دہلی
دہلی | |
---|---|
(ہندی: दिल्ली - دِلّی) | |
(گرمکھی: ਦਿੱਲੀ - دِلّی) | |
تاریخ تاسیس | 500ء کی دہائی ق م |
نقشہ |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | بھارت (15 اگست 1947–)[1] برطانوی ہند (28 جون 1858–14 اگست 1947) مغلیہ سلطنت (5 نومبر 1556–20 ستمبر 1857) سلطنت سور (17 مئی 1540–1556) مغلیہ سلطنت (21 اپریل 1526–17 مئی 1540) سلطنت دہلی (12 جون 1206–21 اپریل 1526) سلطنت غوریہ (1192–12 جون 1206) چوہان خاندان (شکامبھری) (1180–1192) تومر خاندان (9ویں صدی–1180) [2][3] |
دار الحکومت برائے | |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 28°40′00″N 77°13′00″E / 28.666666666667°N 77.216666666667°E [4] |
رقبہ | 1397.3 مربع کلومیٹر [5] |
بلندی | 221 میٹر [6][7] |
آبادی | |
کل آبادی | 26495000 (2016)[8] |
• مرد | 8987326 (2011)[9] |
• عورتیں | 7800615 (2011)[9] |
مزید معلومات | |
جڑواں شہر | |
اوقات | متناسق عالمی وقت+05:30 [11] |
گاڑی نمبر پلیٹ | DL-xx |
رمزِ ڈاک | 110000–110999 |
قابل ذکر | |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
جیو رمز | 1273294 |
درستی - ترمیم |
دہلی (جسے مقامی سطح پر دِلّی اور سرکاری سطح پر دہلی قومی دار الحکومتی علاقہ کہتے ہیں) بھارت کی دار الحکومتی عملداری ہے۔[12] یہ تین اطراف سے ہریانہ سے گھرا ہوا ہے، جبکہ اس کے مشرق میں اتر پردیش واقع ہے۔ یہ بھارت کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1،484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہے۔ 2.5 کروڑ آبادی پر مشتمل یہ شہر ممبئی کے بعد بھارت کا دوسرا، اور دنیا کا تیسرا [13] سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔[14][15] دہلی ممبئی کے بعد، بھارت میں دوسرا امیر ترین شہر ہے، جس کے کل املاک 450 بلین امریکی ڈالر ہے اور یہ 18 ارب پتی اور 23000 کروڑ پتیوں کا مسکن بھی ہے۔[16]
دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔[17] تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔ سلطنت دہلی کے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایک ثقافتی، تمدنی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب مینار اور مسجد قوت اسلام ہندوستان میں اسلامی طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر نے دار الحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا، بعد ازاں 1639ء میں شاہجہاں نے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو 1649ء سے 1857ء تک مغلیہ سلطنت کا دار الحکومت رہا۔ یہ شہر شاہجہاں آباد کہلاتا تھا جسے اب پرانی دلی کہا جاتا ہے۔ غدر (جنگ آزادی 1857ء) سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اور برطانوی راج کے دوران میں کلکتہ کو دار الحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجم نے 1911ء میں دار الحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا۔
1947ء میں آزادئ ہند کے بعد نئی دہلی کو بھارت کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ شہر میں بھارتی پارلیمان سمیت وفاقی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں۔ 1991ء میں بھارت کے آئین کی 69 ویں ترمیم کے مطابق دہلی کو خصوصی درجہ قومی دارالحکومت علاقہ عطا کیا گیا ہے۔ قومی دار الحکومتی علاقہ میں قریبی شہر فریدآباد، گرگاؤں، نوئیڈا، غازی آباد، فرید آباد عظمی، گریٹر نوئیڈا، بہادرگڑھ، سونی پت، پانی پت، کرنال، روہتک، بھیوانی، ریواڑی، باغپت، میرٹھ، مظفر نگر، الوار، بھرت پور بھی شامل ہیں۔ موجودہ دور میں دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔
دہلی نام کی اشتقاقیات کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک قدیم بادشاہ "ڈھللو" سے موسوم ہے، جس نے 50 ق م میں شہر کو اپنا نام دیا۔[18][19][20] ایک اور روایت کے مطابق شہر کا نام ہندی / پراکرت لفظ ڈھیلی سے ماخوذ ہے، کیونکہ تومر خاندان دہلی کے لوہے کے ستون کی بنیاد کو کمزور کہتے تھے جسے منتقل کیا جانا ضروری تھا۔[20] اور اسی سے اس کا نام ڈھیلیوال پڑا۔[21] بھویشیے پران کے مطابق اندر پرستھ کے بادشاہ پرتھوی راج چوہان نے اپنی بادشاہت کی چار ذاتوں کی سہولت کے لیے ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا جو موجودہ دور میں پرانا قلعہ علاقہ میں تھا۔ اس قلعہ لیے ایک دروازے کی تعمیر کا حکم دیا اور بعد میں قلعے کا نام دہالی رکھا۔[22] بعض مورخین اس نام ہندوستانی زبان کے لفظ دلی سے ماخوذ سمجھتے ہیں جو دہلیز کہ بگڑی ہوَئی شکل ہے، کیونکہ یہ شہر سندھ و گنگ کا میدان کا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔[23][24] ایک اور مفروضے کے مطابق اس شہر کا ابتدائی نام ڈھلكا تھا۔[25]
تاریخ
[ترمیم]قدیم تاریخ
[ترمیم]دہلی کا قدیم ذکر مہا بھارت نامت مہا پران میں ملتا ہے جہاں اس کا ذکر قدیم اندر پرستھ کے طور پر کیا گیا ہے۔ اندرپرستھ مہا بھارت کے دور میں پانڈو کا دار الحکومت تھا۔[26] آثار قدیمہ کے جو پہلے ثبوت ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دو ہزار قبل مسیح سے پہلے بھی دہلی اور اس کے آس پاس انسانی رہائش گاہیں تھیں۔ موریہ کال (300 ق م) سے یہاں ایک شہر نے ترقی پانا شروع کی۔ پرتھوی راج چوہان کے درباری شاعر چند بردائی کی ہندی تحریر پرتھوی راسو میں تومر بادشاہ انگپال کو دہلی کا بانی بتایا گیا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس نے ہی 'لال کوٹ' تعمیر کروایا تھا اور مہرولی کے لوہے کے ستون کو دہلی لایا۔ دہلی میں تومر کا دور حکومت سال 900-1200سال تک سمجھا جاتا ہے۔ پرتھوی راج چوہان کو دہلی کا آخری ہندو شہنشاہ سمجھا جاتا ہے۔
جدید تاریخ
[ترمیم]1206ء سے دہلی سلطنت دہلی کا دار الحکومت بنا۔ ترک اور پشتون نسل کی ان حکومتوں میں خاندان غلاماں (1206ء تا 1290ء)، خلجی خاندان (1290ء تا 1320ء)، تغلق خاندان (1320ء تا 1413ء)، سید خاندان (1414ء تا 1451ء) اور لودھی خاندان (1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526ء میں دہلی کی آخری سلطنت مغلیہ سلطنت میں ضم ہو گئی۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ آج کی جدید دہلی بننے سے پہلے، دہلی سات بار اجڑی اور مختلف مقامات پر بسی، جن کی کچھ باقیات جدید دہلی میں اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
