سورہ ص
یہ مضمون قرآن کی سورۃ ص کے بارے میں ہے۔ حرف ص کے لیے دیکھیں ص (حرف)۔
سورة ص Sūrat Ṣād سورت ص | |
---|---|
----
عربی متن · صوتی ·انگریزی ترجمہ | |
دور نزول | مکی |
عددِ پارہ | 23 واں پارہ |
اعداد و شمار | 5 رکوع, 88 آیات |
قرآن مقدس |
---|
متعلقہ مضامین |
قرآن مجید کی 38 ویں سورت، جس میں 5 رکوع اور 88 آیات ہیں۔
نام
آغاز ہی کے حرف ص کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے
زمانۂ نزول
بعض روایات کی رو سے یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکۂ معظمہ میں علانیہ دعوت کا آغاز کیا تھا اور قریش کے سرداروں میں اس پر کھلبلی مچ گئی تھی۔ اس لحاظ سے اس کا زمانۂ نزول تقریباً نبوت کا چوتھا سال قرار پاتا ہے۔ بعض دوسری روایات اسے حضرت عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ایمان لانے کے بعد کا واقعہ بتاتی ہے۔ اور معلوم ہے کہ وہ ہجرت حبشہ کے بعد ایمان لائے تھے۔ ایک اور سلسلۂ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کے آخری مرض کے زمانہ میں وہ معاملہ پیش آیا تھا جس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ اسے اگر صحیح مانا جائے تو اس کا زمانۂ نزول نبوت کا دسواں یا گیارھواں سال ہے۔
تاریخی پس منظر
امام احمد، نسائی، ترمذی، ابن جریر، ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے جو روایات نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے اور قریش کے سرداروں نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کا آخری وقت ہے تو انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چل کر شیخ سے بات کرنی چاہیے۔ وہ ہمارا اور اپنے بھتیجے کا جھگڑا چکا جائیں تو اچھا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا انتقال ہو جائے اور ان کے بعد ہم محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ کوئی سخت معاملہ کریں اور عرب کے لوگ ہمیں طعنہ دیں کہ جب تک شیخ زندہ تھا، یہ لوگ اس کا لحاظ کرتے رہے، اب اس کے مرنے کے بعد ان لوگوں نے اس کے بھتیجے پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس رائے پر سب کا اتفاق ہو گیا اور تقریباً 25 سردارانِ قریش جن میں ابو جہل، ابو سفیان، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، اسود بن المطلب، عقبہ بن ابی معیط، عتبہ اور شیبہ شامل تھے، ابو طالب کے پاس پہنچے۔ ان لوگوں نے پہلے تو حسب معمول نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف اپنی شکایات بیان کیں، پھر کہا ہم آپ کے سامنے ایک انصاف کی بات پیش کرنے آئے ہیں۔ آپ کا بھتیجا ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دین پر چھوڑے دیتے ہیں۔ وہ جس معبود کی عبادت کرنا چاہیے کرے، ہمیں اس سے کوئی تعرض نہیں مگر وہ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرے اور یہ کوشش نہ کرتا پھرے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ اس شرط پر آپ ہم سے اس کی صلح کرا دیں۔ ابو طالب نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بلایا اور آپ سے کہا کہ بھتیجے! یہ تمھاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں ان کی خواہش ہے کہ تم ایک منصفانہ بات پر ان سے اتفاق کر لو تاکہ تمھارا اور ان کا جھگڑا ختم ہو جائے۔ پھر انھوں نے وہ بات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتائی جو سردارانِ قریش نے ان سے کہی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں فرمایا، چچا جان! میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کا تابعِ فرمان اور عجم ان کا باج گزار ہو جائے۔ یہ سن کر وہ لوگ سٹپٹا گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر کیا کہہ کر ایسے ایک مفید کلمے کو رد کر دیں۔ پھر کچھ سنبھل کر بولے، تم ایک کلمہ کہتے ہو، ہم ایسے دس کلمے کہنے کو تیار ہیں، مگر یہ تو بتاؤ کہ وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ۔ اس پر وہ سب یکبارگی اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ باتیں کہتے ہوئے نکل گئے جو اس سورت کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالٰیٰ نے نقل کی ہیں۔
ابن سعد نے طبقات میں یہ سارا قصہ اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح اوپر مذکور ہوا، مگر ان کی روایت کے مطابق یہ ابو طالب کے مرض وفات کا نہیں بلکہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ عام کی ابتدا کی تھی اور مکہ میں پے در پے یہ خبریں پھیلنی شروع ہو گئی تھیں کہ آج فلاں آدمی مسلمان ہوا اور کل فلاں۔ اس وقت سردارانِ قریش یکے بعد دیگرے کئی وفد ابو طالب کے پاس لے کر پہنچے تھے تاکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس تبلیغ سے روک دیں اور انہی وفود میں سے ایک کے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی۔
