مندرجات کا رخ کریں

جامع مسجد قرطبہ

متناسقات: 37°52′45.1″N 04°46′47″W / 37.879194°N 4.77972°W / 37.879194; -4.77972
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جامع مسجد قرطبہ
جامع مسجد قرطبہ
بنیادی معلومات
متناسقات37°52′45.1″N 04°46′47″W / 37.879194°N 4.77972°W / 37.879194; -4.77972
مذہبی انتساب
ضلعضلع قرطبہ
علاقہجزیرہ نما آئبیریا
ملکہسپانیہ
مذہبی یا تنظیمی حالتزیر استعمال
ثقافتی اہمیتیونیسکو
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیرمسجد، کیتھیڈرل
طرز تعمیرموری آرکیتیکچر، پونر جاگرن آرکیتیکچر
سنگ بنیاد784
سنہ تکمیل987
مسجد قرطبہ

جامع مسجد قرطبہ یا قرطبہ کی جامع مسجد (انگریزی: Great Mosque of Córdoba)[2][3][4](ہسپانوی: Mezquita de Córdoba)‏ [5][6][7]جسے ایک کلیسا میں تبدیل کر دیا گیا اور اب اسے قرطبہ کی مسجد-کیتھیڈرل (انگریزی: Mosque–Cathedral of Córdoba)[8][3] ((ہسپانوی: Mezquita-Catedral de Córdoba)‏) بھی کہا جاتا ہے۔ اندلس (عربی: الأندلس) میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے۔ جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع قرطبہ (ہسپانوی: Mezquita) کی تعمیر شروع کیے جانے سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمراء کے مکمل ہونے کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران میں سینکڑوں عمارات مثلاً حمام، محلات، مساجد، مقابر، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے جن کی اگر تفصیل لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہاں کے مسلمان حکمران اور عوام کی اکثریت پرانی ثقافت کی کورانہ تقلید کے قائل نہیں تھی۔ بلکہ یہاں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ اس نئی تہذیب کے آثار ان کی تعمیر ات کے ہر انداز سے جھلکتے نظر آتے ہیں۔ عرب فاتحین کا یہ قاعدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے۔ چنانچہ سندھ سے لے کر مراکش تک کی تعمیرات میں عربوں کی یہ خصوصیت واضح طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لیکن اندلس میں انھوں نے یکسر ایک نیا رویہ اپنایا اور ایک ایسی نئی طرز تعمیر کے موجد بنے جس میں عرب، ہسپانوی (Visigothic)، صیہونی اور اندلس کی دیگر اقوام کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔ ہم یہاں پر اسی طرز تعمیر کی زندہ مثال جامع مسجد قرطبہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ اس مسجد کی طرز تعمیر میں قدیم اسلامی طرز تعمیر صیہونی اور مسیحی طرز تعمیر کے پہلو بہ پہلو ایک نئے امتزاج کے ساتھ ملتا ہے۔

جامع مسجد قرطبہ

[ترمیم]

اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود

عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

اقبال کی شہرہ آفاق نظم مسجد قرطبہ میں انھوں نے اس مسجد کی جو تصویر کھینچی ہے وہ دل کو چھو لینے والی اور ساتھ ہی دل کو چیر دینے والی ہے۔ اقبال وہ پہلے شحض ہیں جنھوں نے کئی صدیوں بعد 1931ء میں اس مسجد میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔

مسجد کے صحن کا منظر

یوں تو سر زمین اندلس پر مسلمانوں کے عہد زریں میں بہت سی دلکش و دلفریب عمارات تعمیر ہوئیں لیکن جو نفاست اور پاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصہ میں آئی وہ نہ تو الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے اور نہ کسی اور ذریعہ اظہار سے اس کے حسن و جمال، تزئین و آرائش، نسخی گل کاریوں اور پچی کاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے۔ وہ ایسی دیدہ زیب عمارت تھی جسے بار بار دیکھنے کو جی چائے۔ اگرچہ گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے آج کچھ کا کچھ بنا دیا ہے لیکن پھر بھی اس کے حسن و خوبی اور جدت تعمیر و ندرت آرائش کے جو آثار زمانہ کی دستبرد سے بچ سکے ہیں اب بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان زبان حال سے سناتے نظر آتے ہیں۔

