مندرجات کا رخ کریں

المائدہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مائدہ
المائدة
فائل:Almaidah.PNG
مائدہ
دور نزولمدنی
نام کے معنیدسترخوان
زمانۂ نزول6 اور 7 ہجری
اعداد و شمار
عددِ سورت5
عددِ پارہ6 اور 7
تعداد آیات120
الفاظ2,837
حروف11,892
گذشتہالنساء
آئندہالانعام

قرآن مجید کی پانچویں سورت جس میں 120 آیات ہیں۔

نام

اس سورت کا نام پندرہویں رکوع کی آیت ھل یستطیع ربک ان ینزل علینا مآئدۃ من السمآ سے ماخوذ ہے۔ قرآن کی بیشتر سورتوں کے ناموں کی طرح اس نام کو بھی سورت کے موضوع سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ محض دوسری سورتوں سے ممیز کرنے کے لیے اسے علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے

زمانۂ نزول

مزید دیکھیے : المائدہ آیت 3

سورت کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے اور روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد 6 ھ کے اواخر یا کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ ذی القعدہ 6 ہجری کاو اقعہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے۔ مگر کفار قریش نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف آپ کو عمرہ نہ کرنے دیا اور بڑی رد و کد کے بعد یہ بات قبول کی کہ آئندہ سال آپ زیارت کے لیے آسکتے ہیں۔ اس موقع پر ضرورت پیش آئی کہ مسلمانوں کو ایک طرف تو زیارت کعبہ کے لیے سفر کے آداب بتائے جائیں تاکہ آئندہ سال عمرے کا سفر پوری اسلامی شان کے ساتھ ہو سکے اور دوسری طرف انھیں تاکید کی جائے کہ دشمن کافروں نے ان کو عمرے سے روک کو جو زیادتی کی ہے اس کے جواب میں وہ خود کوئی ناروا زیادتی نہ کریں، اس لیے کہ بہت سے کافر قبائل کے حج کا راستہ اسلامی مقبوضات سے گذرتا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ ممکن تھا جس طرح انھیں زیارت کعبہ سے روکا گیا ہے اسی طرح وہ بھی ان کو روک دیں۔ یہی تقریب ہے اس تمہیدی تقریر کی جس سے اس سورت کا آغاز ہوا ہے۔ آگے چل کر تیرہویں رکوع میں پھر اسی مسئلے کو چھیڑا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے رکوع سے چودھویں رکوع تک ایک ہی سلسلۂ تقریر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے مضامین اس سورت میں ہم کو ملتے ہیں وہ بھی سب کے سب اسی دور کے معلوم ہوتے ہیں۔

بیان کے تسلسل سے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ پوری سورت ایک ہی خطبہ پر مشتمل ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ متفرق طور پر اس کی بعض آیتیں بعد میں نازل ہوئی ہوں اور مضمون کی مناسبت سے ان کو اس سورت میں مختلف مقامات پر پیوست کر دیا گیا ہو، لیکن سلسلۂ بیان میں کہیں کوئی خفیف سے خلا بھی محسوس نہیں ہوتا جس سے یہ قیاس کیا جاسکے کہ یہ سورت دو یا تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔

شان نزول

سورہ آل عمران اور سورہ نساء کے زمانۂ نزول سے اس سورت کے نزول تک پہنچتے پہنچتے حالات میں بہت بڑا تغیر واقع ہو چکا تھا۔ یا تو وہ وقت تھا کہ جنگ احد کے صدمے نے مسلمانوں کے لیے مدینے کے قریبی ماحول کو بھی پرخطر بنادیا تھا یا اب یہ وقت آگیا کہ عرب میں اسلام ایک ناقابل شکست طاقت نظر آنے لگا اور اسلامی ریاست ایک طرف نجد تک، دوسری طرف حدود شام تک، تیسری طرف ساحلِ بحیرہ احمر تک اور چوتھی طرف مکہ کے قریب تک پھیل گئی۔ احد میں جو زخم مسلمانوں نے کھایا تھا وہ ان کی ہمتیں توڑنے کی بجائے ان کے عزم کے لیے ایک اور تازیانہ ثابت ہوا۔ وہ زخمی شیر کی طرح بپھر کر اٹھے اور تین سال کی مدت میں انھوں نے نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ان کی مسلسل جدوجہد اور سرفروشیوں کا ثمرہ یہ تھا کہ مدینے کے چاروں طرف ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سو میل تک تمام مخالف قبائل کا زور ٹوٹ گیا۔ مدینہ پر جو یہودی خطرہ منڈلاتا رہتا تھا اس کا ہمیشہ کے لیے استیصال ہو گیا اور حجاز میں دوسرے مقامات پر بھی جہاں جہاں یہودی آباد تھے،سب مدینے کی حکومت کے باجگذار بن گئے۔ اسلام کو دبانے کے لیے قریش نے آخری کوشش غزوۂ خندق کے موقع پر کی اور اس میں وہ سخت ناکام ہوئے۔ اس کے بعد اہل عرب کو اس امر میں کچھ شک نہ رہا کہ اسلام کی یہ تحریک اب کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتی۔ اب اسلام محض ایک عقیدہ و مسلک ہی نہ تھا جس کی حکمرانی صرف دلوں اور دماغوں تک محدود ہو، بلکہ وہ ایک ریاست بھی تھا جس کی حکمرانی عملا اپنے حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کی زندگی پر محیط تھی۔ اب مسلمان اس طاقت کے مالک ہو چکے تھے جس مسلک پر وہ ایمان لائے تھے، بے روک ٹوک اس کے مطابق زندگی بسر کرسکیں اور اس کے سوا کسی دوسرے عقیدہ و مسلک یا قانون کو اپنے دائرۂ حیات میں دخل انداز نہ ہونے دیں۔

