوے کی تاریخ پرنظرڈالیں توآپ کومعلوم ہوگا کہ کوئی فقہی مسلک کسی مسلک میں اسی وقت رواج پزیر ہوا ہے جب اس کوحکومت نے اپنایا ہے، محض عوام کے حسنِ ظن یاان کی خواہش کی بناپربہت کم کوئی تبدیلی ہوئی ہے، یہ بات ضرور ہے کہ اس میں کچھ علمی اور دینی اسباب بھی معاون ہوتے ہیں، جن میں ایک سبب کا ذکر راقم نے اوپر کیا ہے، یعنی فقہ میں ان کا خالص محدثانہ طرزِ فکر۔ اُوپرکے تمام بیانات سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں: (1)شام میں امام اوزاعی کا مسلک دوسوبرس تک زندہ رہا۔ (2)خضری کے بیان کے مطابق اندلس میں ان کا مسلک بنوامیہ کے ذریعہ پہنچا۔ (3)کردعلی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اندلس میں مسک اوزاعی صرف چالیس برس زندہ رہا؛ مگرنفح الطیب کے بیان اور بنوامیہ کی حکومت کے قیام کی تاریخ سنہ138ھ اور حکم بن ہشام متوفی سنہ206ھ کے دورِ حکومت میں قضاۃ کے تقرر کی روشنی میں دیکھا جاوے تویہ مدت کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے، یعنی کم سے کم پون صدی۔ (4)شام میں امام اوزاعی کے مسلک کی جگہ حنفی وشافعی مسلک نے لی اور اندلس میں مالکی مسلک نے۔
مسلکِ اوزاعی کے مشہور علما
[ترمیم]اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ شام میں تقریباً دوصدیوں تک امام اوزاعی کا مسلک زندہ رہا، ظاہر ہے کہ اس مدت میں سینکڑوں آدمی ان کے اجتہادات واستنباطات سے واقف ہوئے ہوں گے، یہ تفصیل تونہیں ملتی کہ عہدۂ قضا کی تقریروں میں ان کے مسلک کا کتنا خیال کیا جاتا تھا؛ مگربعض واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شام میں قضاء وافتاء پران کے مسلک کا کافی اثر تھا اور اس کے مطابق قاضیوں کا تقرر بھی ہوتا تھا، جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مذہب اوزاعی کے مشہور مفتی اور قاضی احمد بن سلیمان تھے، جن کا انتقال سنہ347ھ میں ہوا، کرد علی نے لکھا ہے کہ یہ آخری قاضی تھے، جنھوں نے مسلک اوزاعی پرشام میں عمل کیا۔ [69] امیرشکیب ارسلان نے لکھا ہے کہ فقہ اوزادی کے ایک عالم ان کے اجداد میں امیرنعمان ابوالحسام ابن الامیر متوفی سنہ325ھ ہیں جن کے بارے میں اہلِ تذکرہ لکھتے ہیں: کَانَ اعلم اھل زمانہ بفقہ لاوزاعی۔ انھوں نے فقہ اوزاعی پرایک کتاب بھی لکھی تھی، جس کا نام ہے الاقوال الصحیحۃ فی اصول حدیث الاوزاعی۔ [70] ان کے علاوہ دواور ممتاز علما کا نام تذکروں میں آتا ہے، ایک فقہ وفتاویٰ کے سب سے معتبر ناقل ولید بن یزید، دوسرے عباس بن ولید۔ [71]
تصنیف
[ترمیم]تعجب ہے کہ ارباب تذکرہ میں سے کسی نے بھی ان کی تصنیف کا ذکر نہیں کیا ہے؛ مگرابن ندیم نے ان کی دوکتابوں کا نام لیا ہے: (1)کتاب السنن فی الفقہ (2)کتاب المسائل فی الفقہ، ان کے علاوہ انھوں نے ایک کتاب جس کا ذکر تذکروں میں نہیں ملتا، امام ابوحنیفہ کے مسائل سیر و مغازی کے رد میں لکھی تھی، جس کے جواب میں امام ابویوسف نے ایک کتاب الرد علی السیر الاوزاعی لکھی اور امام محمد نے السیرالکبیر میں جابجا اس کے جوابات دیے ہیں، یہ علم نہیں ہو سکا کہ امام اوزاعی کی کتاب دنیا کے کسی کتب خانہ میں موجود ہے یانہیں؛ مگرامام شافعی نے یہ پوری کتاب اپنی کتاب الام جلد نمبر:6/میں نقل کردی ہے اور امام ابویوسف کی کتاب جوبختہ المعارف النعمانیہ کی طرف سے چھپ کرمنصۂ شہودپرآگئی ہے، اس سے بھی امام اوزاعی کی کتاب کی حیثیت اور سیر و مغازی میں ان کے علم ونظر کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتا ہے، سیر و مغازی کے جومسائل امام ابوحنیفہ اپنے درس میں املا کراتے تھے، تلامذہ ان مسائل کومرتب کر لیا کرتے تھے، خصوصیت سے امام محمد نے ان مسائل کا جومجموعہ السیرالصغیر کے نام سے مرتب کیا تھا، وہ بہت مقبول ہوا، یہ مجموعہ جب امام اوزاعی کی خدمت میں پہنچا توانہوں نے پوچھا یہ کتاب کسی کی تصنیف ہے؟ بتایا گیا کہ امام محمد عراقی کی، بولے اہلِ عراق نے سیر و مغازی کے موضوع پرتصنیف کیوں شروع کردی؟ اس لیے کہ ان کوسیر ومغازی کا کوئی علم نہیں ہے (یہ علم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعہ پہنچا ہے) اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین توشام کے ایک حصہ اور حجاز میں پہنچے تھے، عراق توبہت بعد میں فتح ہوا ہے۔ [72] چنانچہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے ان مسائل کی تردید میں ایک کتاب لکھ ڈالی جب یہ کتاب امام ابویوسف اور امام محمد تک پہنچی توانہوں نے اس کا جواب دیا۔ [73] امام اوزاعی نے امام ابوحنیفہ سے سینکڑوں مسائل میں اختلاف کیا ہے، امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ان تمام مسائل میں امام صاحب کی پوری وکالت کی ہے اور ان کے اقوال کی ترجیح کے لیے عقلی ونقلی دلائل کا انبار لگادیا ہے؛ مگرپھربھی بعض مسائل میں انھوں نے اپنے امام اور استاذ کے مقابلہ میں امام اوزاعی کے قول کوترجیح دی ہے یااس کی طرف رجوع کر لیا ہے، ان مسائل کا تذکرہ طوالت کا سبب ہوگا، اہلِ علم کے لیے اس کتاب کے صفحہ نمبر:21،42،43،97 وغیرہ کا مطالعہ دلچسپی کا باعث ہوگا۔
وفات
[ترمیم]امام اوزاعی کی وفات بڑے دردناک طریقہ سے ہوئی، یہ بیروت میں تھے، ایک دن حمام میں غسل کے لیے گئے، صاحب حمام لاعلمی میں باہر سے دروازہ بند کرکے کہیں چلا گیا، اندر آگ جل رہی تھی اور باہر سے ہوا جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا، اس لیے اسی حالت میں وہ جان بحق ہو گئے، جب صاحب حمام واپس آیا اور اس نے دروازہ کھولا تودیکھا کہ آپ کا دہنا ہاتھ سرکے نیچے ہے اور قبلہ رُوفرش زمین پرمردہ پڑے ہیں (بعض تذکروں میں ہے کہ آپ کی اہلیہ نے لاعلمی میں دروازہ بند کر دیا تھا) یہ حادثۂ عظمیٰ صفریاربیع الاوّل سنہ157ھ میں پیش آیا، آپ کی وفات توبیروت شہر میں ہوئی؛ مگرتدفین بیروت کے باہر ایک موضع خنتوس میں ہوئی، اس بستی کے بارے میں ابنِ خلکان نے اپنے زمانہ کا حال لکھا ہے کہ اس بستی کے تمام باشندے مسلمان ہیں اور بستی خواش توامام اوزاعی سے واقف ہیں؛ مگرعوام صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہاں ایک بزرگ کی قبر ہے (اس بستی کے آثار میں بجز ایک کنویں کے اور کچھ باقی نہیں ہے)۔ [74] ان کی موت پربعض شرائ نے مرثیے بھی کہے، مرثیہ کے ایک شعر یہ ہے ؎ عرضت له الدنيا فأعرض مقلعا عنها بزهد أيما إقلاع [75] دنیا ان کے سامنے پیش کی گئی؛ مگرانہوں نے زہدوقناعت کی وجہ سے اس سے ہمیشہ گریز کیا، ان کے زہد وقناعت کا اندازہ اس سے کرنا چاہیے کہ جب انتقال ہوا توپورا اثاثِ بیت چند درہم سے زیادہ کا نہیں تھا۔
حلیہ
[ترمیم]ابنِ خلکان نے ان کا حلیہ یہ بتایا ہے، میانہ قد، گندمی رنگ، ہلکی داڑھی، جس میں مہندی کا خضاب لگا ہوتا تھا۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13744533x — بنام: ʿAbd al-Raḥmān al- Awzāʿī — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/32135 — بنام: ʿAbd al-Raḥmān al-Awzāʿī
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/119129345 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/119129345 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/074348051 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مئی 2020
- ↑ أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البلاذريّ (1988م). فُتوح البُلدان، الجزء الثاني. بيروت - لُبنان: دار ومكتبة الهلال. صفحة 167.
- ↑ حسان علي حلاق (1431هـ - 2010م). موسوعة العائلات البيروتية: المُجلَّد الأوَّل (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان: دار النهضة العربية. صفحة 51 - 52. ISBN 978-614-402-141-5.
- ↑ أبو زرعة الدمشقي، تحقيق: خليل المنصور (1417هـ - 1996م). تاريخ أبي زرعة الدمشقي (حديث رقم 2320) (الطبعة الأولى). بيروت - لبنان: دار الكتب العلمية.