اس مسجد کی تعمیر کا خیال امیر عبدالرحمن اول المعروف الداخل (756-788) کو سب سے پہلے اس وقت دامن گیر ہوا جب اس نے ایک طرف اندرونی شورشوں پر قابو پا لیا اور دوسری طرف بیرونی خطرات کے سد باب کا بھی مناسب بندوبست کر لیا۔ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایا۔ امیر چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجد دمشق کا ہم پلہ بنا کر اہل اندلس و مغرب کو ایک نیا مرکز عطا کرے۔ یہی وجہ تھی کی اس کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود کی۔

یہ عظیم مسجد وادی الکبیر (ہسپانوی: Guadalquivir)میں دریا پر بنائے گئے قدیم ترین پل(اس پل کو رومی Claudius Marcellus نے تعمیر کروایا تھا) کے قریب اس جگہ واقع ہے جہاں پہلے سینٹ ونسنٹ (St. Vincent of Saragossa) کی یاد میں تعمیر کردہ ایک گرجا قائم تھا اور جس کا ایک حصہ پہلے ہی سے بطور مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف تھا (الرازی)۔ السمح بن مالک الخولانی کے عہد میں جب قرطبہ دار السلطنت بنا تو مسلمانوں نے مسجد کی توسیع کے لیے مسیحیوں سے باقی ماندہ حصہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی مگر وہ مسلمانوں کی تمام تر رواداری کے باوجود اسے فروخت کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ لیکن جب عبدالرحمن الداخل کا زمانہ آیا تو اس نے بہت بھاری قیمت ادا کرکے پورا گرجا خریدلیا۔ قبضہ حاصل کرلینے کے بعد 786ء میں امیر نے اسے گرا کر اس کی جگہ ایک دیدہ زیب مسجد کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ تعمیر کا کام جس ذوق و شوق سے شروع ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امیر نے دو سال کی قلیل مدت میں اس مسجد کی تعمیر پر 80 ہزار دینار خرچ کر دئے۔ مسجد کی بیرونی چار دیواری اتنی بلند و بالا اور مضبوط تھی کہ وہ شہر کی فصیل نظر آتی تھی۔ اس فصیل نما چاردیواری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اس کے باہر کی جانب تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پہل پشتیبان (Buttressess) بنائے گئے تھے جن پرکنگرے بنے ہوئے تھے۔

مسجد کا بیرونی منظر؛ جس کو گوتھ طرزتعمیر سے داغدار بنا کر اس کا تعمیر کے وقت کا اصل اسلامی انداز نوچ کر پھینک دیا گیا ہے[9]۔

مسجد کی چھت بے شمار ستونوں پر قائم ہے جن کی ترتیب کچھ اس وضع پر ہے کہ ان کے تقاطع سے دونوں طرف کثرت سے متوازی راستے بن گئے ہیں۔ ان ستونوں پر نہایت ہی پر تکلف نعلی محرابیں (Horseshoe Arches) قائم ہیں۔ یہ نعلی محرابیں نہ صرف اس عظیم مسجد کا وجہ امتیاز ہیں بلکہ ہسپانوی طرز تعمیر کی پہچان بن چکی ہیں۔ جامع قرطبہ کے ان ستونوں پر دوہری محرابیں بنی ہوئی ہیں۔ یعنی ایک محراب پر دوسری قائم کر کے انھیں چھت سے ملا دیا گیا ہے۔ ان محرابوں پر کہیں کہیں قبے ّ بنائے گئے تھے جن میں سے چند ایک ابھی تک باقی ہیں۔ چھت زمین سے تیس فٹ کے قریب بلند تھی۔ جس کی وجہ سے مسجد میں ہوا اور روشنی کا حصول آسان ہو گیا تھا۔ چھت پر دو سو اسی جگمگاتے ستارے بنائے گئے تھے۔ جن میں سے اندرونی دالان کے ستارے خالص چاندی کے تھے۔ اس کے علاوہ چھت مختلف چوبی پٹیوں (Panels) سے آراستہ تھی۔ ہر پٹی پر نقش ونگار کا انداز محتلف تھا۔ مسجد کے وسط میں تانبے کا ایک بہت بڑا جھاڑ معلق تھا جس میں بیک وقت ہزار چراغ جلتے تھے۔ خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔ جبکہ محراب اور اس سے متصل دیوار سونے کی تھی۔ سنگ مر مر کے ستونوں پر سونے کے کام سے ان کی تزئین و آرائش کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا تھا۔

