مندرجات کا رخ کریں

فاطمہ صغریٰ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فاطمہ صغریٰ
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 661ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 729ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر حسن المثنیٰ   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبد اللہ بن حسن مثنی ،  ابراہیم غمر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد حسین ابن علی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ام اسحاق بنت طلحہ   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ محدثہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فاطمہ صغریٰ بنت حسین (پیدائش:40ھ/661ء– وفات: 110ھ/728ء) امام حسین بن علی اور اُن کی بیوی ”ام اسحاق“ (طلحہ بن عبید اللہ کی بیٹی) کی بیٹی تھیں۔[1][2]

فاطمہ بنت الحسین حسین بن علی کی سب سے بڑی بیٹی ہیں جن کی والدہ کا نام "ام اسحاق" تھا۔ سنہ 61 ہجری کے المناک واقعے میں آپ بھی اپنے والد ماجد کے ہمراہ کربلا میں موجود تھیں اور واقعہ عاشورا کے بعد باقی اہل بیت کے ساتھ اسیر ہو کر کوفہ گئیں اور شام گئیں۔ مصادر میں آپ سے ایک خطبہ بھی منقول ہے نیز محمد باقر کی ایک روایت کے مطابق حسین بن علی نے شہادت سے پہلے وصیت لکھ کر آپ کے سپرد کی تھی جسے آپ نے بعد میں زین العابدین کے حوالے کیا۔آپ نے امام حسین اور زین العابدین سے روایات نقل کی ہیں۔

تعارف

[ترمیم]

آپ کے والد ماجد شیعوں کے تیسرے امام، حسین بن علی ہیں اور آپ کی والدہ کا نام "ام اسحاق" ہے جو طلحہ بن عبید اللہ کی بیٹی تھیں [3]۔ آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کوئی دقیق معلومات نہیں ہے۔ چونکہ آپ کی والدہ پہلے امام حسن کے عقد میں تھیں حضرت امام حسنؑ کی شہادت کے بعد 49 یا 50 ہجری قمری میں حضرت امام حسینؑ کے عقد میں آئیں ہیں۔ اس لحاظ سے زیادہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ آپ کی ولادت 49 یا 50 ہجری کے بعد51 ہجری مییں ہوئی ہے [4]۔ کہتے ہیں شکل و صورت کے لحاظ سے آپ اپنی دادی حضرت فاطمہؑ سے مشابہت رکھتی تھیں[5]۔ فاطمہ کی شادی واقعہ کربلا سے پہلے اپنے چچا حضرت امام حسنؑ کے بیٹے حسن مثنی سے ہوئی تھی[6]۔

واقعہ کربلا میں حاضری اور اسیری

[ترمیم]

واقعہ عاشورا کے روز آپ اپنے شوہر کے ساتھ کربلا میں موجود تھیں۔ حسن مثنی نے بڑی بہادری کے ساتھ جنگ کی اور زخمی ہوئے۔ بعد میں اسیر ہوئے۔ اسما بن خارجہ فزاری نے آپ کو نجات دلوائی۔ لہذا کوفہ میں آپ کا علاج ہوا۔ صحت یاب ہونے کے بعد مدینہ واپس آگئے [7] جبکہ فاطمہ دوسرے اسیروں کے ساتھ کوفہ و شام تک گئیں [8]۔ بعض مصادر میں خیام حسینی پر حملے اور اہل بیت کی اسارت کی روایت آپ سے ہی نقل کی ہے[9]۔ شام میں آپ اور یزید بن معاویہ کے درمیان گفتگو بھی مصادر میں ضبط ہیں[10]۔ احمد بن علی طبرسی نے اہل کوفہ کے ساتھ آپ کی گفتگو کو بھی نقل کیا ہے [11]۔

ابن عساکر نے اپنی کتاب میں اور علامہ مجلسی نے فاطمہ بنت الحسین کے متعلق کتاب كا نام لیے بغیر کہا کہ میں نے ایک قدیم مناقب کی کتاب میں دیکھا جس میں لکھا تھا :

جب امام حسین شہید ہو گئے تو ایک کوا آیا اس نے اپنے آپکو خون میں غلطان کیا اور پرواز کر گیا اور فاطمہ صغری کے گھر کی دیوار پر بیٹھ کر شور مچانے لگا آپ نے دیکھا تو آپ نے گریہ کرنا شروع کیااور اشعار پڑھے[12]۔

لیکن دیگر کتب سے آپ کے مدینہ میں رہ جانے کی تائید نہیں ہوتی ہے ۔

مقام و منزلت

[ترمیم]

امین امامت

[ترمیم]

