ابو سفیان بن حرب
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
ابو سفيان بن حرب | |
---|---|
صخر بن حرب بن اميہ بن عبد شمس | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 565ء [1] مکہ [2] |
وفات | سنہ 640ء (74–75 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | البقيع، المدينة المنورة |
لقب | أبو حنظلة |
زوجہ | صفيہ بنت ابی عاص بن اميہ بن عبد شمس هند بنت عتبة بن ربيعہ بن عبد شمس زينب بنت نوفل بن خلف بن قوالہ عاتكہ بنت ابی ازہیر بن انيس بن خيسق صفيہ بنت ابی عمرو بن اميہ بن عبد شمس امامہ بنت سفيان بن وهب بن الأشيم لبابہ بنت ابی عاص بن اميہ بن عبد شمس |
اولاد | رملہ الكبرى، اميمہ، حنظلہ، معاويہ، عتبہ، جویریہ بنت ابوسفیان، ام الحكم، يزيد، محمد، عنبسہ، عمرو، عمر، صخرہ، ہند، ميمونہ، رملہ الصغرى |
والد | حرب بن امیہ |
بہن/بھائی | |
رشتے دار | اجداد: حرب بن اميہ بن عبد شمس بن عبد مناف والدہ: صفيہ بنت حزن بن بجير بن ہزم بھائی: عمرو بن حرب حارث بن حرب ام جميل بنت حرب اروى بنت حرب |
خاندان | خلافت امویہ |
عملی زندگی | |
نسب | اموی قریشی الكنانی |
تاریخ قبول اسلام | 8ھ (یوم فتح مكہ کو) |
پیشہ | تاجر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ خندق ، غزوہ حنین ، غزوہ طائف ، جنگ یرموک |
درستی - ترمیم |
حضرت ابو سفیان ؓ بن حرب صحابی رسول تھے۔فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو ان کی اعلی و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں الواقدی،محمد بن سائب کلبی،سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں اور ان حضرات پر علما اسما الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام حضرات صحابہ کرام کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔تمام صحابہ کرام کے جنتی ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں
نام ونسب
[ترمیم]صحر نام، ابو سفیان کنیت، نسب نامہ یہ ہے ضحر بن حرب بن امیہ بن شمس بن عبد مناف قرشی اموی، ابو سفیان کا خاندان بنی امیہ قریش کی نہایت مقتدر شاخ تھی اور عقاب یعنی قریش کے قومی نشان کا حامل یہی خاندان تھا، علمدار اسی خاندان کے ارکان بنائے جاتے تھے، ظہور اسلام کے وقت اس عہد ہ پر ابو سفیان ممتاز تھے، جب قریش میں کوئی جنگ چھڑنے والی ہوتی تھی، تو معززینِ قریش جمع ہوکر علمدار کے ہاتھ میں علم دیتے تھے۔ [3]
اسلام سے پہلے
[ترمیم]ظہور اسلام کے وقت اس کی سب سے زیادہ مخالفت انھی لوگوں کی جانب سے عمل میں آئی جو قریش کے سب سے بااثر رئیس تھے اورجن کا اثر واقتدار نسلاً بعد نسل چلا آتا تھا، ابو سفیان بھی رؤسائے قریش کے سب سے بااثر رئیس تھے اور جن کا اثر واقتدار نسلاً بعد نسل چلا آتا تھا، ابو سفیان بھی رؤ سائے قریش میں تھے اور بنی ہاشم کے حریف تھے، اس لیے اسلام اور پیغمبر ﷺ اسلام کے ساتھ انھیں دوہری مخالفت تھی؛چنانچہ وہ آنحضرتﷺ کی ایذارسانی، مسلمانوں کی مخالفت اوراسلام