زمخشری، رازی، نیسا بوری اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ وفد ابو طالب کے پاس اس وقت گیا تھا جب حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ایمان لانے پر سردارانِ قریش بوکھلا گئے تھے لیکن کتبِ روایت میں سے کسی میں اس کا حوالہ نہیں مل سکا اور نہ ان مفسرین نے اپنے ماخذ کا حوالہ دیا ہے تاہم اگر یہ صحیح ہو تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اس لیے کہ کفار قریش پہلے ہی یہ دیکھ کر گھبرائے ہوئے تھے کہ اسلام کی دعوت لے کر ان کے درمیان ایک ایسا شخص اٹھا ہے جو اپنی شرافت، بے داغ سیرت اور دانائی و سنجیدگی کے اعتبار سے ساری قوم میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اور پھر اس کا دست راست ابو بکر (رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ) جیسا آدمی ہے جسے مکے اور اس کے اطراف کا بچہ بچہ ایک نہایت شریف، راست باز اور ذکی انسان کی حیثیت سے جانتا ہے۔ اب جو انھوں نے دیکھا ہوگا کہ عمر بن خطاب جیسا جری اور صاحبِ عزم آدمی بھی ان دونوں سے جا ملا ہے تو یقیناً انھیں محسوس ہوا ہوگا کہ خطرہ حدِ برداشت سے گذرتا جا رہا ہے۔
موضوع و مباحث
اوپر جس مچلس کا ذکر کیا گیا ہے اسی پر تبصرے سے اس سورت کا آغاز ہوا ہے۔ کفار اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گفتگو کو بنیاد بنا کر اللہ تعالٰیٰ نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کے انکار کی اصل وجہ دعوتِ اسلامی کا کوئی نقص نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا تکبر اور حسد اور تقلیدِ اعمیٰ پر اصرار ہے۔ یہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اپنی ہی برادری کے ایک آدمی کو خدا کا نبی مان کر اس کی پیروی کر لیں۔ یہ انہی جاہلانہ تخیلات پر جمے رہنا چاہتے ہیں جن پر انھوں نے اپنے قریب کے زمانے کے لوگوں کو پایا ہے اور جب اس جہالت کے پردے چاک کرکے ایک شخص ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کرنا چاہتا ہے تو یہ اس پر کان کھڑے کرتے ہیں اور اسے عجیب بات بلکہ نرالی اور انہونی بات قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک توحید اور آخرت کا تخیل محض ناقابل قبول ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا بس مذاق ہی اڑایا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالٰیٰ نے سورت کے ابتدائی حصے میں بھی اور آخری فقروں میں بھی کفار کو صاف صاف متنبہ کیا ہے جس شخص کا تم آج مذاق اڑا رہے ہو اور جس کی رہنمائی قبول کرنے سے تم کو آج سخت انکار ہے، عنقریب وہی غالب آ کر رہے گا اور وہ وقت دور نہیں جب اسی شہر مکہ میں، جہاں تم اس کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو، اس کے آگے تم سب سرنگوں نظر آؤ گے۔
پھر پے در پے 9 پیغمبروں کا ذکر کرکے، جن میں حضرت داؤد و سليمان علیہ السلام علیہما السلام کا قصہ زیادہ مفصل ہے، اللہ تعالٰیٰ نے یہ بات سامعین کے ذہن نشین کرائی ہے کہ اس کا قانونِ عدل بالکل بے لاگ ہے، اس کے ہاں انسان کا صحیح رویہ ہی مقبول ہے، بے جا بات خواہ کوئی بھی کرے وہ اس پر گرفت کرتا ہے اور اس کے ہاں وہی لوگ پسند کیے جاتے ہیں جو لغزش پر اصرار نہ کریں بلکہ اس پر متنبہ ہوتے ہی تائب ہو جائیں اور دنیا اور آخرت کی جواب دہی کو یاد رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔
اس کے بعد فرماں بردار بندوں اور سرکش بندوں کے اس انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو وہ عالمِ آخرت میں دیکھنے والے ہیں اور اس سلسلے میں کفار کو دو باتیں خاص طور پر بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آج جن سرداروں اور پیشواؤں کے پیچھے جاہل لوگ اندھے بن کر ضلالت کی راہ پر چلے جا رہے ہیں، کل وہی جہنم میں اپنے پیروؤں سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور دونوں ایک دوسرے کو کوس رہے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ آج جن اہل ایمان کو یہ لوگ ذلیل و خوار سمجھ رہے ہیں، کل یہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیرت کے ساتھ دیکھیں گے اُن کا جہنم میں کہیں نام و نشان تک نہیں ہے اور یہ خود اس کے عذاب میں گرفتار ہیں۔
آخر میں قصۂ آدم و ابلیس کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس سے مقصود کفار قریش کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آگے جھکنے سے جو تکبر تمھیں مانع ہو رہا ہے وہی تکبر آدم کے آگے جھکنے سے ابلیس کو بھی مانع ہوا تھا۔ خدا نے جو مرتبہ آدم کو دیا تھا اس پر ابلیس سے حسد کیا اور حکمِ خدا کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرکے لعنت کا مستحق ہوا۔ اسی طرح جو مرتبہ خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا ہے اس پر تم حسد کر رہے ہو اور اس بات کے لیے تیار نہیں ہو کہ جسے خدا نے رسول مقرر کیا ہے اس کی اطاعت کرو، اس لیے جو انجام ابلیس کا ہونا ہے وہی آخر کار تمھارا بھی ہونا ہے۔