عبد الرحمن الداخل کے بعد امیر ہشام اول (788ء - 796ء)مسند امارت پر متمکن ہوا۔ اس نے بھی اس مسجد کی تعمیر و توسیع کا کام جاری رکھا۔ اس نے تو اپنے دور حکومت کے سات سالوں میں تمام مال غنیمت کا پانچواں حصہ مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا۔ اس عظیم الشان مسجد کا وہ عظیم مینار جو چہار پہلو تھا اسی کے زمانے میں تعمیر ہوا۔ اس مینار کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس یکتائے زمانہ مسجد کی تکمیل پر ماہ و سال نہیں صدیاں خرچ ہوئیں۔ ہر امیر نے اپنی بساط اور ذوق کے مطابق اس پر بے دریغ خرچ کیا۔ ہزاروں مزدوروں نے سینکڑوں معماروں کی معیت میں اس مسجد کی تعمیر و آرائش پر اپنا خون پسینہ ایک کیا تب جا کر اسے وہ مقام حاصل ہوا جو بہت کم عمارتوں کو حاصل ہے۔ ذیل میں اس مسجد کے بعض اہم حصوں پر الگ الگ روشنی ڈالی گئی ہے۔

محراب و منبر

[ترمیم]

مسجد میں محراب و منبر کو ایک ممتاز مقام حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاں باہر سے دیکھنے والوں کے لیے مسجد کا مینار اور گنبد مرکز نگاہ بن جاتے ہیں وہاں مسجد کے اندر محراب و منبر ہی وہ دو مقام ہیں جو ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ مسجد قرطبہ کی محراب (Niche) جس سنگ مر مر سے تیار کی گئی تھی وہ دودھ سے زیادہ اجلا اور برف سے زیادہ چمکیلا تھا۔ صناعوں نے اسے ہفت پہلو کمرہ بنا دیا تھا جس کے اندر کی جانب سنگ تراشی کے ذریعے خوبصورت گل کاری کا کام کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل کی جو محراب (Arch) بنائی گئی ہے اسے دونوں طرف سے دو ستونوں نے سہارا دے رکھا ہے۔ ہر جانب ایک ستون نیلگوں اور ایک سرخ ہے۔ اس محراب پر قوس ہی کی شکل میں پچی کاری (Inlay Work)کے ذریعے خوبصورت رنگین نقش ونگار(Arabsque) بنائے گئے ہیں جس کے گرداگرد کوفی رسم الخط میں قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ محراب کی چھت ایک بہت بڑے صدف سے آراستہ ہے۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ پچی کاری سے مزین تین بڑے بڑے دروازے ہیں جن میں سے درمیانی دروازے میں مسجد کی محراب واقع ہے۔ محراب کے قریب قبلہ کی دیوار نے تین عظیم قبوں (Vaults or Cupolas) کو تھام رکھا ہے۔ جن میں سے درمیانی قبے کے اندر پچی کاری کا خوبصورت کام کیا گیا ہے۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ جو دروازہ ”ساباط“پر بنایا گیا ہے اس کی ایک جانب وہ منبر تھا جو خوشبو دار اور قیمتی لکڑی کے 36ہزار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا۔ ٹکڑوں کو جوڑنے کے لیے سونے اور چاندی کے کیل لگائے گئے تھے۔ لکڑی کے ہر ٹکڑے پر سات درہم نقرئی خرچ آئے تھے (ابن بشکوال : نفخ الطیب)۔ جو لکڑی استعمال کی گئی تھی اس میں صندل، بقم، حدنگ، آبنوس اور شوحط شامل ہیں۔ یہ منبر آٹھ فنکاروں نے سات برس کی طویل مدت میں مکمل کیا تھا۔ منبر میں زیادہ آب و تاب پیدا کرنے کے لیے اسے جواہرات سے مرصع کیا گیاتھا۔ انقلابات زمانہ کی دستبرد سے اگر مسجد کا کوئی حصہ صحیح حالت میں بچ سکا ہے تو وہ یہی محراب ہے جس کی چمک اور تابانی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔

