مندرجات کا رخ کریں

بحیرہ اسود

متناسقات: 44°N 35°E / 44°N 35°E / 44; 35
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بحیرہ اسود
Black Sea
بحیرہ اسود کا مقام
بحیرہ اسود کا نقشہ
مقاممشرقی یورپ اور مغربی ایشیا
متناسقات44°N 35°E / 44°N 35°E / 44; 35
قسمبحیرہ
بنیادی داخلی بہاودریائے ڈینیوب, دریائے دنیپر, Don, Dniester, دریائے کوبان, Black Sea undersea river
بنیادی خارجی بہاوآبنائے باسفورس
طاس ممالکبلغاریہ, جارجیا, رومانیہ, روس, ترکیہ, یوکرین
آنے والے دریاؤں کے لیے ممالک کی ایک بڑی تعداد نکاسی طاس میں شامل ہے۔
زیادہ سے زیادہ لمبائی1,175 کلومیٹر (730 میل)
سطحی رقبہ436,402 کلومیٹر2 (168,500 مربع میل)[1]
اوسط گہرائی1,253 میٹر (4,111 فٹ)
زیادہ سے زیادہ گہرائی2,212 میٹر (7,257 فٹ)
حجم آب547,000 کلومیٹر3 (131,200 cu mi)
جزائر10+

بحیرہ اسود یا بحیره سیاه جنوب مشرقی یورپ اور اناطولیہ کے درمیان واقع ایک جسم آب ہے، جسے اسلامی تاریخ کی کتابوں میں بحیرۂ بنطس لکھا گیا ہے۔ بحیرہ اسود دراصل انگریزی نام Black Sea کا عربی ترجمہ ہے۔ یہ سمندر درحقیقت بحر اوقیانوس اور مشرقی یورپ کے درمیان واقع ہے اور بحیرہ روم کے ذریعے اس سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح یہ سمندر آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کے ذریعے بحیرہ روم سے اور آبنائے کرچ کے ذریعے بحیرہ ازوف سے بھی منسلک ہے۔

یہ بحیرہ 4 لاکھ 22 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 2210 میٹر ہے۔ بحیرہ اسود میں گرنے والا سب سے اہم دریا جرمنی سے نکلنے والا دریائے ڈینیوب ہے، جو دس ممالک سے گزرنے کے بعد رومانیہ کے ساحل پر بحیرہ اسود میں جا گرتا ہے۔

بحیرہ اسود کا خلائی منظر

بحیرہ اسود کے ساحلی ممالک میں ترکی، بلغاریہ، رومانیہ، یوکرین، روس اور جارجیا شامل ہیں۔ یوکرین کی خود مختار جمہوریہ کریمیا بھی اسی کے ساحل پر واقع ہے۔

ترکی کا شہر استنبول بحیرہ اسود کے کنارے واقع اہم ترین شہر ہے۔

بحیرہ اسود ایشیا اور یورپ کے درمیان بحیرہ روم کے علاقے کا ایک آبی ذخیرہ ہے۔ بحیرہ اسود بلقان کے شمال، مشرقی یورپی میدان کے جنوب، قفقاز کے مغرب اور اناطولیہ کے شمال میں واقع ہے۔ اس کے اردگرد بلغاریہ، جارجیا، رومانیہ، روس، ترکیہ اور یوکرین واقع ہیں۔ بحیرہ اسود میں کئی بڑے دریا جیسا کہ ڈینیوب، ڈنیپر اور ڈون گرتے ہیں۔ اگرچہ اس بحیرہ کے گرد محض 6 ممالک واقع ہیں مگر اس میں گرنے والے دریا 24 ممالک سے گذر کر آتے ہیں۔

بحیرہ اسود کا کل رقبہ 4،36،400 مربع کلومیٹر (ماسوائے بحیرہ ازوف)، زیادہ سے زیادہ گہرائی 2،212 میٹر جبکہ پانی کی مقدار 5،47،000 مکعب کلومیٹر مانی جاتی ہے۔ زیادہ تر ساحل کافی ڈھلوان ہیں۔ اس کے جنوب میں پونٹیک پہاڑی سلسلہ ہے، مشرق میں کوہ قفقاز، شمال میں کریمیائی پہاڑ اور مغرب میں کوہ بلقان کا سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ سطح مرتفع دوبروجہ کافی شمال میں ہے۔ مشرق سے مغرب زیادہ سے زیادہ لمبائی 1،175 کلومیٹر ہے۔ اس کے ساحل پر واقع اہم شہر بورگس، ورنا، کونسٹاٹا، اوڈیسہ، سواستوپول، نوووروسیسک، سوچی، باتومی، ترابزون اور صامسون ہیں۔