دہلی کے اس وقت کے حکمرانوں نے اس شکل میں کئی بار تبدیلی کی۔ مغل شہنشاہ ہمایوں نے سرہند کے قریب جنگ میں افغانوں کو شکست دی اور بغیر کسی مزاہمت کے دہلی پر قبضہ کر لیا۔ ہمایوں کی وفات کے بعد ہے مو وكرمادتیا کی قیادت میں افغانوں نے مغل فوج کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ مغل شہنشاہ اکبر نے دار الحکومت کو دہلی سے آگرہ منقل کر دیا۔ اکبر کے پوتے شاہ جہاں نے سترہویں صدی کے وسط میں اسے ساتویں بار بسایا جسے شاہجہان آباد کے نام سے پکارا گیا۔ شاہجہان آباد کو عام بول چال کی زبان میں پرانا شہر یا پرانی دلی کہا جاتا ہئے۔ زمانہ قدیم سے پرانی دہلی پر کئی بادشاہوں اور شہنشاہوں نے حکومت کی اور اس کے نام میں بھی تبدیلی کیے جاتے رہے۔ پرانی دہلی 1638ء کے بعد سے مغل شہنشاہوں کا دار الحکومت رہا۔ دہلی کا آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھا جس کی وفات جلا وطنی میں رنگون میں ہوئی۔
جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد دہلی پر برطانوی راج قائم ہو گیا۔ 1947ء میں انگریزوں سے آزادی کے بعد دہلی بھارت کا دار الحکومت بنا۔ دہلی میں کئی بادشاہوں کی سلطنت کے عروج اور زوال کے ثبوت آج بھی موجود ہیں۔
جغرافیہ
[ترمیم]دلی بھارت کے شمال میں واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال،مغرب اور جنوب میں ہندوستان کی ریاست ہریانہ سے ملتی ہے، جبکہ مشرق میں یہ اتر پردیش سے منسلک ہے۔ برطانوی دور اقتدار میں دلی صوبہ پنجاب کا حصہ تھا اور اب بھی تاریخی اور ثقافتی طور پر دلی خطۂ پنجاب سے جڑا ہوا ہے۔ جمنا کے سیلابی میدان اوردلی کی نا ہموار چوٹیاں یہ دلی کے دو نمایاں جغرافیائی پہلو یہں۔ دریائے جمنا پنجاب اور اتر پردیش کے درمیان میں تاریخی سرحد ہیں اور اس کے سیلا بی میدان زراعت کے لیے زرخیز مٹی فراہم کراتے ہیں لیکن ڈھلان سطح سیلاب کی باز گشتی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔دریائے جمنا ہندوں کا مقدس دریا ہے جو دلی سے گذرنے والا واحد بڑا دریا بھی ہے۔ ہندن ندی غازی آباد کو دلی کے مشرقی حصے سے الگ کرتی ہے۔ دلی کا پہاڑی سلسلہ جنوب میں اراولی پہاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے مغربی،شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے کا محاصرہ کرتا ہے۔ اس کی بلندی 318 فٹ ہے یہ اس کی سب سے اہم خوبی ہے۔
شہری انتظامیہ
[ترمیم]ستمبر 2012ء کے مطابق قومی دار الحکومت علاقہ دہلی گیارہ اضلاع، 27 تحصیلوں، 59 مردم شماری ٹاؤن، 300 دیہاتوں [27] اور تین قانونی ٹاؤنز پر مشتمل ہے۔
اضلاع
[ترمیم]حکومت اور سیاست
[ترمیم]دہلی قومی دار الحکومت علاقہ کا اپنا قانون ساز اسمبلی، لیفٹیننٹ گورنر، وزراء کی کونسل اور وزیر اعلیٰ ہے۔ قانون ساز اسمبلی 2023ء میں ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد براہ راست وفاقی انتظام لاگو کر دیا گیا تھا، تاہم اسے 2021 ء میں بحال کر دیا گیا۔ لوک سبھا (بھارتی پارلیمانی ایوان زیریں) میں دہلی سے 70 اسمبلی حلقوں ہیں۔[28][29]
1990ء کی دہائی تک انڈین نیشنل کانگریس دہلی میں تمام حکومتیں بناتی تھی حتیٰ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی طاقت میں آئی۔[30] 1998ء میں کانگریس ایک بار پھر کامیاب ہوئی۔ 2013ء میں اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کانگریس کی حمایت کے ساتھ حکومت کی تشکیل دی۔[31] تاہم یہ حکومت قلییل مدتی ثابت ہوئی اور صرف 49 کے بعد ہی ٹوٹ گئی۔[32] دہلی فروری 2015ء تک براہ راست صدر کے زیرِ اقتدار رہا۔[33] 10 فروری، 2015ء کو عام آدمی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی،اور دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے 67 جیتیں اور دوبارہ برسراقدارآئی۔[34]
معیشت
[ترمیم]تاریخی طور پر دہلی شمالی ہند کا ایک اہم کاروباری مرکز بھی رہا ہے۔ پرانی دہلی نے اب بھی اپنی گلیوں میں پھیلے بازاروں میں ان تجارتی صلاحیتوں کی تاریخ کو چھپا کر رکھا ہے۔[35] پرانے شہر کے بازاروں میں ہر ایک قسم کا سامان دستیاب ہے۔ تیل میں ڈوبے چٹپٹے آم، نیبو، وغیرہ کے اچارو سے لے کر مہنگے ہیرے جواہرات، زیور سے دلہن کے لباس، تیار کپڑے، مصالحے، مٹھائیاں اور ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے۔ چاندنی چوک یہاں کا تین صدیوں سے بھی قدیم بازار ہے۔ یہ دہلی کے زیور، زری ساڑیوں اور مصالحے کے لیے مشہور ہے۔[36] دہلی کی مشہور دستکاریوں میں زرودزی (سونے کی تار کام، جسے زری بھی کہا جاتا ہے) اور میناکاری (جس پیتل کے برتنوں وغیرہ پر نقش کے درمیان میں روغن بھرا جاتا ہے) ہیں۔
دہلی شمالی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ 2008ء کے مطابق دہلی کی خام ملکی پیداوار 167 بلین امریکی ڈالر تھی۔[37] دہلی کی افرادی قوت کی آبادی کا 32،82 فیصد ہے۔ جس میں 1991ء اور 2001ء کے درمیان میں 52،52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔[38] دہلی میں بے روزگاری کی شرح 1999ء-2000ء میں 12.57 فی صد سے کم ہو کر 4.63 فیصد ہو گئی ہے۔[38] کلیدی خدماتی صنعتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، ہوٹل، بینکاری، ذرائع ابلاغ اور سیاحت شامل ہیں۔[39] تعمیرات، بجلی، صحت، کمیونٹی کی خدمات اور جائداد کی خرید و فروخت بھی شہر کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ دہلی بھارت کی سب سے بڑی اور سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی خوردہ صنعتوں میں سے ایک ہے۔[40]
دہلی اسٹاک ایکسچینج
[ترمیم]دہلی اسٹاک ایکسچینج نئی دہلی، بھارت میں واقع ہے۔ یہ ایکسچینج دہلی اسٹاک اور شیئر بروکرز ایسوسی ایشن لمیٹڈ اور دہلی اسٹاک اور شیئر ایکسچینج لمیٹڈ کا اخلاط ہے۔[41] یہ بھارت کی پانچویں اکسچینج ہے۔ ایکسچینج بھارت کی اہم سٹاک ایکسچینجز میں سے ایک ہے۔ دہلی اسٹاک ایکسچینج شمالی بھارت میں ٹرمینلز کے ساتھ 50 شہروں سے منسلک ہے۔
نقل و حمل
