مندرجات کا رخ کریں

لوئس ماؤنٹ بیٹن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
لوئس ماؤنٹ بیٹن
(انگریزی میں: Louis Francis Albert Victor Nicholas Mountbatten, 1st Earl Mountbatten of Burma ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 25 جون 1900ء [1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قلعہ ونڈسر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 اگست 1979ء (79 سال)[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دھماکا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت متحدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن رائل سوسائٹی   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
شہزادی ایلس آف بیٹنبرگ [8]  ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان ماؤنٹ بیٹن خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ممبر آف دی پرائیوی کونسل آف دی یونائٹڈ اسٹیٹس [9]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آغاز منصب
1947 
گورنر جنرل ہند   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
15 اگست 1947  – 21 جون 1948 
گورنر جنرل ہند  
چکرورتی راجگوپال آچاریہ  
عملی زندگی
مادر علمی کرسٹس   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان ،  فوجی افسر ،  سفارت کار ،  بحری افسر [10]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
شاخ شاہی بحریہ [10]  ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں دوسری جنگ عظیم ،  پہلی جنگ عظیم   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
رائل سوسائٹی فیلو   (1966)[9]
 آرڈر آف میرٹ (1965)[11]
 جی سی بی (1955)[12]
 سی بی (1943)[9]
 نائیٹ گرینڈ کراس آف دی رائل وکٹورین آرڈر (1937)[13]
 نائٹ کمانڈر آف دی رائل وکٹورین آرڈر (1922)[14]
 گرینڈ کراس آف دی آرڈر آف اسابیلا دی کیتھولک (1922)
 آرڈر آف سولومن
 آرڈر آف گارٹر
 ملکہ الزبیتھ دوم تاجپوشی تمغا
 آرڈر آف دی نیل
 گرینڈ کراس آف دی لیگون آف ہانر
 آرڈر آف اسٹار آف رومانیہ
 شاہ جارج ششم تاجپوشی تمغا   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

لوئس ماؤنٹ بیٹن المعروف لارڈ ماؤنٹ بیٹن برطانوی سیاست دان،برطانوی بحری فوج کا افسر اورمتحدہ ہندوستان کا آخری جبکہ آزاد بھارت کا پہلا گورنر جنرل

ہندوستان کا آخری وائسرائے بننے سے قبل موصوف کی وجہ شہرت یہ تھی کہ دوسری عالمگیر جنگ کے آخری لمحات میں انھیں برطانوی بحریہ کی جنوب مشرقی ایشیا کی کمان کا سپریم الائیڈ کمانڈر بنا دیا گیا۔

انھوں نے اس شان سے جنگ لڑی کہ ان کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ ڈکوٹا جہاز کے اندر نفیس سفید چمڑے کی پیڈنگ کروائی گئی اور اس کے اندر آرام دہ صوفے نصب کیے گئے جو کھل کر پلنگ بن جاتے تھے۔ جہاز کی الماریاں اعلیٰ کاک ٹیل کی بوتلوں سے رچی ہوئی تھیں اور ماؤنٹ بیٹن نے اپنے لیے حجام بھی لندن سے منگوا رکھا تھا۔

اگر یہ پڑھ کر آپ کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ یہ شخص دنیا بھر میں لڑی جانے والی ہولناک ترین جنگ کا سپہ سالار ہے یا کوئی عیاش شہزادہ، تو آپ کا خیال درست ہو گا۔ ماؤنٹ بیٹن سچی مچی والے شہزادے تھے اس وقت کے برطانوی شہنشاہ جارج ششم کے کزن تھے

ہم یہ الزام تو نہیں لگانا چاہتے کہ اس قدر اہم اور نازک عہدے پر ان کی تقرری شاہی خاندان سے تعلق کی بنا پر ہوئی، البتہ جب ہم ان کا جنگی ریکارڈ دیکھتے ہیں تو کچھ کچھ شبہ سا ضرور ہونے لگتا ہے۔

مثال کے طور پر ملاحظہ ہو کہ سپریم کمانڈر کے عہدے پر تعیناتی سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے اپنے جنگی جہاز ایچ ایم ایس کیلی خود برطانیہ کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں میں چلوا دیا تھا۔ ایک اور واقعے میں انھوں نے اتحادی فوج کے چھ ہزار سے زائد سپاہیوں کو فرانس میں آپریشن ڈیپ کے نام سے ایک ایسی ’کمانڈو ایکشن‘ مہم میں جھونک دیا جس میں آدھے سے زیادہ جرمنوں کا نشانہ بن گئے، بقیہ کو وہاں سے بدترین شکست کھا کر بھاگنا پڑا اور مہم کا ایک ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا۔

