سورہ الزخرف
الزخرف Sūrat al-Zukhruf الزخرف | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
دیگر نام (انگریزی) | Luxury, The Embellishment, Ornaments, Gold |
عددِ پارہ | 25 واں پارہ |
اعداد و شمار | 7 رکوع, 89 آیات |
قرآن مقدس |
---|
متعلقہ مضامین |
قرآن مجید کی 43 ویں سورت جو ان چار سورتوں کا تسلسل ہے جن کی قرآنی و نزولی ترتیب تقریباً ایک ہے یعنی المؤمن، حم السجدہ اور الشوریٰ کے بعد سورۂ زخرف۔ اس میں 89 آیات اور 7 رکوع ہیں۔
نام
آیت 35 کے لفظ و زخرفاً سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لفظ زخرف آیا ہے۔
زمانۂ نزول
کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہو سکا ہے لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورت بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی ہے جس میں المؤمن، حم السجدہ اور الشوریٰ نازل ہوئیں۔ یہ ایک ہی سلسلے کی سورتیں معلوم ہوتی ہیں جن کا نزول اس وقت شروع ہوا جب کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو درپے ہو گئے تھے۔ شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا۔ اس صورت حال کی طرف آیات 79 اور 80 میں صاف اشارہ موجود ہے۔
موضوع اور مباحث
اس سورت میں پورے زور کے ساتھ قریش اور اہل عرب کے ان جاہلانہ قائد و اوہام پر تنقید کی گئی ہے جن پر وہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے اور نہایت محکم و دل نشیں طریقے سے ان کی معقولیت ک پردہ فاش کیا گیا ہے تاکہ معاشرے کا ہر فرد، جس کے اندر کچھ بھی معقولیت موجود ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ کیسی جہالتیں ہیں جن سے ہماری قوم بری طرح چمٹی ہوئی ہے اور جو شخص ہمیں ان کے چکر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔
کلام کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ اس کتاب کا نزول روک دیا جائے، مگر اللہ نے کبھی اشرار کی وجہ سے انبیا کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے، بلکہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیا ہے جو اس کی ہدایت کا راستہ روکے کھڑے ہوئے تھے۔ یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا۔ آگے چل کر آیات 41 تا 43 اور 79 تا 80 میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کے درپے تھے ان کو سناتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ تم خواہ زندہ رہو یا نہ رہو، ان ظالموں کو ہم سزا دے کر رہیں گے [1] اور خود ان لوگوں کو صاف صاف متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہمارے نبی کے خلاف ایک اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ وہ مذہب کیا ہے جسے یہ لوگ سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور وہ دلائل کیا ہیں جن کے بل بوتے پر یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا اور ان کا اپنا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالٰیٰ ہی ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ جن نعمتوں سے یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ سب اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ پھر بھی دوسروں کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک کرنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔
بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔
فرشتوں کو انھوں نے دیویاں قرار دے رکھا ہے۔ ان کے بت عورتوں کی شکل کے بنا رکھے ہیں۔ انھیں زنانہ کپڑے اور زیورات پہناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی عبادت کرتے ہیں اور انہی سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ آخر انھیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے عورتیں ہیں؟
ان جہالتوں پر ٹوکا جاتا ہے تو تقدیر کا بہانہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ ہمارے اس کام کو پسند نہ کرتا تو ہم کیسے ان بتوں کی پرستیں کر سکتے تھے۔ حالانکہ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ اس کی کتابیں ہیں نہ کہ وہ کام جو دنیا میں اس کی مشیت کے تحت ہو رہے ہیں۔ مشیت کے تحت تو ایک بت پرستی ہی نہیں، چوری، زنا، ڈاکہ، قتل، سبھی کچھ ہو رہا ہے۔ کیا اس دلیل سے ہر اس برائی کو جائز و برحق قرار دیا جائے گا جو دنیا میں ہو رہی ہے؟
پوچھا جاتا ہے کہ اپنے اس شرک کے لیے تمھارے پاس اس غلط دلیل کے سوا کوئی اور سند بھی ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ باپ دادا سے یہ کام یونہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ گویا ان کے نزدیک کسی مذہب کے حق ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے۔ حالانکہ ابراہیم علیہ السلام، جن کی اولاد ہونے پر ہی ان کے سارے فخر و امتیاز کا مدار ہے، باپ دادا کے مذہب کو لات مار کر گھر سے نکل گئے تھے اور انھوں نے اسلاف کی ایسی اندھی تقلید کو رد کر دیا تھا جس کا ساتھ کوئی دلیل معقول نہ دیتی ہو۔ پھر اگر ان لوگوں کو اسلاف کی تقلید ہی کرنی تھی تو اس کے لیے بھی اپنے بزرگ ترین اسلاف ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر انھوں نے جاہل ترین اسلاف کا انتخاب کیا۔
ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا کبھی کسی نبی نے اور خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی عبادت کے مستحق ہیں، تو یہ مسیحیوں کے اس فعل کو دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو ابن اللہ مانا اور ان کی پرستش کی۔ حالانکہ سوال یہ نہ تھا کہ کسی نبی کی امت نے شرک کیا ہے یا نہیں، بلکہ یہ تھا کہ خود کسی نبی نے شرک کی تعلیم دی ہے؟ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے کب کہا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو۔ ان کی اپنی تعلیم تو وہی تھی جو دنیا کے ہر نبی نے دی ہے کہ میرا رب بھی اللہ ہے اور تمھارا رب بھی، اسی کی تم عبادت کرو۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت تسلیم کرنے میں انھیں تامل ہے تو اس بنا پر کہ ان کے پاس مال و دولت اور ریاست و وجاہت تو ہے ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہمارے ہاں کسی کو نبی بنانا چاہتا تو ہمارے دونوں شہروں (مکہ و طائف) کے بڑے آدمیوں میں سے کسی کو بناتا۔ اسی بنا پر فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حقیر جانا تھا اور کہا تھا کہ آسمان کا بادشاہ اگر مجھ زمین کے بادشاہ کے پاس کوئی ایلچی بھیجتا تو اسے سونے کے کنگن پہنا کر، فرشتوں کی ایک فوج اس کی اردلی میں دے کر بیجھتا، یہ فقیر کہاں سے آ کھڑا ہوا؟ فضیلت مجھے حاصل ہے کہ مصر کی بادشاہی میری ہے اور دریائے نیل کی نہریں میری ماتحتی میں چل رہی ہیں۔ یہ شخص میرے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ نہ مال رکھتا ہے نہ اقتدار۔
اس طرح کفار کی ایک ایک جاہلانہ بات پر تنقید کرنے اور اس کے نہایت معقول و مدلل جوابات دینے کے بعد آخر میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ نہ خدا کی کوئی اولاد ہے، نہ آسمان و زمین کے خدا الگ الگ ہیں، نہ اللہ کے ہاں کوئی ایسا شفیع ہے جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرنے والوں کو اس کی سزا سے بچا سکے۔ اللہ کی ذات اس سے منزہ ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو۔ وہی اکیلا ساری کائنات کا خدا ہے، باقی سب اس کے بند ہیں نہ کہ اس کے ساتھ خدائی صفات و اختیارات میں شریک۔ اور شفاعت اس کے ہاں صرف وہی کر سکتے ہیں جو خود حق پرست ہوں اور انہی کے لیے کر سکتے ہیں جنھوں نے دنیا میں حق پرستی اختیار کی ہو۔
حوالہ جات
- ↑ سورۂ زخرف آیت نمبر 42