[ترمیم]دہلی کی عوامی ٹریفک کے لیے بنیادی طور بس، آٹوركشا اور میٹرو ریل سروس زیر استعمال ہیں۔ دہلی کی اہم ٹریفک کی ضرورت کا 60 فیصد حصہ بسیں مکمل کرتی ہیں۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی طرف سے سرکاری بس سروس دہلی میں موجود ہے۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن دنیا کی سب سے بڑی ماحول دوست بس سروس ہے۔[42] آٹو رکشہ دہلی میں ٹریفک کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ ایندھن کے طور پر سی این جی کا استعمال کرتے ہیں۔ دہلی میں ٹیکسی سروس بھی دستیاب ہے جس کا کرایہ 7.50 سے 15 روپے فی کلومیٹر تک ہے۔ دہلی کی کل گاڑیوں کی تعداد کا 30٪ ذاتی گاڑیاں ہیں۔[43] دہلی بھارت کے پانچ اہم شہروں سے قومی شاہراہوں سے منسلک ہے۔ یہ شاہراہیں : قومی شاہراہ نمبر: 1، 2، 8، 10 اور 24 ہیں۔ 2008ء کے مطابق دہلی میں 55 لاکھ گاڑیاں میونسپل کارپوریشن کی حدود کے اندر ہیں۔ اس وجہ دہلی دنیا کا سب سے زیادہ گاڑیوں والا شہر ہے۔ 1998ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے دہلی کے تمام عوامی گاڑیوں کو ڈیزل کی جگہ پر سی این جی کا استعمال لازمی طور سے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہاں تمام عوامی گاڑیاں سی این جی پر ہی چلنے والی ہیں۔
فضائی
[ترمیم]اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ دہلی کے جنوب مغربی کنارے پر واقع ہے اور یہاں سے بین ریاستی اور بین الاقوامی سفر کی سہولیات موجود ہیں۔ سال 2012–13 میں ہوائی اڈے پر 35 ملین مسافر درج کیے گئے تھے، جو اسے جنوبی ایشیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک بناتے ہیں۔[44][45] ٹرمینل 3 96.8 ارب بھارتی روپوں (امریکی ڈالر 1.4 ارب) سے 2007 اور 2010 کے درمیان میں تعمیر کیا گیا جہاں اضافی سالانہ 37 ملین مسافروں کے لیے گنجائش موجود ہے۔[46] صفدر جنگ ہوائی اڈا دہلی کا ایک اور ہوائی اڈا ہے، جو عام ہوا بازی مشقوں اور کچھ وی آئی پی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
شاہراہیں
[ترمیم]دہلی دیگر تمام اہم شہروں اور بڑے شہروں سے کئی ہائی ویز اور ایکسپریس ویز سے منسلک ہے۔ دہلی سے گزرنے والی قومی شاہراہیں مندرجہ ذیل ہیں:
ریلوے
[ترمیم]دہلی بھارتی ریلوے کے نیٹ ورک میں ایک اہم جنکشن ہے اور شمالی ریلوے کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ دہلی کے پانچ اہم ریلوے اسٹیشن مندرجہ ذیل ہیں:
- نئی دہلی ریلوے اسٹیشن
- قدیم دہلی ریلوے اسٹیشن
- حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن
- آنند وہار ٹرمنل ریلوے اسٹیشن
- دہلی سرائے روہیلا ریلوے اسٹیشن
میٹرو
[ترمیم]دہلی میٹرو ریل کارپوریشن کی طرف سے دہلی میٹرو ریل ایک بڑے پیمانے پر ریپڈ ٹرانزٹ (فوری ٹرانزٹ) نظام ہے جو دہلی کے کئی علاقوں میں سروس فراہم کرتی ہے۔ اس کا آغاز 24 دسمبر 2002ء کو ہوا۔ اس ٹرانسپورٹ نظام کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ (50 میل فی گھنٹے) رکھی گئی ہے اور یہ ہر اسٹیشن پر تقریباً 20 سیکنڈ رکتی ہے۔ تمام ٹرینوں کی تعمیر جنوبی کوریا کی کمپنی روٹیم (ROTEM) نے کی ہے۔ دہلی کی نقل و حمل سہولیات میں میٹرو ریل ایک اہم جزو ہے۔ ابتدائی مرحلے کی منصوبہ بندی چھ لائنوں پر چلنے کی ہے جو دہلی کے زیادہ تر حصوں کو آپس میں جوڑے گی۔ اس کا پہلا مرحلہ 2006ء میں مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے راستے کی کل لمبائی تقریباً 65.11 کلومیٹر ہے جس میں 13 کلومیٹر زیر زمین اور 52 کلومیٹر مرتفع ہے۔
آبادیات
[ترمیم]دہلی کی آبادی میں اضافہ | |||
---|---|---|---|
مردم شماری | آبادی | %± | |
1901 | 405,819 | ||
1911 | 413,851 | 2.0% | |
1921 | 488,452 | 18.0% | |
1931 | 636,246 | 30.3% | |
1941 | 917,939 | 44.3% | |
1951 | 1,744,072 | 90.0% | |
1961 | 2,658,612 | 52.4% | |
1971 | 4,065,698 | 52.9% | |
1981 | 6,220,406 | 53.0% | |
1991 | 9,420,644 | 51.4% | |
2001 | 13,782,976 | 46.3% | |
2011 | 16,753,235 | 21.6% | |
source:[47] † Huge population rise in 1951 due to large scale migration after تقسیم ہند in 1947. |
بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق دہلی کی آبادی 16،753،235 تھی۔[47] اس کی کثافت آبادی 11،297فی مربع کلومیٹر، جنسی تناسب 866 خواتین فی 1000 مرد اور شرح خواندگی 86،34 فیصد تھی۔
مذہب
[ترمیم]ہندو مت دہلی کی آبادی کا 81،68 فیصد، اسلام (12.86٪)، سکھ مت (3.4٪)، جین مت (0.99٪)، مسیحیت (0.87٪) اور دیگر (0.12٪) ہے۔ دیگر اقلیتی مذاہب میں بدھ مت، زرتشتیت، بہائی اور یہودیت شامل ہیں۔[48]
اہم عبادت گاہیں
[ترمیم]مساجد
[ترمیم]ہندو مندر
[ترمیم]بہائی معبد
[ترمیم]گرجا گھر
[ترمیم]کچی آبادی
[ترمیم]دہلی کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد [49] بنیادی سہولتوں کی ناکافی فراہمی کے ساتھ کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔[50] ان کچی آبادیوں کی اکثریت کو ناکافی بنیادی سہولیات مہیا ہیں۔ ڈی یو ایس آئی بی کی رپورٹ کے مطابق صرف 16 فیصدلوگ بیت الخلاؤں کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ تقریباً 22 فیصد افراد قضائے حاجت کے لیے کھلی جگہوں کا استعمال کرتے ہیں۔[51]
ثقافت
[ترمیم]دہلی شہر میں بنی یادگاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی ثقافت مشرقی تاریخی زمین سے متاثر ہے۔ بھارتی آثار قدیمہ سروے محکمہ نے دہلی شہر میں تقریباً 1200 ثقافتی ورثہ مقامات کی نشان دہی کی ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر سے کہیں زیادہ ہے۔[52] ان میں سے 175 مقامات کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔[53] پرانا شہر وہ مقام ہے جہاں مغلوں اور ترکوں حکمرانوں نے کئی تعمیرات کیں٫ مثلاً جامع مسجد (بھارت کی سب سے بڑی مسجد)، لال قلعہ، قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ دہلی کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ہیں۔[54] دیگر یادگاروں میں انڈیا گیٹ، جنتر منتر (اٹھارویں صدی کی رصدگاہ)، پرانا قلعہ (سولہویں صدی کا قلعہ)۔ برلا مندر، اکشر دھام مندر اور کمل مندر تعمیرات کی شاندار مثالیں ہیں۔ راج گھاٹ میں قومی رہنما مہاتما گاندھی اور قریب ہی دوسرے بڑے افراد کی سمادھياں ہیں۔ نئی دہلی میں بہت سے سرکاری دفتر، سرکاری رہائش گاہیں اور برطانوی دور کی باقیات اور عمارتیں ہیں۔ کچھ انتہائی اہم عمارتوں میں صدارتی محل، مرکزی سیکرٹریٹ، راج پتھ، پارلیمنٹ کی عمارت شامل ہیں۔
