مندرجات کا رخ کریں

طاؤس بن کیسان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(طاووس بن کیسان سے رجوع مکرر)
طاؤس بن کیسان
(عربی میں: طاوس الحميري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 634ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
یمن   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 724ء (89–90 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزدلفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب طاووس بن كيسان
اولاد عبد اللہ بن طاؤس   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ عبد اللہ بن عباس ،  عائشہ بنت ابوبکر ،  عبد اللہ بن عمر ،  ابو ہریرہ ،  عبد اللہ بن عمرو بن العاص ،  عبد اللہ بن عباس   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص عبد اللہ بن طاؤس ،  ابن شہاب زہری ،  مجاہد بن جبیر ،  سلیمان بن طرخان تیمی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

طاؤس بن کیسان (پیدائش: – وفات: 724ء) پہلی صدی ہجری کے مشہور تابعی، محدث اور ماہر علم الرجال حدیث تھے۔

نام ونسب

[ترمیم]

طاؤس نام عبد الرحمن کنیت بحیرین ریسان حمیری کے غلام تھے،ان کے والد نسلاً عجمی تھے،لیکن آل حمدان سے تعلقات پیدا کرکے یمن کے شہر جند میں بود وباش اختیار کرلی تھی۔

فضل وکمال

[ترمیم]

فضل وکمال کے اعتبار سے طاؤس کا شمار کبار تابعین میں تھا، علامہ نووی لکھتے ہیں طاؤس صاحبِ علم و فضل اورکبار تابعین میں تھے،ان کی جلالت ،فضیلت اور علم اورصلاح وحفظ پر سب کا اتفاق ہے [1] ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ وہ امام اور علم و عمل کے اعتبار سے علما اعلام میں تھے۔ [2]

حدیث

[ترمیم]

حدیث کے وہ بڑے حافظ تھے ان کا حفظِ حدیث ارباب علم میں مسلم تھا ۔[3]پچاس صحابہ کے دیدار کا شرف حاصل تھا،ان میں عبد اللہ بن عمرؓ ،عمروؓ بن عباس،ابن عمروبن العاصؓ، ابن زبیرؓ،زید بن ارقمؓ،زید بن ثابتؓ،ابو ہریرہؓ، عائشہ صدیقہؓ،سراقہ بن مالکؓ،صفوان بن امیہؓ اور جابرؓ وغیرہ صحابہ کرام کے سرچشمہ علم سے سیراب ہوئے تھے،حبر الامۃ عبد اللہ بن مسعودؓ سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ استفادہ کیا تھا۔

فقہ

[ترمیم]

فقہ میں بڑا پایہ تھا،علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں: کان فقیھا جلیل القدر رفیع الذکر

تلامذہ

[ترمیم]

تلامذہ کا دائرہ بھی خاصا وسیع تھا،ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں، آپ کے صاحبزادے عبد اللہ،وہب بن میسرہ،جلیب بن ابی ثابت، اصم بن عتیبہ،حسن بن مسلم، سلیمان بن موسیٰ ،عبد الکریم حزری،عبد الملک بن میسرہ ،عمرو بن شعیب ،عمروبن دینار ،عمرو بن مسلم،قیس بن سعد، مجاہد،لیث ابو سلیم اورہشام وغیرہ۔ [4]

معاصر علما میں ان کا درجہ

[ترمیم]

علمی اعتبار سے ان کا شمار اس عہد کے اکابر علما کے زمرہ میں تھا،ابن عینیہ کا بیان ہے کہ میں نے عبد اللہ بن یزید سے پوچھا کہ تم کن لوگوں کے ساتھ ابن عباسؓ کے پاس جاتے تھے، انھوں نے جواب دیا، عطاء اوران کی جماعت کے ساتھ میں نے کہا اور طاؤس ،انھوں نے کہا وہ خواص کے ساتھ جاتے تھے۔ [5]

ارباب علم کا اعتراف

[ترمیم]

اس عہد کے تمام ارباب ِ علم ان کے کمالِ علم کے معترف تھے،عمروبن دینار کہتے تھے کہ میں نے کسی شخص کو طاؤس کے برابر نہیں دیکھا ،بعض لوگوں کے نزدیک وہ یمن کے ابن سیرین تھے،سعید بن ابی سیرین کا بیان ہے کہ قیس بن سعد کہتے تھے کہ طاوس ہمارے یہاں کے ابن سیرین ہیں [6] بعض علما انھیں حضرت ابن جبیر کا ہم پایہ سمجھتے تھے عثمان دارمی کا بیان ہے کہ میں نے ابن معین سے پوچھا کہ آپ کو طاؤس زیادہ پسند ہیں یا سعید بن جبیر،انھوں نے کسی کو ترجیح نہیں دی۔ [7]