ستون

[ترمیم]

امیر عبد الرحمن الداخل اور امیر ہشام اول کے عہد میں جو ستون مسجد قرطبہ میں استعمال کیے گئے وہ یا تو قرطاجنہ(Cartagena) سے لائے گئے تھے یا اربونہ(Arbonne) اور اشبیلیہ (Seville)سے۔ لیکن یہ ستون تعداد میں اس قدر زیادہ نہ تھے کہ آئندہ کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتے۔ لہذا عبدالرحمن الناصر (912-961)نے اندلسی سنگ مرمر سے مختلف رنگوں کے ستون ترشوائے۔ سنگ مر مر کے یہ ستون سفید، نیلگوں، سرخ، سیاہ، سبز، گلابی اور رنگ برنگ کی چتیوں والے تھے۔ سنگ سماق، سنگ رخام اور زبر جد سے بنائے گئے ان ستونوں پر سونے کی مینا کاری اور جواہرات کی پچی کاری کی گئی تھی۔ مجموعی طور پر ان ستونوں کی تعداد 1400سے زائد تھی۔ ان ستونوں پر نعلی محرابیں اس طرح سے بنائی گئی ہیں کہ یہ ستون کھجور کے تنے اور ان پر بنے چھوٹے بڑے محاریب کھجور کی شاخیں معلوم ہوتی ہیں۔ جس ترتیب اور وضع سے انھیں نسب کیا گیا تھا اس کی بناءپر کسی بھی زاویہ سے انھیں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کسی دل فریب نخلستان میں کھڑا ہے اور اس کے سامنے ہزارہا کھجور کے درخت صف بستہ کھڑے ہیں۔ چھت کو سہارا دینے والے ستونوں پر قائم محرابوں کے علاوہ بہت سی چھوٹی بڑی آرائشی محرابیں بھی بنائی گئی تھیں جو ایک دوسرے کو قطع کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ زیادہ تر بند محرابیں (Blind Arches) ہیں جن کے درمیانی حصوں کو گچ کاری (Stucco Work)، پچی کاری (Inlay Work)اور ٹائلوں کے کام سے آراستہ کیا گیا ہے۔

دروازے

[ترمیم]

مسجد میں توسیع کے نتیجہ میں اس کے دروازوں کی تعداد نو سے بڑھ کر اکیس تک پہنچ گئی تھی۔ نو دروازے مشرق کی جانب اور نو مغرب کی جانب تھے۔ ان میں ہر طرف کے آٹھ دروازے مردوں کے لیے اور ایک ایک دروازہ عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ شمال کی جانب تین دروازے تھے ان تمام دروازوں کے کواڑوں پر صیقل شدہ پیتل کی پتریاں چڑھائی گئی تھیں جو سورج کی روشنی میں خوب چمکتی تھیں۔ اس کے علاوہ جنوب کی طرف سونے کے کواڑوں والا ایک بڑا دروازہ بھی تھا جو قصر خلافت سے ملانے والی ”ساباط“ نامی مسقف گزرگاہ پر بنا ہوا تھا۔ اسی راستے سے گذر کر امراءاندلس مقصورہ میں داخل ہوتے تھے۔ ساباط کے دروازے کی محراب پر گنجان پچی کاری کا کام کیا گیا ہے حتی کہ کوفی رسم الخط میں تحریر عبارتیں تک پچی کاری سے لکھی گئی ہیں۔

