اسلام میں سدومیت
سدومیت۔(Pederasty) لواطت۔ غیر فِطری جِنسی اختلاط خصوصاً مرد کا کِسی مرد کے ساتھ۔ اغلام۔ لواطت[1]
سدومیت اسلام میں
[ترمیم]سدومیت "ہم جنسی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسلام میں یہ ایک حقیر اور قبیح عادت یا عمل ہے یہ عمل قرآن کے مطابق پہلی مرتبہ چار ہزار سال پہلے حضرت لوطؑ کی قوم نے ایجاد کیا تھا اور اب اس سے کہیں زیادہ پایا جاتا ہے خاص طور پر غیر اسلامی ممالک میں۔ جن غیر اسلامی ممالک نے اسے جائز قرار دیا ہے آج وہ کروڑوں پیسے خرچ کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان میں بری بری بیماریاں بھی ہیں جن کا علاج آسانی سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اسلام جیسے پاک مذہب نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ سدومیت کا معنی ہوتا ہے کہ ایک مرد دوسرے مرد سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے والی حرکت کرے۔ یہ حرکت قوم لوط نے ایجاد کی تھی جس کے بعد اللہ کا عذاب بھی فوراً ان کے پیچھے پڑ گیا۔ اس حرکت کی وجہ سے بہت سے بیماریوں کا سامنا پڑ سکتاہے۔ اسلامی ممالک میں یہ فوری طور پر غیر قانونی ہے حالانکہ بہت سے غیر اسلامی ممالک میں بھی سدومی کو قانونی طور پر تسلیم بھی کیا گیا ہے۔
قوم لوط کا عمل
[ترمیم]لوط (علیہ السلام) اہل سدوم کی طرف مبعوث کیے گئے تھے اور اہل سدوم اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کی بجائے امرد لڑکوں سے اختلاط رکھتے تھے۔ دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اس وقت تک قطعاً کوئی رواج نہ تھا۔ یہی بدبخت قوم ہے جس نے اس ناپاک اور غیر فطری عمل کو ایجاد کیا اور اس عمل کا نام سدومیت (اغلام بازی)معروف ہے بعض لوگ اس فعل کو ” لواطت “ کے لفظ سے بولتے ہیں جو ایک نہایت غلط بات ہے کہ ایسے فعل کی نسبت حضرت لوط (علیہ السلام) کی طرف کی جائے بلکہ اس کا اصل نام سدومیت ہے اور اس کو اسی کے نام سدومیت ہی سے یاد کرنا چاہیے[2]
ایک ہی جنس کے حامل افراد کے مابین پائے جانے والے جنسی میلان کا رویہ جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اِرثی یا وراثتی یا موروثی ہے لیکن غالب امکان یہ ہے کہ اس رویہ کو جنسیت کی تکمیل کے خوف سے اختیار کیا جاتا ہے۔
انگلستان اور ویلز میں باہمی رضا مندی کے تحت قانون جنسی جرائم مجریہ 1967ء کے تحت اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ کئی دیگر ممالک میں بھی اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام سمیت اکثر دوسرے مذاہب میں بھی اسے ناجائز قرار دیا گیا ہے اور اس کا مرتکب مستوجب سزا ہے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Sodomy - انگریزی_لغت"۔ 14 اپریل 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2021
- ↑ تفسیر عروۃ الوثقیٰ، علامہ عبد الکریم اثری