بحیرہ اسود میں پانی کا مثبت بہاؤ ہے اور ہر سال 300 مکعب کلومیٹر پانی اس سے نکل کر باسفورس اور درِ دانیال کے ذریعے بحیرہ ایجیئن کو جاتا ہے۔ عین اسی وقت اس پانی کے نیچے زیادہ کثیف اور زیادہ نمکین پانی بحیرہ ایجیئن سے بحیرہ اسود کو آتا ہے۔ اس طرح گہرے پانی کی ایک ایسی تہ مستقل قائم رہتی ہے جہاں آکیسجن نہیں پائی جاتی اور اسی وجہ سے بحیرہ اسود میں ڈوبنے والے قدیم بحری جہازوں کا ملبہ اچھی حالت میں موجود ہے۔

بحیرہ اسود کا پانی در دانیال، باسفورس اور پھر بحیرہ ایجیئن سے ہوتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ بحیرہ اسود باسفورس کی مدد سے بحیرہ مرمرہ سے جڑا ہے جو آگے درہ دانیال کے واسطے ایجیئن سے جڑتا ہے۔ شمال میں آبنائے کرچ اسے بحیرہ ازوف سے جوڑتی ہے۔

جغرافیائی ادوار میں پانی کی سطح کم و بیش ہوتی رہی ہے۔ اس وجہ سے اس کے بعض کم گہرے حصے کبھی خشکی تو کبھی زیرِ آب ہوتے رہے ہیں۔ جب پانی کی سطح ایک خاص حد سے بلند ہو تو دیگر آبی ذخائر سے اس کا رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک رابطے ترک آبنائے کی وجہ سے بحیرہ اسود کھلے سمندر سے جا ملتا ہے۔ جب ایسا رابطہ نہ ہو تو بحیرہ اسود بحیرہ کیسپیئن کی مانند خشکی سے گھرا رہتا ہے۔ حالیہ دور میں بحیرہ اسود میں پانی کی سطح نسبتاً بلند ہے اور پانی بحیرہ روم سے بدلتا رہتا ہے۔ بحیرہ اسود میں سطح سے نیچے چلنے والا دریا یا بہاؤ نمکین نوعیت کا ہے جو خلیج باسفورس کی طرف سے بہتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا بہاؤ ہے جو دیکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اس میں نقل و حمل کے حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے۔

نام

[ترمیم]

جدید نام

[ترمیم]

موجودہ دور میں اس کے رائج ناموں کا مفہوم سیاہ سمندر یا بحیرہ اسود بنتا ہے۔

سابقہ نام اور وجہ تسمیہ

[ترمیم]

بحیرہ اسود کا قدیم ترین نام جو دریافت ہوا ہے، وہ بحیرہ زالپا ہے جو حتیوں اور پھر ان کے فاتحین ہیتیوں نے دیا تھا۔

یونانی نام کے بارے مانا جاتا ہے کہ یہ ایرانی لفظ "گہری رنگت" سے نکلا ہے۔

اسٹرابو کی کتاب جیوگرافیکا میں بحیرہ اسود کو "سمندر" کہا جاتا تھا۔اس نے یہ بھی لکھا کہ جنوبی ساحل پر آباد پنتوس کے باسی اسے نامہربان سمندر کہتے تھے کہ اس میں کشتی رانی کافی مشکل تھی اور جگہ جگہ بربر قبائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بعد ازاں اسے بدل کر مہربان سمندر کر دیا گیا۔

بحیرہ اسود کو پانی کے گہرے رنگ یا موسمی حالات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے مختلف حصوں کی مختلف رنگت مختلف سمتوں کی نشان دہی کرتی ہے مثال کے طور پر شمال میں سیاہ یا گہرے رنگ کا پانی ہے، جنوبی پانی کا رنگ سرخ، مغرب میں سفید اور مشرق میں سبز یا ہلکا نیلا ہے۔ اس لیے سیاہ سمندر یا بحیرہ اسود شمالی سمندر کو کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ نام شاید شمالی اور جنوبی علاقوں کے درمیان رہنے والے افراد نے دیا ہوگا۔ اُس دور میں یہاں ہخامنشی سلطنت قائم تھی۔

زرتشت مذہب کی کتاب بندھشن کبیر میں بحیرہ اسود کو سیابن کہا جاتا ہے۔ 10ویں صدی میں فارسی کتاب حدود العالم میں اسے دریائے گرز (جارجین سمندر) کہا گیا۔

سلطنت عثمانیہ کے دور میں اسے بحرِ سیاہ کہا جاتا تھا جو فارسی اور عربی سے مشتق ہے۔

جغرافیہ

[ترمیم]

بین الاقوامی آب نگاری تنظیم کے مطابق بحیرہ اسود کی حدود کچھ یوں ہیں:

شمال مغرب میں۔ بحیرہ مرمرہ کی شمال مشرقی حد (خلیج رومیلی اور خلیج اناطولی کو ملانے والی لکیر)۔ خلیج کرچ میں۔ خلیج تاکیل اور خلیک پناگیا کو ملانے والی لکیر۔

