اسلامی اصطلاحات
Appearance
اسلام کی اصطلاحات اور اس کے مضامین کے روابط ذیل میں ہیں۔
ضروری اصطلاحات
[ترمیم]اجزائے ایمان سے مراد ان عقائد کی ہوتی ہے کہ جن پر کامل اعتقاد اسلام میں ایمان (اللہ پر یقین) کی تکمیل کے لیے ضروری ہوتا ہے، عام طور ان میں چھ اجزا کا ذکر زیادہ ہوتا ہے[13] جن کا تمام مسلمان اقرار کرتے ہیں۔
ایمان باللہ ایمان بالملائکہ ایمان بالکتب ایمان بالرسالت ایمان بالقدر ایمان بالآخرت
فرضِ اعتقادی
[ترمیم]- جودلیلِ حق سچ قرآن مجید سے ثابت ہو (یعنی ایسی دلیل سے جس میں کوئی شبہہ نہ ہو) اس کا انکار کرنے والا ائمہ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے اور اگر اس کی فرضیت دین ِ اسلام کا عام خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو جب تو اس کے منکر کے کفر پر اِجماعِ قطعی ہے ایسا کہ جو اس منکر کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے اور بہرحال جو کسی فرضِ اعتقادی کو بلا عذرِ صحیح شَرْعی قَصْداً ایک بار بھی چھوڑے فاسق و مرتکبِ کبیرہ و مستحقِ عذاب نار ہے جیسے نماز، رکوع، سجود۔عبادت انسان کو بڑای سے روکنے کا ذرییاہ ہے
فرضِ عملی
[ترمیم]- وہ جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو مگر نظرِ مجتہد میں بحکمِ دلائل شَرْعیہ جزم ہے کہ بے اس کے کیے آدمی بری الذمہ نہ ہو گا یہاں تک کہ اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بے اس کے باطل و کالعدم ہوگی۔ اس کا بے وجہ انکارفسق و گمراہی ہے ،ہاں اگر کوئی شخص کہ دلائلِ شَرْعیہ میں نظرکا اہل ہے دلیلِ شَرْعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے۔ جیسے ائمہ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں اور دوسرے نہیں مَثَلاً حنفیہ کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح وُضو میں فرض ہے اور شافعیہ کے نزدیک ایک بال کا اور مالکیہ کے نزدیک پورے سر کا، حنفیہ کے نزدیک وُضو میں بسم اللہ کہنا اور نیت سنت ہے اور حنبلیہ و شافعیہ کے نزدیک فرض اور ان کے سوا اور بہت سی مثالیں ہیں۔ اس فرضِ عملی میں ہر شخص اُسی کی پیروی کرے جس کا مقلّد ہے اپنے امام کے خلاف بلا ضرورتِ شَرْعی دوسرے کی پیروی جائز نہیں۔
واجبِ اعتقادی
[ترمیم]- وہ کہ دلیلِ ظنی سے اس کی ضرورت ثابت ہو۔ فرضِ عملی و واجبِ عملی اسی کی دو قسمیں ہیں اور وہ انھیں دو میں منحصر۔
واجبِ عملی
[ترمیم]- وہ واجبِ اعتقادی کہ بے اس کے کیے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہو مگر غالب ظن اس کی ضرورت پر ہے اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجا لانا درکار ہو تو عبادت بے اس کے ناقص رہے مگر ادا ہو جائے۔ مجتہد دلیلِ شَرْعی سے واجب کا انکار کر سکتا ہے اور کسی واجب کا ایک بار بھی قَصْداً چھوڑنا گناہِ صغیرہ ہے اور چند بار ترک کرنا کبیرہ۔
سنّتِ مؤکَّدہ
[ترمیم]- وہ جس کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو ،البتہ بیانِ جواز کے واسطے کبھی ترک بھی فرمایا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو مگر جانبِ ترک باِلکل مسدود نہ فرمادی ہو، اس کا ترک اساء ت اور کرنا ثواب اور نادراً ترک پر عتاب اور اس کی عادت پر استحقاقِ عذاب ۔
سنّتِ غیر مؤکَّدہ
[ترمیم]- وہ کہ نظرِ شرع میں ایسی مطلوب ہو کہ اس کے ترک کو ناپسند رکھے مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعیدِ عذاب فرمائے عام ازیں کہ محمد نے اس پر مداومت فرمائی یا نہیں ،اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنا اگرچہ عادۃً ہو مو جبِ عتاب نہیں۔
مُستَحب
[ترمیم]- وہ کہ نظرِ شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو، خواہ خود محمد نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے اسلام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں۔
مُباح
[ترمیم]- وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔
حَرامِ قَطعی
[ترمیم]- یہ فرض کا مُقابِل ہے ،اس کا ایک بار بھی قَصْداً کرنا گناہِ کبیرہ و فِسق ہے اور بچنا فرض و ثواب۔
مَکروہ تَحْرِیمی
[ترمیم]- یہ واجب کا مقابل ہے اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔
اِساءَ ت
[ترمیم]- جس کا کرنا بُرا ہو اور نادراً کرنے والا مستحقِ عِتاب اور اِلتزامِ فعل پر استحقاقِ عذاب۔ یہ سنّتِ مؤ کدہ کے مقابل ہے۔
مَکروہِ تَنزِیہی
[ترمیم]- جس کا کرنا شرع کو پسند نہیں مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعیدِ عذاب فرمائے۔ یہ سنّتِ غیر مؤکدہ کے مقابل ہے۔
خِلافِ اَولیٰ
[ترمیم]- وہ کہ نہ کرنا بہتر تھا، کیا توکچھ مضایقہ و عتاب نہیں، یہ مستحب کا مقابل ہے۔[1]
- توحید
- رسول
- نبی
- پیغمبر
نماز
[ترمیم]نمازیں
[ترمیم]- نماز چاشت
- نماز اشراق
- نماز تحیۃ المسجد
- نماز تحیۃ الوضو
- نماز اوابین
- نماز کسوف
- نماز جمعہ
- نماز عید
- نماز جنازہ
- نماز سفر
- نماز غوثیہ
روزہ
[ترمیم]حج و عمرہ
[ترمیم]قرآن
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ بہار شریعت حصہ دوم صفحہ 282مفتی محمد امجد علی اعظمی ناشر مکتبۃ االمدینہ کراچی