حضرت امام باقر سے منقول روایت کے مطابق امام حسینؑ نے شہادت سے پہلے اپنی وصیت لکھ کر آپ کے سپرد کیے جنہیں آپ نے بعد میں امام سجادؑ کے حوالے کیا [13]۔

نقل حدیث

[ترمیم]

نقل حدیث کے لحاظ سے آپ کا شمار تابعین میں سے ہوتا ہے۔ آپ نے حضرت امام حسین، عبد اللہ بن عباس اور اسما بنت عمیس سے روایت نقل کی ہے [14]۔ نیز منقول ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ بنت محمد، زینب بنت علی ، اپنے بھائی امام سجادؑ، عبد اللہ بن عباس، عائشہ، اسما بنت عمیس اور بلال حبشی سے مرسلہ روایت نقل کی ہے[15] ۔

آپ کے بیٹے عبد اللہ ،حسن اور ابراہیم آپ سے روایت نقل کرتے ہیں اسی طرح حسن بن حسن ،محمد بن عبد اللہ بن عمرو، شبیہ بن نعامہ، یعلی بن ابی یحیی، عائشہ بنت طلحہ، عمارہ بن غزیہ، ام ابی مقداد، ہشام بن زیاد، ام الحسن بنت جعفر بن حسن بن حسن بھی آپ سے روایت نقل کرتے ہیں [16]۔

خطبہ

[ترمیم]

کوفہ میں امام سجادؑ کے علاوہ حضرت زینب ،ام کلثوم اور فاطمہ بنت حسین نے بھی خطبہ دیا ہے۔حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بیٹے زید نے نقل کیا ہے کہ کربلا سے کوفہ میں آنے کے بعد فاطمہ صغرا نے خطبہ دیا جسے لہوف میں سید بن طاؤس نے نقل کیا ہے :

الحمد لله عدد الرمل و الحصى و زنة العرش إلى الثرى أحمده و أومن به و أتوكل عليه و أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له و أن محمدا عبده و رسوله.....جب آپ یہاں پر پہنچیں ألا فأبشروا بالنار أنكم غدا لفي سقر حقا يقينا تخلدواو أني لأبكي في حياتي على أخي على خير من بعد النبي سيولدبدمع غريز مستهل مكفكف على الخد مني دائما ليس يجمد تو لوگوں کے گریہ کی آوازیں بلند ہو گئیں اور وہ کہنے لگے کہ اے خاندان عصمت کی بیٹی آپ کی ان باتوں نے ہمارے دلوں اور سینوں میں آگ لگا دی ہے اور غم و الم کی وجہ سے ہمارے کلیجے منہ کو آ رہے ہیں۔بس کریں رک جائیں خاموش ہو جائیں ۔ تو حضرت فاطمہ خاموش ہو گئیں [17]۔

غم فاطمہ

[ترمیم]

منقول ہے کہ اپنے شوہر کے سوگ میں ایک سال تک اس کے مزار پر بیٹھی رہیں۔دن کو روزہ رکھتیں اور رات کو عبادت خدا میں مشغول رہتیں[18]۔

صحیح بخاری میں محمد بن اسماعیل نے روایت نقل کی ہے :

لما مات الحسن بن الحسن بن علی ضربت امرأته القبّة علی قبره سنة... یعنی حسن بن حسن بن علی کی وفات پر اس کی زوجہ نے ایک سال تک اس کی قبر پر ایک قبہ نصب رکھا اور غمگین ہوئیں۔[19] ۔

حسن مثنی کے بعد آپ نے عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان سے شادی کی[20]۔ اس کے بعد مدینے کے والی عبد الرحمان بن ضحاک نے خواستگاری کی لیکن آپ نے قبول نہیں کیا[21] ۔

فاطمہ بنت الحسین کے چار اولادیں بنام : عبد اللہ ، ابراہیم، حسن و زینب تھیں[22]۔ عبد اللہ بن عمرو سے محمد ،دیباج ،قاسم اور رقیہ تھیں[23]۔ان کی نسل میں سے اکثر کی اولادیں خاندان بنو عباس کے دور حکومت میں شہید کیے گئے یا قید خانوں میں رکھے گئے [24]۔

وفات

[ترمیم]