بحیرہ اسود کے اردگرد کا علاقہ مجموعی طور پر بحیرہ اسود کا علاقہ کہلاتا ہے۔ اس علاقے کا شمالی حصہ چرنوزم کی پٹی میں آتا ہے جو انتہائی زرخیر مٹی پر مشتمل ہے۔ یہ پٹی مشرقی کروشیا (سلووینیا) سے ہوتی دریائے ڈینیوب کے چلتی ہوئی سربیا، شمالی بلغاریہ، جنوبی رومانیہ، شمال مشرقی یوکرین سے لے کر جنوبی روس میں سائبیریا تک پھیلی ہے۔

ساحل اور خصوصی معاشی علاقے

[ترمیم]
ساحلی پٹی کی لمبائی اور خصوصی اقتصادی زون کا رقبہ
ملک فہرست ممالک بلحاظ ساحلی لمبائی (کلومیٹر)[1] خصوصی اقتصادی علاقہ رقبہ (کلومیٹر2)[2]
 ترکیہ 1,329 172,484
 یوکرین 2,782 132,414
 روس 800 67,351
 بلغاریہ 354 35,132
 جارجیا 310 22,947
 رومانیہ 225 29,756
کل 5,800 460,084

طاس

[ترمیم]

بحیرہ اسود میں گرنے والے سب سے بڑے دریا ڈینیوب، ڈنیئپر اور ڈون ہیں۔


بحیرہ اسود میں گرنے والے دریا 20 لاکھ مربع کلومیٹر کے طاس اور ان ممالک سے گذر کر آتے ہیں:

جزائر

[ترمیم]

بحیرہ اسود میں پائے جانے والے مختلف جزائر بلغاریہ، رومانیہ، ترکی اور یوکرین کی ملکیت ہیں۔

موسم

[ترمیم]

بحیرہ اسود کے علاقے میں عارضی موسمی تبدیلیاں عام ہیں جو شمالی بحر اوقیانوس سے متاثر ہوتی ہیں۔

ارضیات اور باتھی میٹری (زیرِ آب تہ کے خدوخال کا علم)

[ترمیم]

بحیرہ اسود کی دو مختلف تہ ہیں جو مغربی اور مشرقی کہلاتی ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک اونچی رکاوٹ ہے۔ بحیرہ اسود دو حصوں پر مشتمل ہے: مغربی اور مشرقی۔ جزیرہ نما کریمیا سے جزیروں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو بحیرہ اسود کو دو حصوں میں بانٹتا ہے۔

میسینیان عہد میں قریبی بحیرہ روم میں نمکیات کا بحران واقع ہوا اور پانی کی سطح گری مگر بحیرہ روم خشک نہ ہوا۔ یوریشین اور افریقی پلیٹوں کا تصادم ہوا اور اناطولی بلاک شمال کو سرک گیا۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے بحیرہ اسود وقفے وقفے سے دنیا کے سمندری نظام سے منقطع ہوتا رہا۔

بحیرہ اسود کے طاس کے شمالی سرے پر ایک بڑا چھجا ہے جو 190 کلومیٹر چوڑا ہے۔ جنوبی سرا ترکیہ اور مشرقی سرا جارجیا میں واقع ہے مگر ان کی چوڑائی شاید ہی 20 کلومیٹر سے زیادہ ہو۔ اس میں جگہ جگہ کھائیاں واقع ہیں۔ کریمیا کے جزیرہ نما پر یالٹا کے جنوب میں بحیرہ اسود کی انتہائی گہرائی 2،212 میٹر ہے۔

مائیات

[ترمیم]

بحیرہ اسود دنیا میں پانی کا ایسا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جس میں پانی کی مختلف تہیں ایک دوسرے میں حل نہیں ہوتیں۔ بالائی سطح اور گہرائی کا پانی ایک دوسرے میں نہیں گھلتا اور نچلی تہ میں آکسیجن نہیں ہوتی۔اس کا سبب بحیرہ اسود کی تہ کا جغرافیہ ہے۔

بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کا پانی ایک دوسرے کو آتا جاتا ہے اور یہ تبادلہ آبنائے باسفورس اور در دانیال کے راستے ہوتا ہے۔ بحیرہ روم سے آنے والا پانی زیادہ کھارا اور بھاری ہوتا ہے۔ سو بحیرہ اسود میں آنے والا بھاری اور نمکین پانی نیچے سے آتا ہے جبکہ بحیرہ اسود سے بحیرہ مرمرہ کو پانی بالائی تہ سے جاتا ہے۔ گریگ (2002) کی تحقیق کے مطابق 16،000 مکعب میٹر فی سیکنڈ یا 500 مکعب کلومیٹر سالانہ پانی بحیرہ اسود سے باہر جاتا ہے جبکہ آنے والے پانی کی مقدار 11،000 مکعب میٹر فی سیکنڈ یا 350 معکب کلومیٹر سالانہ ہے۔

بحیرہ اسود میں پانی کی آمد و رفت کچھ یوں ہے:

·       آمد: 900 مکعب کلومیٹر سالانہ

o      دریاؤں سے آمد: 370 مکعب کلومیٹر سالانہ

o      بارش اور برف سے آمد: 180 مکعب کلومیٹر سالانہ

o      باسفورس سے آمد: 350 معکب کلومیٹر سالانہ

·       اخراج: 900 مکعب کلومیٹر سالانہ

o      آبی بخارات: 400 مکعب کلومیٹر سالانہ (1970 کی دہائی سے کافی کمی واقع ہو چکی ہے)

o      باسفورس کو اخراج: 500 مکعب کلومیٹر سالانہ

اوسط سطحی گردش سائیکلونک ہے یعنی بحیرہ اسود کا تمام پانی محور پر گردش کرتا ہے جس کی انتہائی رفتار 50 تا 100 سینٹی میٹر فی سیکنڈ ہے۔

سطح سے 50 تا 100 میٹر نیچے نمکین پانی کی تہ ہے جو بالائی اور نچلی تہ کو ملنے سے روکتی ہے۔ یہ تہ سرد اور نمکین پانی سے بنی ہے۔

بحیرہ اسود کے پانی کی تہ میں بہنے والا دریا نمکین پانی کا ہے جو آبنائے باسفورس سے بحیرہ اسود میں داخل ہوتا ہے۔ اس دریا کو یکم اگست 2010 کو یونیورسٹی آف لیڈز کی جانب سے دریافت کیا گیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا دریافت ہونے والا پہلا دریا ہے۔

ہائیڈروکیمسٹری یعنی آبی کیمیا

[ترمیم]

گہرائی میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے نامیاتی مواد اور بحری جہاز وغیرہ کے ڈھانچے اچھی طرح محفوظ رہتے ہیں۔ وقفے وقفے سے مختصر وقت کے لیے الجی کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔ فائٹوپلانکٹن سالانہ بڑھوتری کے دوران ناسا کی کھینچی تصاویر میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے بحری آثار کا شعبہ بحیرہ اسود میں دلچسپی رکھتا ہے کہ قدیم زمانے کے بحری جہازوں کے ڈھانچے محفوظ حالت میں موجود ہیں۔

سائنسی نمونوں سے پتہ چلا ہے کہ اگر بحیرہ اسود میں شہاب ثاقب گرے تو اس سے پیدا ہونے والے ہائیڈروجن سلفائڈ کے بادلوں سے اس کے ساحلی علاقوں کے باشندوں کی صحت اور جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

کئی ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طوفانِ بادوباراں میں جھیل کے کئی حصوں سے شعلے اٹھتے دیکھے گئے تھے۔ شاید آسمانی بجلی گرنے سے پانی سے نکلنے والی آتش گیر گیس کو آگ لگی ہوگی۔

ماحولیات

[ترمیم]

بحری

[ترمیم]

بحیرہ اسود کے کھارے پانی اور غذائی اجزا کی کثرت کی وجہ سے ایسے ماحول میں رہنے والے جانداروں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس میں ماحولیاتی نظام کی مختلف سطحیں کام کرتی ہیں۔ بنیادی سطح پر الجی ہے جس میں ڈائیٹام اور ڈائنوفلیجلیٹس شامل ہیں اور یہ اپنی خوراک خود پیدا کرتے ہیں۔ بحیرہ اسود میں گرنے والے دریا بہت بڑی مقدار میں معدنیات اور غذائی اجزا اپنے ساتھ لاتے ہیں مگر ان اجزا کا پھیلاؤ یکساں نہیں ہوتا۔

سردیوں میں تیز ہواؤں کی وجہ سے معدنیات اور غذائی اجزا اوپر نیچے ہوتے ہیں جبکہ گرمیوں میں بلند درجہ حرارت بھی اپنا اثر ڈالتا ہے۔ دن کی طوالت اور دھوپ کی مقدار بھی ضیائی تالیف والے جانداروں پر اثر ڈالتی ہے۔

حیوانات

[ترمیم]

زیبرا سیپ بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپیئن کی مقامی سیپ ہے۔ اسے حادثاتی طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں متعارف کرایا گیا جہاں اس نے حملہ آور نسل کا درجہ اختیار کر لیا۔

عام کارپ مچھلی کا اصل علاقہ بحیرہ اسود، بحیرہ کیسپیئن اور بحیرہ ارال تک پھیلا ہے۔ زیبرا سیپ کی مانند یہ مچھلی جب دوسرے علاقے میں جاتی ہے تو وہاں حملہ آور شمار ہوتی ہے۔

راؤنڈ گوبی نامی مچھلی بھی بحیرہ کیسپیئن اور بحیرہ اسود کی مقامی مچھلی ہے۔ یہ مچھلی زیبرا سیپ کھاتی ہے۔ جب اسے عظیم امریکی جھیلوں میں متعارف کرایا گیا تو اس نے حملہ آور نسل کا روپ دھار لیا۔