یہاں بہت سے قومی تہوار جیسے یوم جمہوریہ، یوم آزادی اور گاندھی یوم پیدائش رسمی طور پر جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر وزیر اعظم لال قلعہ سے یہاں کے عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ بہت سے دلی والے اس دن کو پتنگیں اڑا کر مناتے ہیں۔ اس دن پتنگوں کو آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[55] یوم جمہوریہ کی پریڈ ایک بڑا جلوس ہوتی ہے، جس میں بھارت کی فوجی طاقت اور ثقافتی جھلک کا مظاہرہ ہوتا ہے۔[56]
تہوار
[ترمیم]یہاں کے مذہبی تہواروں میں دیوالی، ہولی، دسہرا، درگا پوجا، مہاویر جینتی، کرسمس، مہا شواراتری، عید الفطر، بدھ جینتی لوهڑی پونگل اور اوڑم جیسے تہوار شامل ہیں۔ قطب فیسٹیول میں موسیقاروں اور رقاصوں کا کل ہند سنگم ہوتا ہے، جو کچھ راتوں کو جگمگا دیتا ہے۔ دیگر کئی تہوار بھی یہاں سالانہ منائے جاتے ہیں جیسے آم فیسٹیول، پتنگ بازی فیسٹیول، موسم بہار پنچمی۔ ایشیا کی سب سے بڑی آٹو نمائش، آٹو ایکسپو دہلی میں منعقد ہوتی ہے۔ پرگتی میدان میں سالانہ کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے جس میں دنیا کے 23 ممالک حصہ لیتے ہیں۔ دہلی کو اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ صلاحیت کی وجہ سے کبھی کبھی دنیا کا کتاب دار الحکومت بھی کہا جاتا ہے۔[57]
پکوان
[ترمیم]پنجابی اور مغلائی خان جیسے کباب اور بریانی دہلی کے کئی حصوں میں مشہور ہیں۔[58][59] دہلی کی انتہائی مخلوط آبادی کی وجہ سے بھارت کے مختلف حصوں کے پکوانوں کی جھلک دہلی میں ملتی ہے، جیسے راجستھانی، مہاراشٹرین، بنگالی، حیدرآبادی اور جنوبی بھارتی کھانے کی اشیاء جیسے اڈلی، سانبھر، دوسا وغیرہ کثرت میں مل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مقامی خاصیت والی چیزیں جیسے چاٹ وغیرہ بھی خوب ملتی ہے، جسے لوگ چٹخارے لگا لگا کر کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں براعظم کھانا جیسے اطالوی اور چینی کھانا بھی عام دستیاب ہے۔ مغلیہ سلطنت کے دار الحکومت رہنے کی وجہ سے دلی کے لوگوں کو مغلائی پکوانوں نے بہت متاثر کیا ہے۔[60] شہر کے خصوصی پکوانوں میں بٹر چکن، آلو چاٹ، چاٹ، دہی بڑے، کچوری، گول گپے، سموسہ، چھولے بھٹورے، چھولے کلچہ، جلیبی اور لسی شامل ہیں۔[60][61]:40–50, 189–196
دہلی کی تیز زندگی کی وجہ سے فاسٹ فوڈ نے شہر میں کافی ترقی کی ہے۔[61]:41 مقامی باشندوں میں ڈھابے پر کھانے کا رجحان بہت مقبول ہے۔ ہائی پروفائل ریستورانوں نے حالیہ برسوں میں کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔[62] گلی پراٹھے والی چاندنی چوک میں ایک سڑک ہے جو خاص طور 1870ء کی دہائی سے کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ تقریباً ایک روایت بن گئی ہے کہ ہر وزیر اعظم ایک بار گلی پراٹھے والی کا دورہ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ سڑک شمال بھارتی پکوانوں کے لیے مشہور ہے تاہم یہاں بھات کے دیگر علاقوں کے پکوان بھی دستیاب ہیں۔[61]:40–50[63]
نام آبادی
[ترمیم]دہلی کے رہائشیوں کو دلی والے یا واحد دلی والا / دلی والی کہا جاتا ہے۔[64]
دہلی / دلی کے بارے میں کہاوتیں
[ترمیم]ابھی دلی دور ہے یا فارسی میں ہنوز دہلی دور است [65][66]
دلی دل والوں کا شہر یا دلی دل والوں کی [67]
آس پاس برسے، دلی پانی ترسے [66]
سیاحت
[ترمیم]دہلی صرف بھارت کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ یہ سیاحت کا اہم مرکز بھی ہے۔ دار الحکومت ہونے کی وجہ سے حکومت ہند کے کئی دفاتر، ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس، مرکزی سیکرٹریٹ وغیرہ ا جدید معماری کے نمونے ہیں۔ قدیم شہر ہونے کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ سیاحتی مقامات میں مقبرہ ہمایوں، لال قلعہ، لودھی باغ، پرانا قلعہ، مزار صفدر جنگ، جنتر منتر، قطب مینار، باب ہند اور دہلی کا آہنی ستوں کی دنیا بھر میں خاص اہمیت ہے۔ تقریباً تمام مذاہب کے مشہور مذہبی مقامات یہاں موجود ہیں مثلا لکشمی نارائن مندر، چھترپور مندر، گردوارہ بنگلہ صاحب، معبد کنول اور جامع مسجد دہلی۔ بھارت کے وزرائے اعظم کی سمادھياں یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئی عجائب گھر اور کئی مشہور بازار بھی ہیں۔ تفریحی مقامات میں مغل باغات، گارڈن آف فائیو سنسن، تال کٹورا گارڈن، لودھی گارڈن، چڑیا گھر، وغیرہ شامل ہیں۔
دہلی کے دروازے
[ترمیم]دہلی شہر کے دروازے آٹھویں صدی سے بیسویں صدی تک مختلف شاہی خاندانوں کے حکمرانوں نے تعمیر کروائے۔ کیونکہ شہر کئی بار اجڑا اور پھر بسایا گیا اس لیے کئی دروازے اور کھڑکیاں (چھوٹے دروازوں کو کہا جاتا تھا۔ لیکن ان میں سے اب کوئی باقی نہیں) اب صفحہ ہستی پر موجود نہیں۔
-
کشمیری دروازہ
-
دہلی دروازہ، دہلی شہر
-
اجمیری دروازہ
-
ترکمان دروازہ
-
خونی دروازہ
-
الائی دروازہ
-
بہادر شاہی دروازہ
-
لاہوری دروازہ، لال قلعہ
-
لاہوری دروازہ، دہلی شہر
-
لال دروازہ
-
جنوبی دروازہ
-
شمالی دروازہ
-
دہلی دروازہ، لال قلعہ
-
چو مکھ دروازہ
-
مغربی دروازہ
-
تغلق آباد قلعہ دروازہ
-
سیری قلعہ دروازہ
کھڑکیاں
[ترمیم]- کھڑکیاں (چھوٹے دروازوں کو کہا جاتا تھا۔ لیکن ان میں سے اب کوئی بھی باقی نہیں)
- زینت المساجد کھڑکی
- نواب احمد بخش کی کھڑکی
- نواب غازی الدین کی کھڑکی
- مسمن برج کی کھڑکی
- مسلم گڑھ کی کھڑکی
- نصیر گنج کی کھڑکی
- نئی کھڑکی
- شاہ گنج کھڑکی
- اجمیری دروازہ کی کھڑکی
- سیدبھولے کی کھڑکی
- بلند باغ کی کھڑکی
- فراش خانہ کی کھڑکی
- امیر خان کی کھڑکی
- خلیل خان کی کھڑکی
- بہادر علی خان کی کھڑکی
- نگم بودھ کی کھڑکی۔
تعلیم
[ترمیم]دہلی قومی دار الحکومت علاقہ میں تقریباً 500،000 یونیورسٹی کے طالب علموں 165 سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ دہلی میں نو بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔
ذرائع ابلاغ
[ترمیم]بھارت کے دار الحکومت ہونے کی وجہ سے دہلی سیاسی رپورٹنگ کی خاص توجہ کا مرکز ہے، جن میں پارلیمانی اجلاس کے باقاعدہ ٹیلی ویژن کی نشریات بھی شامل ہیں۔ بہت سے قومی میڈیا ادارے، بھارت کا سرکاری پریس ٹرسٹ، بھارت کا میڈیا ٹرسٹ اور دوردرشن سمیت کئی کے صدر دفاتر شہر میں واقع ہیں۔[68]
مطبوعہ صحافت دہلی کے مقبول ذرائع ابلاغ میں سے ہے۔ شہر کی اخبارات میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
ریڈیو دہلی میں ایک کم مقبول ہے، تاہم 2006ء [71] میں کئی نئے اسٹیشنوں کے افتتاح کے بعد سے ایف ایم ریڈیو نے مقبولیت حاصل کر لی ہے۔[72]