سبط ابن جوزی نے آپ کا سنہ وفات تقریبا 117 ہجری قمری نقل کیا ہے [25]۔ ابن حبان نے تاریخ وفات کے بغیر کہا کہ آپ 90 سال کی عمر فوت ہوئیں[26] ۔جبکہ ابن عساکر[27] نے آپ کی وفات ہشام بن عبد الملک کی خلافت کے زمانے میں نقل کی ہے اور وہ مدینہ میں مدفون ہے۔[28] ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. مفید، الارشاد، ج 2، ص 491
  2. محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 45، ص 329۔
  3. مفید، الارشاد، ج 2، ص 491؛ محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 45، ص 329.
  4. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام حسینؑ: برپایہ قرآن و حدیث،قم: دارالحدیث، 1388. ص
  5. رجوع کریں: بخاری، ص 6؛ ابوالفرج اصفہانی، 1405، ص 122؛ مفید، ج 2، ص 25.
  6. تاریخ دمشق، ج70، ص17؛ المعارف لابن قتیبہ، ص213؛ ابن‌سعد، ج 8، ص 473؛ بخاری، مذکورہ۔
  7. حسنی، المصابیح، ص379؛ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج‌اللّہ علی العباد (1413)، ج2، ص25؛ ابن‌طاووس، ص63.
  8. الکامل فی التاریخ، ج2، ص 577؛ مفید، ج 2، ص 121
  9. صدوق، الامالی للصدوق، ص 228
  10. رجوع کریں: طبری، ج 5، ص 464؛ قاضی نعمان، ج 3، جزء13، ص 268.
  11. احمدبن علی طبرسی، ج 2، ص 2729.
  12. ابن عساکر ،ج 70 ص 24؛مجلسی ،ج 45 ص 171۔
  13. صفّار قمی، ص 182183؛ کلینی، ج 1، ص 303.
  14. ابن‌عساکر، ج 70، ص 10؛ مزّی، ج 35، ص 254255
  15. ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج70، ص10؛ تہذیب الکمال، ج35، ص254
  16. ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج70، ص10؛ تہذیب الکمال، ج35، ص254؛
  17. سید بن طاووس، لہوف، ص178.
  18. صحیح البخاری، ج1، ص446؛ تہذیب الکمال، ج6، ص95؛ بحارالانوار، ج44، ص167و168؛ تاریخ دمشق، ج70، ص19؛ مفید، الارشاد، ج2، ص26.
  19. صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب 61۔فتح الباری فی شرح صحیح بخاری،ج3، ص 255، باب61
  20. تہذیب الکمال، ج35، ص256؛ مقاتل الطالبین، ص167
  21. ابن‌سعد، ج 8، ص 474
  22. تہذیب الکمال، ج35، ص256؛ لباب الانساب، ج1، ص385؛
  23. المجدی، ص91؛ تہذیب الکمال، ج35، ص256؛ المعارف لابن قتیبہ، ص 199
  24. تاریخ الطبری، ج7، ص536
  25. سبط ابن جوزی، تذکرہ الخواص، ص 280
  26. ابن‌حِبّان، ج 5، ص 301
  27. ابن‌عساکر، ج 70، ص 17
  28. سبط ابن جوزی، تدکرہ الخواص، ص280

مآخذ

[ترمیم]
  • ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن‌حِبّان،محمدبن احمد، صحیح ابن حبان، بیروت، موسسہ الرسالۃ، 1414ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار بیروت، 1405ھ۔
  • ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت ،1421ھ۔
  • ابن‌قتیبہ، المعارف، چاپ محمداسماعیل عبد اللہ صاوی، بیروت، 1390ھ۔
  • اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، بہ تحقیق کاظم المظفر، نجف اشرف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1385ھ۔
  • سبط بن جوزی، تذکرۃ الخواص، قم، الشریف الرضی،1418ھ۔
  • سیدبن طاووس، لہوف، ترجمہ عبد الرحیم عقیقی بخشایشی، قم، نوید اسلام، 1378شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، نشر کتابچی، 1376شمسی ہجری۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، مؤسسہ آل البیتؑ، 1413ھ۔
  • صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد (ص)، بہ تصحیح محسن کوچہ‌باغی، قم، مکتبہ نجفی، 1404ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی أہل اللجاج، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، نشر اسوہ، 1416ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1967م.
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسہ وفاء، 1403ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • محمدی ری شہری، دانشنامہ امام حسینؑ: برپایہ قرآن و حدیث، قم، دار الحدیث، 1388شمسی ہجری۔
  • مِزّی، یوسف‌‌‌بن عبد الرحمان، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، چاپ بشار عوّاد معروف، بیروت، 1405ھ۔
  • بخاری ، محمدبن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت دار ابن کثیر، 1410ھ۔
  • بیہقی، علی بن زید، لباب الانساب والالقاب والاعقاب، قم، مکتبہ مرعشی،1410ھ۔
  • عسقلانی، ابن حجر، تقریب التہذیب، دمشق، دار الرشید، 1412ھ۔