آبی پستانیہ جانوروں میں یہاں بندرگاہی پورپوئس اور دو اقسام کی ڈولفن پائی جاتی ہیں مگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ تینوں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کی نسلوں سے فرق ہیں اور بحیرہ اسود، بحیرہ ازوف اور اکثر رات کے وقت ترک آبناؤں تک محدود ہیں۔ کرائیمیا کے پل کی تعمیر سے یہاں غذائی اجزا کی بہتات ہوئی ہے اور دیگر جانوروں کے علاوہ 1،000 سے زیادہ ڈولفن بھی آ گئی ہیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق اس پل کی تعمیر سے ماحول کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔

بحیرہ روم کی راہب سیل یا سگ ماہی

[ترمیم]

بحیرہ روم کی راہب سگ ماہی کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ سگ ماہی ماضی میں بحیرہ اسود میں عام ملتا تھا مگر 1997 سے بحیرہ اسود کے طاس میں ناپید ہو چکے ہیں۔

سگ ماہی کی کئی اقسام، بحری اودبلاؤ، بیلوگا وھیل وغیرہ کو بحیرہ اسود میں لایا گیا جو بعد میں کسی نہ کسی وجہ سے قید سے نکل بھاگے۔ ان میں سے بھورا سگ ماہی اور بیلوگا وھیل اب یہاں پوری طرح قدم جما چکے ہیں۔

بحیرہ مرمرہ اور آبنائے باسفورس میں عظیم سفید شارک اور درہ دانیال میں باسکنگ شارک بھی دیکھی گئی ہے مگر یہ واضح نہیں کہ یہ شارکیں بحیرہ اسود اور بحیرہ ازوف کے طاس تک بھی جاتی ہیں یا نہیں۔

ماحول پر آلودگی کے اثرات

[ترمیم]

1960 کی دہائی سے بحیرہ اسودکے ساحلوں پر صنعتی ترقی تیز ہو رہی ہے اور یہاں ایک بڑا بند بھی باندھا گیا ہے۔ اس وجہ سے پانی کی کیمیا پر فرق پڑا ہے اور ساحلی علاقوں میں ایک قسم کی فائٹو پلانکٹن کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔اس کا ضمنی اثر یہ ہوا کہ پانی کی گہرائی میں روشنی نہ پہنچنے کے سبب نباتات مرنے لگیں اور پانی میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہو گئی جو بحری جانوروں کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔

بڑی نباتات کی کمی کے علاوہ ضرورت سے زائد ماہی گیری نے بھی نقصان پہنچایا۔ کہیں سلیکا کی کمی ہوئی تو کہیں کیلشیم کی۔ نتیجتاً پانی کی تیزابیت پر فرق پڑا۔

1990 کی دہائی میں یورپی یونین نے ایروس 21 مشق شروع کی جس کی وجہ سے بحیرہ اسود کا ماحول کچھ بہتر ہوا۔ اس دوران نائٹروجن اور فاسفورس کی مقدار میں کمی دیکھنے میں آئی جس کی مقدار 1989 میں سب سے زیادہ تھی۔ سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین کی رکنیت کی شرائط کے تحت آلودہ پانی کی صفائی کے پلانٹ لگائے جس کی وجہ سے بھی بحیرہ اسود میں گرنے والی آلودگی کی مقدار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

تاریخ

[ترمیم]

ہولوسین عہد میں بحیرہ روم کے ساتھ تعلق

[ترمیم]

در دانیال اور باسفورس کی دو آبناؤں کی مدد سے بحیرہ اسود عالمی سمندروں سے جڑا ہے۔ درہ دانیال 55 میٹر گہری اور باسفورس 36 میٹر گہری ہے۔ پچھلے برفانی عہد کے دوران سمندروں کی سطح آج سے تقریباً 100 میٹر نیچے تھی۔

اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ برفانی دور کے بعد بحیرہ اسود میں پانی کی سطح کافی نیچی تھی۔ بعض محققین کے خیال میں بحیرہ اسود اس دور میں خشکی سے گھری میٹھے پانی کی جھیل تھی۔

پچھلے برفانی دور کے بعد بحیرہ اسود اور بحیرہ ایجیئن میں پانی کی سطحیں بڑھتے ہوئے اس حد تک پہنچیں کہ دونوں کا پانی ایک دوسرے سے مل گیا۔ اس بارے حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ بحیرہ اسود پہلے بھرا اور اس کا اضافی پانی باسفورس کے ذریعے بحیرہ روم کو پہنچا۔

سیلابی نظریہ

[ترمیم]

