ہندوستان کی اساطیری شاعری
ہندوستان کی اساطیری شاعری (انگریزی: Indian epic poetry) ان اساطیری شاعری کو کہا جاتا ہے جو بر صغیر میں لکھی گئی ہوں۔ سنسکرت میں काव्य، کاویہ کہتے ہیں۔ راماین اور مہا بھارت اصکا سنسکرت زبان میں لکھی گئی تھیں اور بعد میں دیگر ہندوستانی زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوا۔ یہ دونوں دنیا کی قدیم ترین شاعری اور اساطیری شاعری سمجھی جاتی ہے۔[1]
سنسکرت اساطیری شاعری
[ترمیم]راماین اور مہا بھارت ہندو متون کی دو اہم قدیم کتابیں ہیں جو اصلا سنسکرت زبان میں لکھی گئی تھیں۔ ان کے اکثر کردار ہندو مت کے بھگوان ہیں اور یہ بھارت کی ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔ ان دونوں میں راوی بھی کہانی کا حصہ ہے۔ بر صغیر کے اکثر مذاہب اور علاقے ان دونوں اساطیری کتابوں سے متاثر ہیں ہیں اور جگہ جگہ ان کے مندر ہیں، ادب و ثقافت میں ان کا گہرا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پران بھی اپنے آپ میں ایک شاعری کا مجموعہ ہے جس میں ہندو بھگوانوں اور دیویوں کی داستانیں جمع کی گئی ہیں۔ پران کا تذکرہ اتھر وید[2] میں بھی کیا گیا ہے اور اسے چوتھی وید کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[3]
تمل اساطیر
[ترمیم]تمل میں کئی اساطیری کہانیاں لکھی گئی ہیں جیسے سیلاپتی کارم، منی میکالئی، سیواکا سنتامنی، ولیا پتی اور کونڈل کیسی وغیرہ۔ چول سلطنت میں کمبن (شاعر) نے 12 ویں صدی میں تمل زبان کی سب سے مایہ ناز کتاب کمبن راماین لکھی۔ اس کی بنیاد والمیکی راماین ہے۔ تمل میں کل پانچ عظیم اساطیری کتابیں ہیں جن میں منی میکالئی اور کندل کیسی بدھ مت کی تعلیمات پر مبنی ہیں، سیواکا سنتامنی اور ولیاپنتی جین مت کی کتابیں ہیں اور سیلاپری کارم عام ہندو مذہب کی ہے۔
کنڑ اساطیری شاعری
[ترمیم]کنڑ کی زیادہ تر اساطیری شاعری جین مت اور لنگایت دھرم سے متاثر ہے۔ اسگ نے وردھمان چرتر 853ء میں لکھی۔[4] یہ کتاب جین مت کے 24ویں تیرتھنکر مہا ویر کی پہلی سنسکرت زبان میں سوانح عمری ہے۔ حالانکہ ان کی کنڑ زبان کی کتاب کالی داس کی شاعری، کمار سمبھو، کرناٹک کمار سمبھو کاویہ اب مفقود ہے۔[5] اس عہد کے بہت ہی مشہور شاعر پمپا (902ء-975 ء) ہیں جو کنڑ زبان کے سرخیل شعرا میں شامل ہیں۔ ان کی کتاب وکرم ارجن وجے آج بھی شاہکار مانی جاتی ہے اور کنڑ کلاسیکی کا ایک اہم نمونہ ہے۔ ان کی آدی پران نے آنے والی کنڑ شاعری کے لیے ایک کنیوس ہی تیار کر دیا اور ما بعد کے شاعروں نے اس رنگ میں خوب شاعری کی۔
ہندی اساطیری شاعری
[ترمیم]ہندی زبان کی سب سے پہلی اساطیری شاعری تلسی داس (1543ء–1623ء) کی رام چرت مانس ہے یہ راماین کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ یہ کلاسیکی ہندی ادب کا ایک نایاب نمونہ ہے اور اس کتاب کو پڑھنے نے تلسی داس کی شاعری، بیانیہ، اساطیر، نغمگی اور زبان کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس نے رام کو ایک مقدس ہستی بنایا اور ہندو مت کے سب سے بڑے بھگوان وشنو کا ایک اوتار بتایا۔ رام ایک مثالی بیٹا، شوہر، بھائی اور رحم دل بادشاہ ہے۔ جدید ہندی ادب میں جے شنکر پرساد کی کامیانی ہے۔ کامیانی کے علاوہ رامدھاری سنگھ دنکر کی کروکشیتر (1946ء)، رسمیراتھی (1952ء)، اروشی (1961ء) نے رزمیہ شاعری کو ہندی میں متعارف کرایا جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مدنلال ورما كرانت کی للتا کے آنسو [6] بھی ایک اساطیری کتاب کا درجہ رکھتی ہے جس میں لال بہادر شاستری کی اہلیہ للتا شاستری اپنے شوہر کی داستان موت بیان کرتی ہے۔[7]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Encyclopaedia of Indian Literature: devraj to jyoti – Amaresh Datta – Google Books۔ Books.google.ca۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2012
- ↑ Atharva Veda 11.7.24, 15.6.4
- ↑ Chāndogya Upaniṣad 7.1.2,4
- ↑ Kailash Chand Jain (1991)۔ Lord Mahāvīra and his times, Lala S. L. Jain Research Series۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 25۔ ISBN 81-208-0805-3
- ↑ Kailash Chand Jain (1991)۔ Lord Mahāvīra and his times, Lala S. L. Jain Research Series۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 59۔ ISBN 81-208-0805-3
- ↑ *Book:Lalita Ke Ansoo on worldcat
- ↑ Panchjanya (newspaper) A literary review 24 فروری 1980