تو یہی وہ شہزادہ ماؤنٹ بیٹن تھے جن کی ’ولولہ انگیز قیادت‘ کی ’تاب نہ لاتے ہوئے‘ جاپانیوں نے 15 اگست 1945 کو گھٹنے ٹیک دیے۔ یہ الگ بات کہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جاپانیوں نے برطانوی بحریہ نہیں، بلکہ امریکا کے ایٹم بموں کے آگے سر جھکایا تھا۔

لیکن لارڈ صاحب نے یہ باریک نکتہ نظر انداز کرتے ہوئے نہ صرف اس فتح کا سہرا اٹھا کر اپنے ہاتھوں اپنے سر پر باندھا بلکہ اس دن کو بھی اپنے نام کر لیا اور جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے یہی تاریخ مقرر کی گئی


جب اعلان ہوا کہ ہندوستان 15 اگست کو آزاد ہو گا تو اس پر نہ صرف ملک بھر بلکہ برطانیہ تک میں کھلبلی مچ گئی کیوں کہ ماؤنٹ بیٹن نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے عملے، کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں، برطانوی وزیرِ اعظم ایٹلی تو کجا، اپنے کزن بادشاہ جارج سے بھی مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

ہندوستانی رہنما تو پھر بھی خاموش ہو گئے کہ چلو انگریز سے جس قدر جلد جان چھوٹے اتنا ہی بہتر ہے، لیکن ہندو پنڈتوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 15 اگست کا دن جوتش کی رو سے منحوس ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندووں کی بڑی تعداد شبھ گھڑی کا زائچہ نکالے بغیر نہیں کوئی کام نہیں کرتی تو ملک کا وجود میں آنا کیسے برداشت کر لیتی؟ لیکن اڑچن یہ تھی کہ دوسری طرف ماؤنٹ بیٹن بھی 15 اگست سے ایک انچ ادھر ادھر ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔

آخر فیصلہ یہ ہوا کہ نہ ہماری نہ تمھاری، تقسیم 15 اگست ہی کو ہو لیکن اس کا اعلان رات کے 12 بجے کیا جائے، کیوں کہ ہندو کیلنڈر کے مطابق دن کا آغاز رات 12 بجے نہیں بلکہ سورج چڑھنے سے ہوتا ہے اور رات بھر پچھلی تاریخ میں گنی جاتی ہے۔

سو 15 اگست کو رات 12 بجے دنیا کے نقشے پر دو نئے ملک ابھرے، پاکستان اور بھارت، مگر اس انتشار، جلدبازی اور افراتفری سے کیے گئے انتقالِ اقتدار سے وہ خون خرابا ہوا جو 20ویں صدی جیسی خونی صدی کے دامن پر بھی داغ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران پانچ ہیروشیم اور ناگاساکی پیش آئے اور دس لاکھ کے لگ بھگ لوگ مارے گئے۔

اسی دوران ایک کروڑ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے جو اب تک انسانی تاریخ کا بدنما ریکارڈ ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ماؤنٹ بیٹن کو 15 اگست کو ہندوستان تقسیم کرنے کا خبط نہ ہوتا اور وہ اصل منصوبے کے مطابق 1948 کے وسط میں جا کر تھوڑی زیادہ منصوبہ بندی اور ٹھنڈے دل و دماغ سے ہندوستان کو آزاد کرتے تو شاید اتنی تباہی نہ مچتی۔

لیکن بعض لوگ ایک اور نظریہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک تقسیم کرنے کی تاریخ دس ماہ آگے کرنے کے فیصلے کے پیچھے ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کا نہرو سے سکینڈل تھا اور وہ جلد از جلد یہ کام نمٹا کر واپس انگلستان لوٹنا چاہتے تھے۔

ہم نیچے چل کر اس سکینڈل کا تفصیل سے جائزہ لیں گے، اس سے پہلے اس بات کا جواب دینا ضروری ہے کہ اس قدر اتاولی، ہنگامہ خیز اور لاابالی شخصیت کے مالک ماؤنٹ بیٹن تھے کون؟


لوئس فرانسس ایلبرٹ وکٹر نکولس  25 جون 1900 کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ ملکہ وکٹوریہ کے نواسے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کا نک نیم ’ڈکی!‘ ان کی نانی ملکہ وکٹوریہ ہی نے رکھا تھا۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان کا خاندانی نام ماؤنٹ بیٹن کیسے پڑا کیوں کہ جب وہ پیدا ہوئے تو ان کی شاہی خاندانی شاخ کا نام بیٹن برگ تھا، لیکن جرمنی کے خلاف لڑتے لڑتے انگریز عوام کے اندر جرمن دشمنوں کی لہر اتنی اونچی ہوئی کہ شاہی خاندان نے ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ناموں کے جرمن حصے بدل دیے جائیں، چنانچہ بیٹن برگ بھی ماؤنٹ بیٹن ہو گئے۔ وجہ یہ کہ برگ جرمن میں ماؤنٹ یعنی پہاڑ ہی کو کہتے ہیں۔ گویا پہاڑ اپنی جگہ پر رہا، لفظ بدل گیا۔