بحیرہ اسود کے سیلاب کے بارے ایک نظریہ موجود ہے کہ 5600 ق م میں بحیرہ روم میں پانی کی مقدار تیزی سے بڑھی اور یہ پانی بحیرہ اسود تک پہنچ گیا۔ یہ نظریہ پہلے دی نیویارک ٹائمز میں دسمبر 1996 میں اور فوراً ایک تعلیمی مجلے میں شائع ہوا۔ ان واقعات کے بارے اتنا اتفاق تو ہے کہ یہ واقعات اسی ترتیب سے پیش آئے مگر ان کے وقوع پزیر ہونے کے دورانیے، تواریخ اور شدت کے بارے اتفاق نہیں پایا جاتا۔ کچھ لوگوں نے اسے ماضی بعید کے عالمگیر سیلاب سے جوڑنے کی کوشش کی۔

آثار قدیمہ

[ترمیم]

بحیرہ اسود پر حیثیون، کاریائی، کولخیس، تراکیان، یونانی، ہخامنشی، کیمری، سکوتی، رومی، بازنطینی، گوتھس، ہن، پنونین، سلاو، وارنگیان، صلیبی، وینیس، جینوا، بلغاریہ، تاتار اور عثمانی ترک قابض رہے۔

ان طاقتووں کی باہمی جنگوں اور بحیرہ اسود کی گہرائی میں آکسیجن نہ ہونے کے سبب یہاں ڈوبنے والے سبھی بحری جہاز اچھی طرح محفوظ رہے ہیں۔ اس وجہ سے ماہرینِ آثار اس علاقے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

تاریخ

[ترمیم]

قدیم دنیا میں بحیرہ اسود کو معروف گزرگاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے مغرب میں بلقان، شمال میں یوریشین سٹیپ (گھاس کے کھلے میدان)، مشرق میں قفقاز اور وسطی ایشیا، جنوب میں ایشیائے کوچک اور میسوپوٹامیہ جبکہ جنوب مغرب میں یونان واقع ہے۔

بحیرہ اسود کے مشرقی سرے پر کولخیس (موجودہ جارجیا) ہے جو قدیم یونان کی معلوم دنیا کا ایک سرا تھا۔

بحیرہ اسود میں یونانی موجودگی کا آغاز 9ویں صدی ق م میں ہوا جب بحیرہ اسود کے جنوبی کنارے پر ان کی آبادیاں قائم ہونے لگیں۔ یہاں اگنے والے غلے کی خاطر دور دراز سے تاجر آنے لگے۔ 500 ق م تک بحیرہ اسود کے سبھی ساحلوں پر یونانی بستیاں آباد ہو چکی تھیں اور سارا بحیرہ اسود بحیرہ روم کے علاقے سے جڑ چکا تھا۔ یونانیوں نے اپنے بانی پولس سے قریبی ثقافتی رابطے برقرار رکھے مگر ان بستیوں نے اپنی یونانی ثقافت بھی بنانا شروع کر دی جسے آج پونٹک یا بنطیون کہا جاتا ہے۔

1479 میں جب جمہوریہ جینوا نے کرایمیائی جزیرہ نما پر اپنا قبضہ کھویا تو پانچ سال میں ہی عثمانی بحریہ نے اس علاقے پر قبضہ جما لیا۔ پھر بحیرہ اسود کریمیا اور عثمانی اناطولیہ کے درمیان غلاموں کی تجارت کا اہم راستہ بن گیا۔

18ویں صدی کے اواخر میں شاہی روس بحیرہ اسود کی اہم بحری طاقت بن گیا اور نووو روسیا اور کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی انتظام کے خلاف شاہی روسی بحیرہ نے کام شروع کیا اور انقلاب فرانس کے بعد عثمانیوں نے برآمدی قوانین نرم کر دیے۔

جدید تاریخ

[ترمیم]

1853 تا 1856 تک جاری رہنے والی جنگِ کریمیا کے دوران فرانسیسی، برطانوی اور روس کے نکولس اول کی بحری افواج کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں۔ 2 مارچ 1855 کو نکولس اول کی وفات کے بعد الیگزنڈر دوم زار بنا۔ 15 جنوری 1856 کو نئے زار نے معاہدہ پیرس (1856) کے تحت انتہائی ہتک آمیز شرائط پر جنگ ختم کر دی اور بحیرہ اسود کو بحیرہ بالٹک کی مانند غیر فوجی علاقہ بنا دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت روس کو بحیرہ اسود پر موجود جنگی بحری جہازوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

عالمی جنگیں

[ترمیم]

بحیرہ اسود پہلی جنگِ عظیم (1914 تا 1918) کے دوران بحری لڑائیوں کا مرکز رہا اور دوسری عالمی جنگ کے دوران 1941 تا 1945 یہاں کئی بحری اور زمینی لڑائیاں لڑی گئیں۔ نازیوں نے سواستوپول تباہ کر دیا۔ سوویت بحری اڈا دنیا کے مضبوط ترین بحری اڈوں میں سے اک تھا۔ اس کے جغرافیہ اور محل وقوع کے باعث خشکی سے اس پر حملہ انتہائی دشوار تھا۔ زیرِ آب چٹانوں کی وجہ سے ساحل پر لنگرانداز ہونا بھی دشوار تھا۔ سوویت بحریہ نے ان فطری دفاعی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر بندرگاہ کو جدید بنایا اور 180 ملی میٹر اور 305 ملی میٹر کی خصوصی بھاری توپیں لگائیں جو خشکی اور سمندر، دونوں جگہ استعمال ہو سکتی تھیں۔ توپوں کے دفاع کے لیے خاص کنکریٹ اور 8ء9 انچ موٹی دھاتی چادریں استعمال کی گئیں۔