- ↑ name="الذهبي1">سير أعلام النبلاء للذهبي - الطبقة السادسة - الأوزاعي عبد الرحمن بن عمرو بن يحمد (1) آرکائیو شدہ 2017-07-16 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (ابنِ خلکان:1/492۔ اسمعانی لفظ اوزاعی)
- ↑ (البدایہ والنہایہ)
- ↑ (البداية والنهاية:10/124، شاملہ، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:10/116)
- ↑ (تہذیب التہذیب:2/241)
- ↑ (البداية والنهاية:10/124، شاملہ، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:10/116)
- ↑ (البداية والنهاية:10/125، شاملہ، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:10/72)
- ↑ (تہذیب التہذیب:6/239)
- ↑ (البدایہ:10/116،
- ↑ (تہذیب التہذیب:6/239، ان کے حالات کاب میں درج ہیں)
- ↑ (تہذیب التہذیب:6/242)
- ↑ (تہذیب التہذیب:6/242)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/999۔300)
- ↑ (البدایہ:10/116)
- ↑ (تہذیب الأسماء:1/423، شاملہ، مصدرالکتاب:فائل وورد أهداه بعض الأخوة للبرنامج)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/999۔300)
- ↑ (البدایہ:10/177)
- ↑ (البقرۃ:256)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ للذھبی:1/135، شاملہ، المكتبة الرقمية)
- ↑ (محاسن المساعی:11)
- ↑ (محاسن المساعی:9)
- ↑ (صفحہ:15)
- ↑ (البدایہ والنہایہ:10/126، شاملہ، موقع یعسوب)
- ↑ (البدایہ والنہایہ:118۔ تذکرۃ الحفاظ:1/162،163)
- ↑ (حسن المساعی:119، مرتبہ امیرشکیب ارسلان)
- ↑ (حسن المساعی:120 مرتبہ امیرشکیب ارسلان)
- ↑ (حلیۃ الأولیاء:6/135،136، شاملہ، الناشر: دارالكتاب العربي،بيروت)
- ↑ (حلیۃ الأولیاء:6/136، شاملہ، الناشر: دارالكتاب العربي،بيروت)
- ↑ (المائدۃ:8)
- ↑ (توضیح القرآن:1/328، مفتی محمدتقی عثمانی، مطبوعہ:فرید بکڈپو، دہلی)
- ↑ (حسن المساعی:14،مرتبہ امیرشکیب ارسلان)
- ↑ (الکہف:49)
- ↑ (ص:26)
- ↑ (توضیح القرآن:3/1396، مفتی محمدتقی عثمانی، مطبوعہ:فرید بکڈپو، دہلی)
- ↑ (الشعراء:214)
- ↑ (بخاری شریف میں یہ روایت ذرا اور تفصیل کے ساتھ آئی ہے)۔
- ↑ (تاریخ الصغیر بخاری)
- ↑ (الدھر،الإنسان:26،27)
- ↑ (توضیح القرآن:3/1854، مفتی محمدتقی عثمانی، مطبوعہ:فرید بکڈپو، دہلی)
- ↑ (البدایہ:1/117)
- ↑ (صفحہ نمبر:117)
- ↑ (تذکرۃ الخطاۃ:1/161)
- ↑ (تذکرۃ الخطاۃ:1/161)
- ↑ (تذکرۃ الخطاۃ:1/161)
- ↑ (تہذیب:6/256)
- ↑ (البدایہ والنہایہ:10/127، شاملہ، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:120)
- ↑ (البدایہ والنہایہ:10/127، شاملہ، موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:120)
- ↑ (تہذیب:10/120)
- ↑ (شذرات الذہب:1/241)
- ↑ (البدایہ والنہایہ:10/125، شاملہ، موقع یعسوب)
- ↑ (حسن المساعی:138)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/137، شاملہ،المكتبة الرقمية۔ دیگر مطبوعہ:1/264)
- ↑ (تہذیب التہذیب:6/217، شاملہ،موقع یعسوب)
- ↑ (تہذیب التہذیب:6/219، شاملہ،موقع یعسوب۔ دیگرمطبوعہ:6/246)
- ↑ (اختصار علوم الحدیث:99۔ شرح اختصار علوم الحديث:1/435، شاملہ،المؤلف:إبراهيم بن عبد الله بن عبد الرحمن اللاحم، موقع جامع شيخ الإسلام ابن تيمية)
- ↑ (خطط الشام:4/25)
- ↑ (حسن المساعی:5))
- ↑ (التشریع الاسلامی:270)
- ↑ (جلد:2، صفحہ نمبر:15)
- ↑ (صفحہ نمبر:159)
- ↑ (صفحہ:5)
- ↑ (صفحہ:42)
- ↑ (حسن الماعی:32۔ اعلام الموقعین)
- ↑ (السیرالکبیر:4)
- ↑ (مقدمہ الرد علی السیر الاوزاعی:2)
- ↑ (ابن خلکان:1/493)
- ↑ (تاریخ ابن الوردی:1/190، شاملہ، الناشر:دارالكتب العلمية)