زہد وعبادت

[ترمیم]

اس علم کے ساتھ طاؤس میں اسی درجہ کا عمل بھی تھا، ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ یمن کے عبادت گزار لوگوں میں تھے [8] کثرتِ عبادت سے پیشانی پر نشانِ سجدہ تاباں تھا، بستر مرگ پر بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھتے تھے [9] چالیس حج کیے [10] طواف میں خاموش رہتے تھے کسی بات کا جواب نہ دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ طواف نماز ہے۔ (ابن سعد:/393)

انفاق فی سبیل اللہ

[ترمیم]

خدا کی راہ میں بھی حسبِ استطاعت صرف کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک سزایاب کو اس کا جرمانہ ادا کرکے چھڑایا۔ [11]

دولت دنیا سے بے نیازی

[ترمیم]

دنیا اوراس کی خواہشوں سے بالکل بے نیاز تھے،کبھی دنیاوی نعمتوں کی خواہش نہیں کی، ہمیشہ یہی دعاکرتے تھے کہ ،خدایا مجھے مال اوراولاد سے محروم رکھ اوراس کے بدلہ میں ایمان وعمل کی دولت عطا فرما۔ [12]

اہل دنیا سے بے تعلقی: ارباب حکومت اورثروت سے ہمیشہ گریز کرتے تھے،اور ان کو شر سمجھتے تھے،ابن عینیہ کا بیان ہے کہ حکومت اور حکمرانوں سے گریز کرنے والے تین آدمی تھے، ابو زر ؓصحابی اپنے زمانے میں اور طاؤس وثوری اپنے زمانہ میں [13]فرماتے تھے ،ارباب شرف ودول سے زیادہ میں نے کسی کو شر نہیں دیکھا۔ [14]

امرا اورسلاطین کا معمولی احسان اٹھانا بھی پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ وہب بن منبہ کے ہمراہ حجاج بن یوسف کے بھائی محمد کے یہاں گئے اس وقت سردی زیادہ تھی،اس لیے محمد بن یوسف نے ان کے اوپر ایک چادر ڈالوادی،مگر انھوں نے کندھا ہلاکر گرادیا،محمد کو یہ بہت ناگوار ہوا،یہاں سے اٹھنے کے بعد ان کے ہمرا ہی وہب نے ان سے کہا اگر تم کو چادر کی ضرورت نہ تھی تو بھی لوگوں کو محمد کے غصہ سے بچانے کے لیے تم کو اس وقت لے لینا چاہیے تھا،زیادہ سے زیادہ اسے بیچ کر اس کی قیمت مساکین میں تقسیم کردیتے،انھوں نے جواب دیا،اگر اس کا خیال نہ ہوتا کہ میرے بعد لوگ میرے اس فعل کو سند جواز بنائیں گے تو ایسا کرتا۔ [15]

تحصیلداری کا عہدہ

[ترمیم]

ایک مرتبہ محمد بن یوسف نے انھیں چند دنوں کے لیے تحصیلداری کے عہدہ پر مامور کر دیا، ان کے جیسے شخص کو اس عہدہ سے کیا مناسبت ہو سکتی تھی وہ جس طرح اس کام کو کرتے تھے اس کی تفصیل خود ان کی زبان سے یہ ہے :ابراہیم بن میسرہ نے ان سے پوچھا آپ تحصیلداری کے زمانہ میں کیا کرتے تھے،فرمایا میں باقی دار سے کہتا تھا خدا تم پر رحم کرے اس نے تم کوجو عطاکیا، اس کو (شریعت کا حق دے کر) پاک کرو، اگر وہ اس کہنے پر خراج دے دیتا تھا،تو لے لیتا تھا اوراگر کوئی اعراض کرتا تھا تو میں اسے بلاتا بھی نہ تھا۔ [16]

خلفاء کو نصیحت

[ترمیم]

قیامِ عدل وخدمت خلق کا دارومدار صالح عہدہ داروں پر ہے، اس لیے طاؤس سلاطین اورخلفاء کو حکام کے انتخاب کے باب میں نصیحت کیا کرتے تھے،عمرؓ بن عبد العزیز جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو انھیں لکھ بھیجا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے تمام کام اچھے ہوں تو اچھے لوگوں کو عہدہ دار بنائے،انھوں نے جواب میں لکھا کہ ، میری بھلائی کے لیے آپ کی نصیحت کافی ہے۔ [17]