21ویں صدی

[ترمیم]

یوکرائن پر روس کے حملے کے دوران جزیرہ سنیک پر لڑائی شروع ہوئی۔ 24 فروری 2022 کو دو روسی جنگی بحری جہازوں نے حملہ کر کے اس جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ پھر یوکرین نے اس پر بھاری بمباری کی۔ 30 جون 2022 کو یوکرین نے جزیرہ واپس لینے کا اعلان کیا۔

6 مئی 2022 کو یوکرین نے روسی جنگی بحری جہاز ماسکووا کو ڈبو دیا۔

29 اپریل 2022 کو روسی آبدوزوں نے کیلیبر کروز مزائلوں سے یوکرینی شہروں پر حملے کیے۔ یہ نئے میزائل اتنے کارگر ثابت ہوئے کہ روسی وزیرِ دفاع شوئیگو نے اعلان کیا کہ ان میزائلوں کو دیگر جنگی جہازوں پر نصب کرنے کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔

14 مارچ 2023 کی صبح کو روسی سو 27 جنگی جہاز نے امریکی ایم کیو 9 ریپر ڈرون کو نقصان پہنچایا اور ڈرون بحیرہ اسود میں گر کر تباہ ہو گیا۔ 5 مئی 2023 کو دن 1:20 بجے روسی سو 35 نے پولستانی ایل 140 ٹربولیٹ کو روکنے کی کوشش کی جو "معمول کی گشت" پر تھا۔ یہ واقعہ رومانیہ کی سرحد سے 60 کلومیٹر دور بین الاقوامی پانیوں میں پیش آیا اور پولش جہاز کا عملہ جہاز پر قابو نہ رکھ سکا اور اس کی بلندی کم ہوئی۔

معیشت اور سیاست

[ترمیم]
یالٹا، کریمیا

بحیرہ اسود ایشیا اور یورپ کے درمیان اٹل رابطہ ہے۔ اس کی بندرگاہوں اور ماہی گیری کے علاوہ یہاں تیل اور قدرتی گیس کی دریافت اور سیاح تکو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔

نیٹو کے مطابق بحیرہ اسود قانونی اور غیر قانونی اشیا (منشیات، تابکار مادوں اور جعلی اشیا) کی  غیر قانونی تجارت (سمگلنگ) کی منتقلی کا اہم راستہ ہے جس کی آمدنی سے دہشت گردی کو فروغ مل سکتا ہے۔

جہازرانی

[ترمیم]

2013 کے ایک مطالعے کے مطابق بحیرہ اسود پر کم از کم 30 تجارتی بندرگاہیں اور 2،400 تجارتی بحری جہاز کام کر رہے ہیں۔

ماہی گیری

[ترمیم]
اماسرا، ترکیہ، بحیرہ اسود میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع ہے۔

ترک تجارتی بحری جہاز ہر سال 3 لاکھ ٹن انچووی قسم کی مچھلی پکڑتے ہیں۔ زیادہ تر ماہی گیری موسم سرما میں ہوتی ہے اور نومبر سے دسمبر کے دوران یہ مچھلی پکڑی جاتی ہے۔

ہائیڈروکاربن کی تلاش

[ترمیم]

1980 کی دہائی میں سوویت یونین نے بحیرہ اسود کے مغربی حصے میں خام تیل کے لیے کنویں کھودنا شروع کیے۔ آزادی کے بعد یوکرین نے اپنے خصوصی معاشی علاقے میں یہ تلاش مزید تیز کر دی اور بین الاقوامی تیل کمپنیوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ بہت بڑے ذخائر کی دریافت کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری بہت بڑھ گئی۔ 2011 میں خصوصی معاشی علاقوں کی حدبندی کی وجہ سے رومانیہ اور یوکرین میں چپقلش پیدا ہو گئی جسے عالمی عدالت نے دور کیا۔

بحیرہ اسود میں پائے جانے والے تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت ابھی نامکمل ہے۔ 2017 تک 20 کنویں کام کر رہے تھے۔ جب سے بحیرہ اسود بنا، اس میں آنے والے گاد اور غذائی اجزا کی کثرت کی وجہ سے یہاں تیل اور گیس کے ذخائر بننے لگے تھے۔ یہ ذخائر ہر جگہ یکساں نہیں اور بلغاریہ کی سرحد کے پاس یہ ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بحیرہ اسود کے مغربی کنارے پر رومانیہ کے قریب کافی زیادہ ذخائر دریافت ہوئے ہیں جبکہ مشرقی سے نہ ہونے کے برابر۔