سرکاری اور نجی ریڈیو سٹیشنوں کی ایک بڑی تعداد نے دہلی سے نشریات کرتی ہیں۔[73][74]
کھیل
[ترمیم]دہلی کئی اہم بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر چکا ہے۔ جن میں ایشیائی کھیل 1951ء، ایشیائی کھیل 1982ء اور 2010ء دولت مشترکہ کھیل قابل ذکر ہیں۔ دہلی میں متعدد کھیلوں کے میدان موجود ہیں جن میں چند اہم مندرجہ ذیل ہیں:
دہلی کی اہم شخصیات
[ترمیم]فن اور تفریح
[ترمیم]شاعری
[ترمیم]سیاست
[ترمیم]- راہُل گاندھی
- اروند کیجریوال
- پرویز مشرف (پیدائش1943ء)، پاکستانی سیاست دان
کھیل
[ترمیم]آب و ہوا
[ترمیم]دلی کی آب و ہوا نمی والی اور منطقۂ حارہ سے ملتی جلتی ہیں۔ دہلی کی آب و ہوا میں موسم گرما اور موسم سرما کے درجہ حرارت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ موسم گرما طویل، انتہائی گرم اور اپریل سے وسط اکتوبر تک چلتا ہے۔ اس کے درمیان میں مون سون کا برساتی موسم بھی آتا ہے۔ گرمی کافی مہلک بھی ہو سکتی ہے، جس نے ماضی میں کئی جانیں بھی لی ہیں۔ مارچ کے شروع سے ہی آب و ہوا میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ ہوا شمال مغرب سے تبدیل ہو کر جنوب مغربی سمت میں چلنے لگتی ہے۔ یہ اپنے ساتھ راجستھان کی گرم لہر اور دھول بھی لے کر چلتی ہیں۔ یہ گرمی کا بنیادی حصہ ہیں جنہیں لو کہتے ہیں۔ اپریل سے جون کے مہینے انتہائی گرم ہوتے ہیں۔ جون کے آخر تک نمی میں اضافہ ہوتا ہے جو ہلکی مونسون بارش لاتی ہیں۔ اس کے بعد جولائی سے یہاں مون سون کی ہوائیں چلتی ہیں، جو اچھی بارش لاتی ہیں۔ اکتوبر نومبر میں درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، اس میں ہلکی سردی کافی لطف اندوز ہوتی ہے۔ نومبر سے سرد موسم کا آغاز ہوتا ہے جو فروری کے شروع تک چلتا ہے۔ موسم سرما میں گھنی دھند بھی ہوتی ہے۔ یہاں کے درجہ حرارت میں انتہائی فرق آتا ہے جو -0.6 ° س (30.9 ° ف) سے لے کر 48 ° س (118 ° ف) تک جاتا ہے۔ سالانہ اوسط درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف)؛ ماہانہ اوسط درجہ حرارت 13 ° س سے لے کر 32 ° س (56 ° ف سے لے کر 9 0 ° ف) تک ہوتا ہے۔[75] اوسط سالانہ بارش تقریباً 714 مم (28.1 انچ) ہوتی ہے، جس سے زیادہ مون سون میں جولائی اگست میں ہوتی ہے۔ دہلی میں مون سون کی آمد کی اوسط تاریخ 29 جون ہوتی ہے۔[76]
آب ہوا معلومات برائے دہلی (صفدرجنگ) | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 30.0 (86) |
34.1 (93.4) |
40.6 (105.1) |
45.6 (114.1) |
47.2 (117) |
46.7 (116.1) |
45.0 (113) |
42.0 (107.6) |
40.6 (105.1) |
39.4 (102.9) |
36.1 (97) |
29.3 (84.7) |
47.2 (117) |
اوسط بلند °س (°ف) | 21.0 (69.8) |
23.5 (74.3) |
29.2 (84.6) |
36.0 (96.8) |
39.2 (102.6) |
38.8 (101.8) |
34.7 (94.5) |
33.6 (92.5) |
34.2 (93.6) |
33.0 (91.4) |
28.3 (82.9) |
22.9 (73.2) |
31.2 (88.2) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 14.3 (57.7) |
16.8 (62.2) |
22.3 (72.1) |
28.8 (83.8) |
32.5 (90.5) |
33.4 (92.1) |
30.8 (87.4) |
30.0 (86) |
29.5 (85.1) |
26.3 (79.3) |
20.8 (69.4) |
15.7 (60.3) |
25.1 (77.2) |
اوسط کم °س (°ف) | 7.6 (45.7) |
10.1 (50.2) |
15.3 (59.5) |
21.6 (70.9) |
25.9 (78.6) |
27.8 (82) |
26.8 (80.2) |
26.3 (79.3) |
24.7 (76.5) |
19.6 (67.3) |
13.2 (55.8) |
8.5 (47.3) |
19.0 (66.2) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | −0.6 (30.9) |
1.6 (34.9) |
4.4 (39.9) |
10.7 (51.3) |
15.2 (59.4) |
18.9 (66) |
20.3 (68.5) |
20.7 (69.3) |
17.3 (63.1) |
9.4 (48.9) |
3.9 (39) |
1.1 (34) |
−0.6 (30.9) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 19 (0.75) |
20 (0.79) |
15 (0.59) |
21 (0.83) |
25 (0.98) |
70 (2.76) |
237 (9.33) |
235 (9.25) |
113 (4.45) |
17 (0.67) |
9 (0.35) |
9 (0.35) |
790 (31.1) |
اوسط عمل ترسیب ایام (≥ 1.0 mm) | 1.7 | 2.5 | 2.5 | 2.0 | 2.8 | 5.5 | 13.0 | 12.1 | 5.7 | 1.7 | 0.6 | 1.6 | 51.7 |
اوسط اضافی رطوبت (%) | 63 | 55 | 47 | 34 | 33 | 46 | 70 | 73 | 62 | 52 | 55 | 62 | 54.3 |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 214.6 | 216.1 | 239.1 | 261.0 | 263.1 | 196.5 | 165.9 | 177.0 | 219.0 | 269.3 | 247.2 | 215.8 | 2,684.6 |
ماخذ#1: NOAA[77] | |||||||||||||
ماخذ #2: بھارتی محکمہ موسمیات[78] |
فضائی آلودگی
[ترمیم]عالمی ادارہ صحت دہلی کے مطابق 2014ء میں دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر تھا۔[79] 2016ء میں عالمی ادارہ صحت نے شہری ہوا کے معیار کی ڈیٹا بیس میں دہلی کی گیارہ درجے میں کمی ہے۔[80] ایک اندازے کے مطابق، ہوائی آلودگی ہر سال دہلی میں تقریباً 10،500 لوگوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔[81][82][83]
2013–14 کے دوران میں نقصان دہ ذراتِ مادہ دہلی میں 44 فیصد بڑھ گیا جس کی بنیادی وجہ ملحقہ ریاستوں میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج، تعمیراتی کام اور فصل کا جلایا جانا ہے۔[81][84][85][86] نقصان دہ ہوائی ذرات پی ایم 2,5 جسے صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھا جاتا ہے کی دہلی میں 153 مائیکروگرام کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔[87] بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں اور خواتین میں پھیپھڑوں سے متعلقہ بیماریوں (خاص طور پر دمہ اور پھیپھڑوں کے کینسر) میں اضافہ ہوا ہے۔[88][89] موسم سرما میں ہر سال گہری اسموگ کی وجہ سے گاڑیوں اور ریل ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔[90] بھارتی ماہرین موسمیات کے مطابق موسم سرما کے دوران میں دہلی میں 1998 کے بعد خاص طور پر اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔[91]
جنات کا شہر
[ترمیم]جنات کا شہر دہلی پر لکھی گئی ولیم ڈیلرمپل کی کتاب ہے، جو بھارت کے دار الحکومت دہلی کی تاریخی اہمیت کا احاطہ کرتی ہے۔ دہلی عظیم ماضی رکھنے والا ایک عظیم شہر ہے، جو اتنے زیادہ ہندوستانی حکمرانوں کا دار الحکومت رہا کہ اس کی ہر اینٹ ایک داستان سناتی ہے اور ہندوستان کے عظیم ماضی کی ترجمانی کرتی ہے۔
جڑواں شہر
[ترمیم]تصاویر
[ترمیم]-
پرانی دہلی کا نیا اور پرانا منظر
-
دہلی جامع مسجد کا نیا اور پرانا منظر