ان کے صاحبزادے ،عبد اللہ بھی بالکل ان کے ہمرنگ تھے ایک مرتبہ ابو جعفر منصور عباسی نے انھیں اور امام مالک کو بلا بھیجا،یہ دونوں گئے،منصور نے عبد اللہ سے کہا کہ اپنے والد کی کوئی حدیث سنائیے،انھوں نے یہ حدیث سنائی کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس شخص پر ہوگا جو خدا کی حکومت میں شرک کرے گا، یعنی اس میں ظلم کو شریک بنائے گا، یہ نصیحت آموز حدیث سن کر منصور خاموش ہو گیا، تھوڑی دیر خاموشی کے بعد منصور نے تین مرتبہ عبد اللہ سے داوات اٹھانے کے لیے کہا،مگر انھوں نے تعمیل نہیں کی،منصور نے کہا داوات کیوں نہیں اٹھاتے،انھوں نے کہا اس لیے کہ اگر تم اس سے کوئی ظالمانہ حکم لکھو گے،تو اس میں میری شرکت بھی ہوجائے گی،ان کی یہ کھری باتیں سن کر منصور نے دونوں کو اٹھادیا ،عبد اللہ نے کہا ہم تو یہی چاہتے ہی تھے، امام مالک کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے میں عبد اللہ کے فضل کا معترف ہو گیا۔ [18]

قرآن کا احترام

[ترمیم]

وہ کلامِ الہیٰ سے مالی فائدہ اٹھانے کو نہایت برا اوراحترامِ قرآن کے منافی سمجھتے تھے،ایک مرتبہ کچھ لوگوں کو قرآن مجید کا ہدیہ کرتے سُنا تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے لگے۔

نوجوانوں کی اصلاح

[ترمیم]

نوجوانوں کی جدت آمیز وضع قطع اور چال ڈھال کو سخت ناپسند کرتے تھے،ایک مرتبہ قریش کے چند خوش پوش اورجدت پسند نوجوانوں کو طواف کی حالت میں دیکھ کر ٹوکا کہ تم لوگ ایسا لباس پہنتے ہوجو تمھارے اسلاف نہ پہنتے تھے اور ایسی اٹھلائی ہوئی چال چلتے ہو کہ نچنیے بھی نہیں چل سکتے۔ [19]

عید المومنین

[ترمیم]

عید کی خوشی منانا ضروری سمجھتے تھے، اس دن اپنی تمام لونڈیوں کے ہاتھوں اورپیروں پر مہندی لگواتے تھے اور فرماتے تھے یہ عید کا دن ہے۔ [20]

وفات

[ترمیم]

آپ کی وفات 106ھ میں ہوئی آپ کی نماز جنازہ ہشام بن عبدالملک نے پڑھائی۔وفات جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے وہ حج بکثرت کرتے تھے اس کا سلسلہ آخر عمر تک جاری رہا،خدانے ان کے اس ذوق کو حسنِ قبول بخشا؛چنانچہ 106 کے حج کے موسم میں مکہ ہی میں ترویہ سے ایک دن پہلے انتقال کیا، اس طرح وہ ہمیشہ کے لیے ارض مکہ میں مقیم ہو گئے [21] حج کی وجہ سے جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ جنازہ لے جانا دشوار ہو گیا،ابراہیم بن ہشام مخزومی نے انتظام کے لیے پولیس بھیجی،پھر بھی اتنا مجمع تھا کہ جنازہ اٹھانے والوں کے کپڑے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور ہزاروں حاجیوں کے ہاتھوں مدفون ہوئے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (تہذیب الاسماء،ج اول،ق اول،ص 251)
  2. (شذرات الذہب:1/133)
  3. (تہذیب الاسماء:جلد اول، ق اول،ص251)
  4. (ابن خلکان:1/232)
  5. (تہذیب الاسماء:1/291)
  6. (ابن سعد:5/394)
  7. (تہذیب التہذیب:5/9)
  8. (تہذیب التہذیب ایضاً)
  9. (ابن سعد:5/93 وص 359)
  10. (تہذیب التہذیب :5/9)
  11. (ابن سعد:5/494)
  12. (ابن سعد ایضاً)
  13. (ایضاً)
  14. (تہذیب التہذیب:5/10)
  15. (ابن سعد:5/392)
  16. (ابن سعد:5/293)
  17. (ابن خلکان:1/233)
  18. (ابن خلکان:1/233)
  19. (ابن سعد:5/393)
  20. (ابن سعد ایضاً:395)
  21. (ابن سعدایضاً:395)