اگست 2020 میں ترکیہ نے 320 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس دریافت کی جو بحیرہ اسود میں دریافت ہونے والا قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ 2023 میں گیس کی پیداوار شروع ہونے کی توقع ہے۔ اس کے قریب ہی رومانیہ نے بھی قدرتی گیس دریافت کی ہے۔

سیاحت

[ترمیم]

سرد جنگ کے بعد بحیرہ اسود میں سیاحت کی مانگ بہت بڑھی ہے۔

اہم شہر

[ترمیم]

اوڈیسہ (یوکرین)، صامسون (ترکی)، وارنا (بلغاریہ)، کونسٹانٹا (رومانیہ)، سواستوپول (روس اور یوکرین کے درمیان متنازع)، سوچی (روس)، طربزون (ترکیہ)، نوووروسیسک (روس)، برگس (بلغاریہ)، اوردو (ترکیہ)، باتومی (جارجیا)۔

بحیرہ اسود کے ساتھ سب سے زیادہ آبادی والے شہری علاقے
شہر تصویر ملک علاقہ/کاؤنٹی آبادی (شہری)
اودیسہ  یوکرین اودیسا اوبلاست 1,003,705
صامسون  ترکیہ صوبہ صامسون 535,401[3]
وارنا  بلغاریہ وارنا صوبہ 500,076
کونستانتسا  رومانیہ کونستانتسا کاؤنٹی 491,498[4]
سواستوپول متنازع:
 روس (درحقیقت) /
 یوکرین (ازروئے قانون)
روس کے وفاقی شہر /
خصوصی حیثیت شہر
379,200
سوچی  روس کریسنوڈار کرائی 343,334
طربزون  ترکیہ صوبہ طرابزون 305,231[5]
نوووروسیسک  روس کریسنوڈار کرائی 241,952
بورگاس  بلغاریہ بورگاس صوبہ 223,902[6]
اوردو (شہر)  ترکیہ اوردو (شہر) 217,640
باتومی  جارجیا ایجارا 204,156[7]

جدید فوجی استعمال

[ترمیم]

1936 کے مانٹریکس معاہدے کے تحت بحیرہ اسود اور بحیرہ روم میں تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کی اجازت ہے۔ تاہم انھیں ملانے والی آبناؤں پر ترکیہ کو پورا اختیار ہے۔ جنگی جہاز صرف اس صورت میں گذر سکتے ہیں جب وہ بحیرہ اسود کے کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔ دیگر ملکوں کے فوجی جہاز صرف اس صورت میں گذر سکتے ہیں جب وہ ملک ترکیہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں نہ ہو اور انھیں بحیرہ اسود میں محدود مدت تک رکنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 1982 میں مانٹریکس معاہدے میں ترمیم کے بعد اب ترکیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جنگ اور امن، کسی بھی وقت ان آبناؤں میں آمد و رفت کو بند کر سکتا ہے۔

مانٹریکس معاہدہ بحیرہ اسود، بحیرہ روم اور بحیرہ ایجیئن میں بحری جہازوں کی آمد و رفت اور بحیرہ اسود سے ہٹ کر دیگر ممالک کی بحریہ کے جہازوں سے متعلق ہے۔

بحیرہ اسود میں روسی بحری جہازوں کا مرکز سواستوپول ہے۔

7 نومبر 1941 کو جرمن جنگی جہاز نے سوویت طبی جہاز آرمینیا کو ڈبو دیا جو کریمیا سے شہریوں اور زخمی فوجیوں کو منتقل کر رہا تھا۔ اندازہ ہے کہ اس واقعے میں 5،000 سے 7،000 افراد مارے گئے اور اسے مہلک ترین بحری حادثات میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ محض 8 افراد زندہ بچے۔

دسمبر 2018 کو آبنائے کرچ کا واقعہ ہوا جس میں بحیرہ اسود میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے یوکرینی بحری جہازوں پر روسی بحریہ اور ساحلی محافظوں نے قبضہ کر لیا۔

نگار خانہ

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب "Black Sea NGO Network | Our Black Sea"۔ www.bsnn.org
  2. "Sea Around Us | Fisheries, Ecosystems and Biodiversity"۔ University of British Columbia
  3. "Turkish Statistical Institute"۔ Rapor.tuik.gov.tr۔ 2014-01-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-01-14
  4. "Cât a crescut populația în principalele zone metropolitane ale țării în ultimele două decenii"۔ www.analizeeconomice.ro
  5. "Turkish Statistical Institute"۔ Rapor.tuik.gov.tr۔ 2014-01-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-01-14
  6. "Turkish Statistical Institute"۔ Rapor.tuik.gov.tr۔ 2013-03-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-01-14
  7. "Batumi City Hall website"۔ 2015-08-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-08-10