-
کناٹ پلیس کا منظر
-
دریائے یمنا کا منظر
ہریانہ | ||||
اتر پردیش | ہریانہ | |||
دہلی | ||||
ہریانہ |
مزید پڑھیے
[ترمیم]- Economic Survey of Delhi 2005–2006 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ delhiplanning.nic.in (Error: unknown archive URL)۔ Planning Department. Government of National Capital Territory of Delhi. Retrieved on 12 فروری 2007
- W Dalrymple (2003)۔ City of Djinns (1 ایڈیشن)۔ Penguin Books۔ ISBN 978-0-14-200100-4
- W Dalrymple (2003)۔ Vidhya Society, (2009)۔ Vidhya Society (NGO) is a leading charitable organization of Uttar Pradesh (India) established under society registration act 21-1860 on the special occasion of World Disable Year 2009. Director Mr. Pavan Upadhyay www.vidhyasociety.com (1 ایڈیشن)۔ Penguin Books۔ ISBN 978-0-14-200100-4
- D Prager (2013)۔ Delirious Delhi (1 ایڈیشن)۔ Arcade Publishing۔ ISBN 978-1-61145-832-9
- L Brown (2011)۔ Lonely Planet Rajasthan, Delhi & Agra (5 ایڈیشن)۔ Lonely Planet Publications۔ ISBN 978-1-74179-460-1
- P Rowe، P Coster (2004)۔ Delhi (Great Cities of the World)۔ World Almanac Library۔ ISBN 978-0-8368-5197-7
- Four-part series on Delhi (30 مئی – 2 جون 2012)۔ "Metrocity Journal: Delhi's Changing Landscape"۔ The Wall Street Journal
بیرونی روابط
[ترمیم]سرکاری
عمومی معلومات
- Delhi Encyclopædia Britannica entry
- کرلی (ڈی موز پر مبنی) پر Delhi
- جغرافیائی معطیات برائے دہلی اوپن سٹریٹ میپ پر
دستاویزی فلمیں
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ مصنف: اینڈریو بیل — ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک. — Delhi — اخذ شدہ بتاریخ: 22 فروری 2018
- ↑ "صفحہ دہلی في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2024ء
- ↑ "صفحہ دہلی في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 دسمبر 2024ء
- ^ ا ب Dwarka, New Delhi, Delhi, India — اخذ شدہ بتاریخ: 22 فروری 2017
- ↑ https://mcdonline.nic.in/
- ↑ Geographic coordinates of Delhi, India — اخذ شدہ بتاریخ: 22 فروری 2018
- ↑ https://it-ch.topographic-map.com/map-8wnm14/Delhi/?zoom=19¢er=28.65695%2C77.22759&popup=28.65719%2C77.22755
- ↑ Census Profile, 2016 Census — اخذ شدہ بتاریخ: 22 فروری 2018
- ^ ا ب http://www.censusindia.gov.in/pca/DDW_PCA0000_2011_Indiastatedist.xlsx
- ↑ http://delhi.gov.in/wps/wcm/connect/doit_udd/Urban+Development/Our+Services/International+Affairs+Cell+%28IC%29/Sisters+City+Agreements/ — اخذ شدہ بتاریخ: 5 دسمبر 2018
- ↑ Current Local Time in New Delhi, Delhi, India — اخذ شدہ بتاریخ: 22 فروری 2018
- ↑ "The Constitution (Sixty-Ninth Amendment) Act, 1991"۔ Ministry of Law and Justice, حکومت ہند۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2014
- ↑ "UN Demographic Urban Areas"۔ UN stats۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2015
- ↑ "Urban agglomerations/cities having population 1 million and above" (PDF)۔ Provisional population totals, census of India 2011۔ Registrar General & Census Commissioner, India۔ 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2012
- ↑ Irfan Habib (1999)۔ The agrarian system of Mughal India, 1556–1707۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ISBN 978-0-19-562329-1۔
۔۔۔ The current Survey of India spellings are followed for place names except where they vary rather noticeably from the spellings in our sources: thus I read "Dehli" not "Delhi …
- Royal Asiatic Society (1834)۔ "Journal of the Royal Asiatic Society of Great Britain & Ireland"۔ Cambridge University Press۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مارچ 2017۔
۔۔۔ also Dehli or Dilli, not Delhi.۔۔
- L.T Karamchandani (1968)۔ "India, the beautiful"۔ Sita Publication۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مارچ 2017۔
۔۔۔ According to available evidence the present Delhi, spelt in Hindustani as Dehli or Dilli, derived its name from King …
- "The National geographical journal of India, Volume 40"۔ National Geographical Society of India۔ 1994۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مارچ 2017۔
۔۔۔ The name which remained the most popular is "Dilli" with variation in its pronunciation as Dilli, Dehli, or Delhi …
- Royal Asiatic Society (1834)۔ "Journal of the Royal Asiatic Society of Great Britain & Ireland"۔ Cambridge University Press۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مارچ 2017۔
- ↑ "Mumbai richest Indian city with total wealth of $820 billion, Delhi comes second: Report"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 27 فروری 2017۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 فروری 2017
- ↑ Catherine B Asher (2000) [2000]۔ "Chapter 9:Delhi walled: Changing Boundaries"۔ $1 میں James D. Tracy۔ City Walls۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 247–281۔ ISBN 978-0-521-65221-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 نومبر 2008
- ↑ "Chapter 1: Introduction" (PDF)۔ Economic Survey of Delhi, 2005–2006۔ Planning Department, Government of National Capital Territory of Delhi۔ صفحہ: 1–7۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2011
- ↑ S.R. Bakshi (1995) [2002]۔ Delhi Through Ages۔ Whispering Eye Bangdat۔ صفحہ: 2۔ ISBN 978-81-7488-138-0
- ^ ا ب George Smith (1882)۔ The Geography of British India, Political & Physical۔ J. Murray۔ صفحہ: 216–217۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 نومبر 2008
- ↑ "Our Pasts II, History Textbook for Class VII"۔ NCERT۔ 23 جون 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 جولائی 2007