پانی اور روشنی کا انتظام

[ترمیم]

مسجد میں فانوسوں اور موم بتیوں کی روشنی کے سبب رات کو بھی دن کا گمان گزرتا تھا۔ اگرچہ اس میں جلنے والے چراغوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں مگر پھر بھی وہ ساڑھے سات ہزار سے کسی طرح کم نہ تھے۔ سال بھر میں ساڑھے تین من موم کے علاوہ تین سو من تیل جلایا جاتا تھا۔

شروع میں وضو کرنے کے لیے پانی مسجد کے باہر کے ایک کنویں سے میضاة (وضو خانہ) میں پکھالوں کے ذریعہ لا کر بھرا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں الحکم نے چار میضاة بنوائے جن میں سے دو بڑے اور دو چھوٹے تھے۔ ان میں پانی بھرنے کے لیے ایک پختہ نہر جبل قرطبہ کو کاٹ کر مسجد تک لائی گئی تھی۔ اس کا پانی نہایت عمدہ اور شیریں تھااور ہر وقت رواں رہتا تھا۔ مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد یہ پانی تین زمین دوز نالیوں کے ذریعہ مسجد سے باہر نکل جاتا تھا۔

مینار

[ترمیم]

مسجد قرطبہ میں مینار کا اضافہ سب سے پہلے ہشام اول نے کیا تھا۔ یہ مینار چہار پہلو تھا اور اس کے اوپر جانے کے لیے صرف ایک زینہ تھا۔ اس کی بلندی بھی عمارت کی مناسبت سے رکھی گئی تھی۔ 888ءمیں ایک زلزلہ سے اس عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ لہذا عبدالرحمن الناصر جب سریر آرائے خلافت ہوا تو اس نے پرانے مینار کی جگہ دوسرا مینار بنوایا جو پہلے مینار کی بہ نسبت کہیں زیادہ رفیع الشان تھا۔ اس مینار کے بارے میں نفخ الطیب میں ابن بشکوال کی جو عبارت نقل ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی بلندی بہتر ہاتھ تھی۔ زمین سے چون ہاتھ کی بلندی پر ایک چھجہ تھا۔ جس پر ستون قائم کرکے ان پر ایک برج بنا دیا گیا تھا جہاں مؤذن اذان دیتا تھا۔ پہلے مینار کے برعکس اس میں اوپر جانے کے لیے دو زینے بنا دئے گئے تھے۔ برج کے اوپر کلس تھا جو سیب کی شکل کے تین گولوں پر مشتمل تھا جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے بیچ کا گولہ چاندی کا اور دوسرے دونوں سونے کے تھے۔ ان سیبوں کے اوپر چھ پنکھڑیوں والا سوسن کا پھول تھا جس پر نہایت خوبصورت سونے کا انار بنا دیا گیاتھا۔

مقصورہ

[ترمیم]