پھر ان چند برسوں میں اسلامی اصول اور نقطۂ نظر کے مطابق مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب بن چکی تھی جو زندگی کی تمام تفصیلات میں دوسروں سے الگ اپنی ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ اخلاق، معاشرت، تمدن، ہر چیز میں اب مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیز تھے۔ تمام اسلامی مقبوضات میں مساجد اور نماز باجماعت کا نظم قائم ہو گیا تھا، ہر بستی اور ہر قبیلے میں امام مقرر تھے، اسلامی قوانینِ دیوانی و فوجداری بڑی حد تک تفصیل کے ساتھ بن چکے تھے اور اپنی عدالتوں کے ذریعے نافذ کیے جا رہے تھے۔ لین دین اور خرید و فروخت کے پرانے معاملات بند اور نئے اصلاح شدہ طریقے رائج ہو چکے تھے۔ وراثت کا مستقل ضابطہ بن گیا تھا۔ نکاح اور طلاق کے قوانین، پردۂ شرعی کے احکام اور زنا و قذف کی سزائیں جاری ہونے سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل گئی۔ مسلمانوں کی نشست و برخاست، بول چال، کھانے پینے، وضع قطع اور رہنے سہنے کے طریقے تک اپنی ایک مستقل شکل اختیار کر چکے تھے۔ اسلامی زندگی کی ایسی مکمل صورت گری ہوجانے کے بعد غیر مسلم دنیا اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی کہ یہ لوگ، جن کا اپنا ایک الگ تمدن بن چکا ہے، پھر کبھی ان میں آ ملیں گے۔

صلح حدیبیہ سے پہلے تک مسلمانوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انھیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کوحدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کر دیا۔ اس سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آگیا، بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئی کہ گردو و پیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کو لے کر پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رؤسا کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبائل اور اقوام میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اس کے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔

مباحث

یہ حالات تھے جب سورۂ مائدہ نازل ہوئی۔ یہ سورت حسب ذیل تین بڑے مضامین پر مشتمل ہے :

  1. مسلمانوں کی مذہبی، تمدنی اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات۔ اس سلسلے میں سفر حج کے آداب مقرر کیے گئے، شعائر اللہ کے احترام اور زائرین کعبہ سے عدم تعرض کا حکم دیا گیا، کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کے قطعی حدود قائم کیے گئے اور دورِ جاہلیت کی خود ساختہ بندشوں کو توڑ دیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی، وضو اور غسل اور تیمم کے قاعدے مقرر کیے گئے، بغاوت اور فساد اور سرقہ کی سزائیں متعین کی گئیں، شراب اور جوئے کو قطعی حرام کر دیا گیا، قسم توڑنے کا کفارہ مقرر کیا گیا،اور قانون شہادت میں مزید چند دفعات کا اضافہ کیا گیا۔
  2. مسلمانوں کو نصیحت۔ اب چونکہ مسلمان ایک گروہ بن چکے تھے، ان کے ہاتھ میں طاقت تھی، جس کا نشہ قوموں کے لیے اکثر گمراہی کا سبب بنتا رہا ہے، مظلومی کا دور خاتمے پر تھا اور اس سے زیادہ سخت آزمائش کے دور میں وہ قدم رکھ رہے تھے، اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے بار بار نصیحت کی گئی کہ عدل پر قائم رہیں، اپنے پیش رو اہل کتاب کی روش سے بچیں، اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اور اس کے اسلام کی پیروی کا جو عہد انھوں نے کیا ہے اس پر ثابت قدم رہیں اور یہود و نصاریٰ کی طرح اس کو توڑ کر اس انجام سے دو چار نہ ہوں جس سے وہ دو چار ہوئے۔ اپنے جملہ معاملات کے فیصلوں میں کتاب الٰہی کے پابند رہیں اور منافقت کی روش سے اجتناب کریں۔
  3. یہودیوں اور مسیحیوں کو نصیحت۔ یہودیوں کا زور اب ٹوٹ چکا تھا اور شمالی عرب کی تقریباًً تمام یہودی بستیاں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئی تھیں۔ اس موقع پر ان کو ایک بار پھر ان کے غلط رویے پر متنبہ کیا گیا ہے اور انھیں راہ راست پر آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ نیز چونکہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے عرب اور متصل ممالک کی قوموں میں اسلام کی دعوت پھیلانے کا موقع نکل آیا تھا اس لیے مسیحیوں کو بھی تفصیل کے ساتھ خطاب کرکے ان کے عقائد کی غلطیاں بتائی گئی ہیں اور انھیں نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ہمسایہ ممالک میں سے جو قومیں بت پرست اور مجوسی تھیں ان کو براہ راست خطاب نہیں کیا گیا کیونکہ ان کی ہدایت کے لیے وہ خطبات کافی تھے جو ان کے ہم مسلک مشرکین کو خطاب کرتے ہوئے مکہ میں نازل ہو چکے تھے۔