- ↑ Delhi City معجم سلطانی ہند، 1909, v. 11, p. 236.۔
- ↑ A Dictionary of Urdu، Classical Hindi, and English آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dsal.uchicago.edu (Error: unknown archive URL)۔ Dsal.uchicago.edu. Retrieved 24 اکتوبر 2011.
- ↑ Richard J. Cohen (اکتوبر–دسمبر 1989)۔ "An Early Attestation of the Toponym Dhilli"۔ Journal of the American Oriental Society۔ 109 (4): 513–519۔ ISSN 0003-0279۔ JSTOR 604073۔ doi:10.2307/604073
- ↑ Ian Austin، Thhakur Nahar Singh Jasol۔ "Chauhans (Cahamanas, Cauhans)"۔ The Mewar Encyclopedia۔ mewarindia.com۔ 14 نومبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2006
- ↑ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 13 نومبر 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2017
- ↑ Urbanization and social change: a ۔۔۔ – Google Books۔ Books.google.com۔ 14 اگست 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2011
- ↑ "Delhi: Assembly Constituencies"۔ Compare Infobase Limited۔ 1 جنوری 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2006
- ↑ "Lok Sabha constituencies get a new profile"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 7 ستمبر 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2006
- ↑ "Politics of Delhi"۔ INDFY۔ 24 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2012
- ↑ "Arvind Kejriwal to be Delhi Chief Minister, swearing-in at Ramleela Maidan"۔ timesofindia-economictimes۔ 23 دسمبر 2013۔ 11 مئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2015
- ↑ Mohammad Ali، Vishal Kant، Sowmiya Ashok (14 فروری 2014)۔ "Arvind Kejriwal quits over Jan Lokpal"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2015
- ↑ "President's rule imposed in Delhi"۔ The Times of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2015
- ↑ Niharika Mandhana (10 فروری 2015)۔ "Upstart Party Wins India State Elections – WSJ"۔ WSJ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2015
- ↑ Delhi: Old, new, sleek and rambunctious too - The Salt Lake Tribune
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 26 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2017
- ↑ John Hawksworth، Thomas Hoehn، Anmol Tiwari (نومبر 2009)۔ "Which are the largest city economies in the world and how might this change by 2025?" (PDF)۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز۔ 18 اپریل 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2015
- ^ ا ب "Chapter 5: Employment and Unemployment" (PDF)۔ Economic Survey of Delhi, 2005–06۔ Planning Department, Government of National Capital Territory of Delhi۔ صفحہ: 59–65۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 فروری 2017
- ↑ "Industries in Delhi"۔ Mapsofindia.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 ستمبر 2009
- ↑ "Delhi hot favourite retail destination in India – Corporate Trends – News By Company -News"۔ The Economic Times۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2008 "آرکائیو کاپی"۔ 01 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 فروری 2017
- ↑ D. MURALEEDHARAN (1 نومبر 2014)۔ MODERN BANKING: THEORY AND PRACTICE۔ PHI Learning Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 106–۔ ISBN 978-81-203-5032-8۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2017
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 10 جنوری 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2017
- ↑ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 16 جنوری 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2017
- ↑ اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ
- ↑ "Delhi – Indira Gandhi International Airport (DEL) information"۔ Essential Travel Ltd.، UK.۔ 19 جولائی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2006
- ↑ "India begins $1.94b Delhi airport revamp"۔ Dailytimes.com.pk۔ 18 فروری 2007۔ 16 جنوری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2008
- ^ ا ب "Census of India: Provisional Population Totals for Census 2011: NCT of Delhi"۔ Censusindia.gov.in۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2011
- ↑ "Data on Religion"۔ Census of India 2001۔ صفحہ: 1۔ 12 اگست 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2006
- ↑ 'Half of Delhi’s population lives in slums' | Delhi News - Times of India
- ↑ 52 per cent of Delhi lives in slums without basic services - The Hindu
- ↑ Delhi: Slum shame | The Indian Express
- ↑ 'Promote lesser-known monuments of Delhi' | Delhi News - Times of India
- ↑ List of Ancient Monuments and Archaeological Sites and Remains of Delhi - Archaeological Survey of India
- ↑ India - UNESCO World Heritage Centre
- ↑ "The Gift Of Freedom"۔ 31 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2017
- ↑ http://www.thehindubusinessline.com/2002/01/28/stories/2002012800060800.htm
- ↑ Sunil Sethi: Why Delhi is India's Book Capital | Business Standard Column
- ↑ http://timesofindia.indiatimes.com/toierrorfound.cms?url=http://timesofindia.indiatimes.com/articleshow/2060348.cms
- ↑ India Today Conclave 2008 - Leadership for the 21st Century
- ^ ا ب M.R.Narayan Swamy (2006)۔ New Delhi۔ Marshall Cavendish۔ صفحہ: 14–17۔ ISBN 978-981-232-996-7۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012
- ^ ا ب پ Chetananand Singh (2010)۔ "Commonwealth games guide to Delhi" (PDF)۔ Delhi Tourism and Transportation Development Corporation Ltd۔ 10 مئی 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012