الحکم نے جو مقصورہ تیار کرایا تھا اس کے بارے میں نفخ الطیب میں ابن بشکوال کا قول ابن سعید کے حوالے سے اس طرح نقل ہوا ہے کہ دیوار قبلہ سے متصل دالان کے گیارہ دروں میں سے بیچ کے پانچ دروں کو گھیر کر یہ مقصورہ بنایا گیا تھا۔ مقصورہ سے کچھ دور لکڑی کی دیوار بنا دی گئی تھی جس پر نہایت ہی عمدہ کام کیا گیا تھا۔ اس مقصورہ کا فرش مسجد کے باقی فرش سے کسی قدر اونچا رکھا گیا تھا۔ اس میں داخل ہونے کے لیے تین دروازے تھے۔ ایک دروازہ قبلہ کی دیوار میں جبکہ ایک مشرق و مغرب کے سمت میں تھا۔ مقصورہ کا فرش چاندی کا اور تمام دیواروں پر جڑاؤ کا کام بلّور کے ٹکڑوں اور قیمتی رنگین نگینوں سے کیا گیا تھا۔ ان بلّور کے ٹکڑوں اور نگینوں پر بھی سونے کی مینا کاری تھی۔ مقصورہ میں ایک ستون کی جگہ چار ستون کھڑے کر کے ان پر متعدد الجہت محاریب (Polygon Arches) والے تاج قائم کیے گئے تھے۔ ان ستونوں پر اوپر سے نیچے تک فیروزے جڑ کر کے سونے کے پھول بوٹے بنائے گئے تھے۔

یہ مستطیل مسجد لمبائی میں 180میٹر اور چوڑائی میں 135میٹر ہے۔ اس رقبہ میں مسجد کا قبلہ کی سمت دالانوں والا حصہ، صحن مسجد اور تین طرف کے دالانوں کے علاوہ اس مینار کو بھی شامل کیا گیا ہے جو مسجد کے مینار کی جگہ بنایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ :

"رنگ ہو یا خشت وسنگ، چنگ ہو یا حرف وصوت

معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود!"

مسلمانوں کا مطالبہ

[ترمیم]

دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینیڈکٹ سے اپیل کی کہ انھیں مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ اسپین کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپین کے کلیسا نے ان کی درخواست مستردکردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مقدس جگہ کی حوالگی کی درخواست نہیں بلکہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مل کر عبادت کر کے مسیحی دنیا میں ایک اچھوتی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دسمبر 2006ء کے اوائل میں ہسپانوی کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کو جامع قرطبہ میں نماز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس عبادت گاہ میں مشترکہ عبادت کے لیے دیگر مذاہب سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ مسلم بورڈ کے جنرل سیکرٹری منصور ایکسڈیرو کے مطابق قبل ازیں سیکورٹی گارڈز نے اندرونی حصے میں پرانی مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کے بعض عناصر اسپین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ گرجا جو دنیا بھر میں مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آتے ہیں۔[10]

تصاویر

[ترمیم]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Lois Fichner-Rathus (2012)۔ Understanding Art (with Art Coursemate with EBook Printed Access Card)۔ Cengage Learning۔ صفحہ: 336۔ ISBN 1-111-83695-7۔ اخذ شدہ بتاریخ دسمبر 14, 2012 
  2. "Historic Centre of Cordoba"۔ UNESCO۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2016۔ The Great Mosque of Cordoba was inscribed on the World Heritage List in 1984 
  3. ^ ا ب "Mosque-Cathedral of Córdoba"۔ Encyclopædia Britannica, Inc.۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2016 
  4. Alejandro Lapunzina (2005)۔ Architecture of Spain۔ Greenwood Publishing Group۔ صفحہ: 81۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2018 
  5. DK Eyewitness Travel Guide: Seville & Andalusia۔ Penguin۔ 2006۔ صفحہ: 148۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2018 
  6. Geoff Garvey, Mark Ellingham (2009)۔ The Rough Guide to Andalucia۔ Penguin۔ صفحہ: 474۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2018 
  7. Isabella Noble، John Noble، Josephine Quintero، Brendan Sainsbury (2016)۔ Lonely Planet Andalucia۔ Lonely Planet۔ صفحہ: 22۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2018 
  8. "Web Oficial del Conjunto Monumental Mezquita-Catedral de Córdoba"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2016 
  9. مقدس منازل نامی موقع آن لائن پر جامع مسجد قرطبہ میں ترمیمات کا بیان
  10. روزنامہ جنگ کراچی 28 دسمبر 2006ء[مردہ ربط]

بیرونی روابط

[ترمیم]