نوجوان ماؤنٹ بیٹن نے رائل نیول کالج میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی پوسٹنگ 16 برس کی عمر میں ہوئی جب انھیں پہلی عالمگیر جنگ کے عین درمیان میں جنگی جہاز ایچ ایس لائن پر تعینات کیا گیا۔

جنگ تو جلد ہی ختم ہو گئی لیکن نوجوان شہزادے کو نت نئی ٹیکنالوجی کا شوق تھا اس لیے انھوں نے بحریہ میں رہتے ہوئے الیکٹرانکس کے نئے نئے متعارف ہونے والے شعبے کا علم حاصل کیا اور انسٹی ٹیوشن آف الیکٹریکل انجینیئرز کے رکن بن گئے۔

انھوں نے نیول انجینیئرنگ میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ جہاز رانی کی ایک ایجاد کے عوض انھیں ایک پیٹنٹ بھی مل گیا۔


اسی دوران یورپ دوسری عالمگیر جنگِ کے شعلوں میں گھر گیا اور ماؤنٹ بیٹن بحریہ کے افسر کی حیثیت سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے گئے، جن کا اختتام 15 اگست کو جاپان کے ہتھیار ڈالنے سے ہوا۔

ادھر تو یہ کچھ ہو رہا تھا، ادھر ہندوستان میں بھی شدید بے چینی چھائی تھی اور برطانوی راج کے ’تاج کا ہیرا‘ اس تاج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بے قرار تھا۔ اس وقت یہاں کے وائسرائے لارڈ ویول تھے، لیکن جب وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کے فارمولے پر رضامند کرنے میں ناکام رہے تو وزیرِ اعظم ایٹلی نے ماؤنٹ بیٹن کو یہ بھاری ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کر دیا۔

تقسیم کا کام جیسے تیسے نمٹانے کے بعد لارڈ صاحب کچھ عرصہ انڈیا کے گورنر جنرل رہے، پھر واپس انگلستان چلے گئے۔

وفات

[ترمیم]

ماؤنٹ بیٹن کو 27 اگست 1979ء میں آئرش علیحدگی پسندوں نے ایک حملے میں قتل کر دیا تھاجب وہ آئرلینڈ کے ساحلی علاقے میں اپنی کشتی پر مچھلی کے شکار کے لیے نکلے تھے۔اس وقت ان کی عمر 79 برس تھی۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی کشتی کو دھماکے سے اْڑایا گیا تھا، یہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کا نشانہ ماؤنٹ بیٹن ہی تھے۔دھماکے میں ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے کئی اور افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔برطانیہ کا شاہی خاندان آج بھی ماؤنٹ بیٹن اوران کی خدمات کو نہیں بھولا ،انھیں یاد رکھنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہزادہ ولیم کے ہاں پیدا ہونے والے تیسرے بچے کانام لوئس رکھا گیا ہے جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا اصل نام تھا۔ننھے شہزادے کا نام لوئس آرتھر چارلس ہے

حوالہ جات

[ترمیم]


  1. ^ ا ب پ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11917073z — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی: https://www.imdb.com/name/nm0609884/ — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015
  3. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/12673 — بنام: Louis Mountbatten — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ^ ا ب مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی — پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p10075.htm#i100750 — بنام: Louis Francis Albert Victor Nicholas Mountbatten, 1st Earl Mountbatten of Burma — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Louis-Mountbatten-1st-Earl-Mountbatten — بنام: Louis Mountbatten, 1st Earl Mountbatten — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/mountbatten-louis — بنام: Louis Mountbatten — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  7. ^ ا ب عنوان : Kindred Britain — Kindred Britain ID: http://kindred.stanford.edu/#/kin/full/none/none/I26761 — بنام: Adm. Louis Francis Albert Victor Nicholas George Mountbatten
  8. عنوان : Kindred Britain
  9. ^ ا ب عنوان : Mountbatten of Burma, 1st Earl, (Louis (Francis Albert Victor Nicholas) Mountbatten) (25 June 1900–27 Aug. 1979) — https://dx.doi.org/10.1093/WW/9780199540884.013.U157802
  10. ^ ا ب عنوان : Oxford Dictionary of National Biography — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس — اوکسفرڈ بائیوگرافی انڈیکس نمبر: https://www.oxforddnb.com/view/article/31480
  11. عنوان : The London Gazette — صفحہ: 6729 — شمارہ: 43713 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.thegazette.co.uk/London/issue/43713/data.pdf
  12. صفحہ: 3258 — شمارہ: 40497 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.thegazette.co.uk/London/issue/40497/data.pdf
  13. صفحہ: 693 — شمارہ: 34365 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.thegazette.co.uk/London/issue/34365/data.pdf
  14. عنوان : The London Gazette — صفحہ: 5353 — شمارہ: 32730 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.thegazette.co.uk/London/issue/32730/data.pdf