- ↑ Fiona Duncan (6 مارچ 2011)۔ "Delhi, India: hotels, restaurants and transport"۔ روزنامہ ٹیلی گراف۔ London۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012
- ↑ Lindsay Brown، Amelia Thomas (2008)۔ Rajasthan, Delhi and Agra (second ایڈیشن)۔ Footscray, Vic.: Lonely Planet۔ صفحہ: 20–31۔ ISBN 978-1-74104-690-8۔ ASIN 1741046904
- ↑ "Why developers charge a premium for upper storeys in Delhi/NCR region"۔ Economic Times۔ 5 اگست 2011۔ 27 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2012
- ↑ John Murray (1924)۔ "A handbook for travellers in India, Burma and Ceylon"۔ J. Murray, 1924۔
۔۔۔ "Dilli hanoz dur ast" ("Delhi is still far off")— has passed into the currency of a proverb …
- ^ ا ب S. W. Fallon، Dihlavi Fakir Chand (1886)۔ "A dictionary of Hindustani proverbs"۔ Printed at the Medical hall press, 1886۔
۔۔۔ Abhi Dilli dur hai …
- ↑ "India today, Volume 31, Issues 13–25"۔ Thomson Living Media India Ltd.، 2006۔ 2006۔
۔۔۔ As the saying in Hindustani goes: "Dilli dilwalon ki (Delhi belongs to those with a heart)"۔ So shed your inhibitions and try out your hand …
- ↑ Rediff Business Desk (5 ستمبر 2006)۔ "What is CAS? What is DTH?"۔ rediff news: Business۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ 31 مئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جنوری 2007
- ↑ "Biographical Data of Vir Sanghvi"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2012
- ↑ "Hindi Newspapers"۔ Amar Ujala۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2016
- ↑ "Delhi: Radio Stations in Delhi, India"۔ ASIAWAVES: Radio and TV Broadcasting in South and South-East Asia۔ Alan G. Davies۔ 15 نومبر 2006۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جنوری 2007
- ↑ Farah Naqvi (14 نومبر 2006)۔ "Chapter4: Towards a Mass Media Campaign: Analysing the relationship between target audiences and mass media" (PDF)۔ Images and icons: Harnessing the Power of Mass Media to Promote Gender Equality and Reduce Practices of Sex Selection۔ BBC World Service Trust۔ صفحہ: 26–36۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جنوری 2007
- ↑ "All India Radio"۔ Indian government۔ 5 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2012
- ↑ "Radio Stations in Delhi, India"۔ Asiawaves asiawaves.net۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2012
- ↑ "Delhi, India Travel Weather Averages (Weatherbase)"۔ 07 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 فروری 2017
- ↑ Monsoon reaches Delhi two days ahead of schedule - ECONOMY - Business Line
- ↑ "New Delhi (SFD) 1971–1990"۔ National Oceanic and Atmospheric Administration۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 21, 2015
- ↑ "Extremes for Delhi" (PDF)۔ Indian Meteorological Department۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 21, 2015
- ↑ "Delhi is most polluted city in world, Beijing much better: WHO study"۔ Hindustan Times۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 مئی 2014
- ↑ Rahul Kumar (جولائی 2016)۔ "Fancy Schemes for a Dirty Business"۔ Digital Development Debates۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 ستمبر 2016
- ^ ا ب "Delhi's Air Has Become a Lethal Hazard and Nobody Seems to Know What to Do About It"۔ Time magazine۔ 10 فروری 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2014
- ↑ "India's Air Pollution Triggers Comparisons with China"۔ Voice of America۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2014
- ↑ "A Delhi particular"۔ The Economist۔ 6 نومبر 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 نومبر 2012
- ↑ "How Crop Burning Affects Delhi's Air"۔ Wall Street Journal۔ 15 فروری 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2014
- ↑ GARDINER HARRIS (25 جنوری 2014)۔ "Beijing's Bad Air Would Be Step Up for Smoggy Delhi"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جنوری 2014
- ↑ MAX BEARAK (7 فروری 2014)۔ "Desperate for Clean Air, Delhi Residents Experiment with Solutions"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 فروری 2014
- ↑ Madison Park (8 مئی 2014)۔ "Top 20 most polluted cities in the world"۔ CNN۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2017
- ↑ "Children in Delhi have lungs of chain-smokers!"۔ India Today۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2014
- ↑ "Pollution increasing lung cancer in Indian women"۔ DNA۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 فروری 2014
- ↑ "Delhi blanketed in thick smog, transport disrupted"۔ Reuters۔ 18 دسمبر 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2013
- ↑ جنوری days getting colder, tied to rise in pollution، Times of India, 27 جنوری 2014
- ↑ Delhi to London, it’s a sister act | News - Times of India
ویکی ذخائر پر دہلی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔
لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔
لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔
- تاریخ شمار سانچے
- جغرافیہ رہنمائی خانہ جات
- بھارتی ریاست یا علاقہ سانچے
- دہلی
- انگریزی بولنے والے ممالک اور علاقہ جات
- ایشیائی دار الحکومت
- بھارت کی رياستیں اور یونین علاقے
- بھارت کے شہر
- بھارت کے شہر بلحاظ ریاست یا علاقہ
- بھارت کے میٹروپولیٹن شہر
- بھارت کے یونین علاقے
- چھٹی صدی قبل مسیح میں آباد ہونے والے مقامات
- دار الحکومت
- شمالی بھارت
- ملین آبادی کے شہر
- نئی دہلی
- وفاقی اضلاع اور علاقہ جات
- ہندوستان میں چھٹی صدی ق م کی تاسیسات