کے استیصال میں سب سے پیش پیش رہتے تھے اسلام کے مٹانے میں انھوں نے اپنی پوری قوتیں صرف کر دیں، آغاز دعوتِ اسلام سے لے کر فتح مکہ تک اسلام کی مخالفت اوراس کی بیخ کنی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا دعوتِ اسلام کے آغاز میں قریش کا جو وفد آنحضرتﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس آپ کی شکایت لے کر گیا تھا اس کے ایک رکن ابو سفیان بھی تھے۔ [4] پھر آنحضرتﷺ کے قتل کرنے کی جو سازش ہوئی تھی، جس کے سبب سے آپ نے ہجرت فرمائی تھی، اس میں بھی ابو سفیان کا ہاتھ شامل تھا، کفر واسلام کا سب سے پہلا مقابلہ بدر میں ہوا، اس میں ابو سفیان نہ شریک ہو سکے، اس وقت وہ کاروان تجارت لے کر گئے ہوئے تھے۔ بدر میں بڑے بڑے معززین قریش مارے گئے تھے، اس لیے سارا قریش جذبۂ انتقام میں دیوانہ ہورہا تھا، ابو جہل اور عتبہ بن ربیعہ مارے جاچکے تھے، ان کے بعد قریش کی مسند ریاست پر ابو سفیان بیٹھے اس لیے بحیثیت سردارِ قوم کے مقتولین بدر کا انتقام ان کا پہلا فرض تھا، اس کے علاوہ خود ان کا ایک لڑکا حنظلہ مارا گیا تھا، اس لیے یہ انتقام اور زیادہ مؤکد ہو گیا تھا اور انھوں نے حلف لے لیا تھا کہ جب تک محمد سے بدر کا انتقام نہ لے لیں گے، اس وقت تک عورتوں کو نہ چھوئیں گے، اس حلف کے بعد دو سو سواروں کا دستہ لے کر مدینہ پہنچے یہاں کے یہود مسلمانوں کے خلاف تھے، اس لیے ابو سفیان ایک یہودی رئیس حی بن اخطب کے پاس گئے، رات کا وقت تھا، گھروں کے دروازے بند ہو چکے تھے، ابو سفیان نے حی کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر اس نے دشمن کے خوف سے نہ کھولا، اس لیے ابو سفیان اس کے دروازہ سے لوٹ آئے اور ایک دوسرے ممتاز یہودی اور بنی نضیر کے سردار اور خزانچی سلام بن مشکم کے پاس پہنچے، اس نے نہایت پر تپاک استقبال کیا اوربڑی خاطر وتواضع کی، کھانا کھلایا، شراب پلائی، اورابو سفیان کی مہم کے متعلق بہت سی راز کی باتیں بتائیں، صبح کو ابو سفیان نے مدینہ کے قریب عریض پر حملہ کرکے کھجور کے باغوں کی ٹٹیاں جلا ڈالیں اور ایک انصاری اوران کے حلیف کو قتل کرکے لوٹ آئے، آنحضرتﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی، تو آپ نے تعاقب کیا، قر قرۃ الکد میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ابو سفیان بہت آگے نکل چکا ہے، اس لیے واپس تشریف لے آئے۔ [5] اس واقعہ سے ایک حد تک ابو سفیان کی قسم پوری ہو گئی، لیکن ابھی مقتولین بدر کا انتقام باقی تھا، اورجن جن لوگوں کے اعزہ واقربا مارے گئے تھے وہ انتقام کے لیے بے چین تھے؛چنانچہ ابو جہل کا لڑکا عکرمہ، عبد اللہ بن ربیعہ، صفوان بن امیہ، اورجن جن لوگوں کے اعزہ واقربا مارے گئے تھے، ابوسفیان کے پاس پہنچے اورکہا آپ لوگ اپنے کارواں تجارت (یہ وہی کارواں تجارت ہے، جو بدر کے زمانہ میں سامانِ تجارت لے کر گیا تھا) کا نفع ہم کو دیدیجئے کہ اس کے ذریعہ ہم لوگ محمدﷺ کے مقابلہ کا سامان کریں، ابو سفیان نے کہا میں اپنا حصہ سب سے پہلے دیتا ہوں اس کے علاوہ قریشی خاندان کے ہر ممبر نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ چند ہ دیا۔ [6] غرض قریش تیاریاں کرکے بڑے سروسامان سے مسلمانوں کے استیصال کے لیے نکلے اور مدینہ کے پاس کوہ احد پر فوجیں اتاریں، آنحضرتﷺ سات سو جان نثاروں کی مختصر جماعت لے کر مدافعت کے لیے تشریف لے گئے، احد پر دونوں کا مقابلہ ہوا، مسلمانوں کی جانفروشی نے کفر کے ٹڈی دل کو پسپا کر دیا، آنحضرتﷺ نے صف بندی کے وقت مسلمانوں کا ایک دستہ پشت پر حفاظت کے لیے متعین کر دیا تھا کہ مخالفین عقب سے حملہ آور نہ ہوسکیں، مشرکین کی پسپائی کو دیکھ کراس دستہ نے مالِ غنیمت کی طمع میں اپنا مرکز چھوڑدیا، خالد بن ولید مشرکین کے دستے کو لیے ہوئے منڈلا رہے تھے، انھوں نے میدان خالی پاکر عقب سے حملہ کر دیا، مسلمان اس ناگہانی حملہ کی تاب نہ لاسکے اور بہت بری طرح پیچھے ہٹے، بہت سے مسلمان اس پسپائی میں شہید ہو گئے، آنحضرتﷺ کا چہرۂ انور زخمی اور دندانِ مبارک شہید ہوئے، آپ کے پاس چند جان نثاروں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہ گیا تھا، ہر شخص اپنی جگہ بد حواس ہورہا تھا، اس لیے آپ کی شہادت کی خبر اُڑ گئی۔ ابو سفیان یہ خبر سنکر فرطِ مسرت سے پہاڑ پر چڑھ گیا، اورفاتحانہ غرور میں باآواز بلند پوچھا محمدﷺ ہیں !آنحضرتﷺ نے لوگو کو منع کر دیا کہ جواب نہ دیا جائے، جب ابو سفیان کے سوال کا کوئی جواب نہ ملا، تو سمجھا نصیب دشمنان محمد ﷺ کا کام تمام ہو گیا، دوسری آواز دی، ابن ابی قحافہ (حضرت ابوبکرؓ) ہیں اس سوال پر بھی کسی نے کوئی جواب نہ دیا، تیسری مرتبہ اس نے حضرت عمرؓ کو پکارا، اس مرتبہ بھی جواب نہ ملا، یہ خاموشی دیکھ کر وہ سمجھا کہ سب ختم ہو گئے، حضرت عمرؓ سے ضبط نہ ہو سکا، آپ پکارا ٹھے، او دشمنِ خدا تیرے رسوا کرنے والوں کو خدا نے زندہ رکھا ہے، یہ سن کر اس نے ہبل کی جے پکاری "اعل ہبل" ہبل بلندرہ ’ صحابہ نے آنحضرتﷺ کے حکم سے جواب میں کہا " اللہ اعلیٰ واجل " خدا برتر اور بڑا ہے، یہ جواب سن کر ابو سفیان بولا، لنا عزی ولا عزی لکم ’ ہمارے پاس ہمارا معبود عزیٰ ہے اور تمھارے پاس نہیں ہے، صحابہؓ نے جواب دیا "اللہ مولنا ولا مولی لکم " خدا ہمارا مولا ہے اور تمھارا کوئی نہیں ہے۔ ابو سفیان کامیابی کے نشہ میں مخمور تھا، بولا آج کا دن بدر کا جواب ہے، لوگوں نے بغیر میرے حکم کے مسلمان لاشوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ لیے ہیں، لیکن مجھے اس کا کوئی افسوس بھی نہیں ہے، بروایت ابن اسحق حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا ہمارے شہداء جنت میں ہیں اور تیرے مقتولین جہنم میں، ابو سفیان نے حضرت عمرؓ کی آواز سنی تو پاس بلا کر پوچھا سچ سچ بتاؤ محمد ﷺ کا کام تمام ہو گیا یا زندہ ہیں؟ آپ نے فرمایا خدا کی قسم زندہ ہیں اور تمھاری گفتگو سن رہے ہیں، یہ سن کر ابو سفیان نے کہا ابن قمہ نے کہا تھا کہ میں نے محمد کا کام تمام کر دیا لیکن میں تم کو اس سے زیادہ سچا سمجھتا ہوں۔ اختتامِ جنگ کے بعد آنحضرتﷺ نے احتیاطا ًقریش کے تعاقب میں ستر آدمی بھیجے تاکہ وہ دوبارہ نہ لوٹ سکیں، دوسرے دن خود بہ نفس نفیس مقام حمرا اسد تک تعاقب میں تشریف لے گئے، آپ کا خطرہ صحیح تھا، ابو سفیان یہ خیال کرکے کہ ابھی مسلمانوں کا پورا استیصال نہیں ہوا ہے، بمقام روحار سے دوبارہ واپسی کا قصد کررہا تھا کہ اس دوران میں قبیلہ خزاعہ کے رئیس معبد سے جو مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر تصدیق کے لیے آیا تھا اوراب واپس جارہا تھا، ملاقات ہوئی، اس سے ابو سفیان نے اپنا خیال ظاہر کیا، اس نے کہا میں ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا چلا آرہا ہوں، محمد ﷺ اس سر وسامان کے ساتھ آ رہے ہیں کہ ان کا مقابلہ سخت دشوار ہے، یہ خبر سن کر ابو سفیان نے ارادہ بدل دیا۔ احد کے بعد یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف تحریک شروع کی ابو سفیان اس میں بھی پورے طور سے معاون ومدد گار تھے، 5ھ میں جب تمام عرب قبائل نے مسلمانوں کے استیصال کے لیے مدینہ پر ہجوم کیا تو قریش بھی ابو سفیان کی قیادت میں جمع ہوئے، لیکن یہ طوفان ہوا کی طرح اڑ گیا، یہی متحدہ اجتماع جنگِ خندق کے نام سے مشہور ہے۔ 6ھ میں جب آنحضرتﷺ نے قرب وجوار کے تمام امرا اورفرمان رواؤں کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط بھیجے، تو ایک خط ہر قل کے نام بھی بھیجا وہ صحیح عیسوی مذہب کا پیرو اور حق کا متلاشی تھا، اس لیے اس نے آنحضرتﷺ کے حالات معلوم کرنے چاہے، اتفاق سے اس وقت قریش کا کاروانِ تجارت شام آیا ہوا تھا، اس میں ابو سفیان بھی تھا، ہر قل نے ا ٓنحضرتﷺ کے حالات دریافت کرنے کے لیے اس قافلہ کو ایلیا طلب کیا اور تمام ارکان سلطنت کے رد بروترجمان کے ذریعہ سے سوالات شروع کیے، سب سے پہلے پوچھا تم میں کون اس شخص سے جو اپنے کو نبی سمجھتا ہے، زیادہ قریبی تعلق رکھتا ہے، ابو سفیان نے اپنے کو پیش کیا کہ میں اس کا قریب تر عزیز ہوں، ہرقل نے اسے قریب بلایا اور دوسرے قریشیوں سے کہا میں اس سے اُ س شخص (آنحضرتﷺ) کے متعلق سوالات کروں گا، جہاں وہ غلط جواب دے تم لوگ فوراً ٹوک دینا، ابو سفیان کا بیان ہے کہ اگر اس وقت مجھ کو اپنے ہمراہیوں کی تردید کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں جھوٹ بول دیتا، اس اہتمام کے ساتھ سوالات وجوابات شروع ہوئے۔ ہرقل: قریش میں اس شخص کا نسب کیسا ہے؟ ابو سفیان: قریش کا عالی نسب آدمی ہے ؟ ہرقل: اس سے پہلے تم میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ ابو سفیان: نہیں ہرقل: شرفاء ومعززین اس کے پیرو ہیں یا کمزور وناتوان؟ ابو سفیان: ناتوان وکمزور ہرقل: ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے یا گھٹتی ہے۔ ابو سفیان: بڑھتی جاتی ہے۔ ہرقل: کوئی شخص اس مذہب کو قبول کرنے کے بعد اس سے بیزار ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے؟ ابو سفیان: نہیں ہرقل: کبھی اس نے دھوکا اورفریب دیا ہے۔ ابو سفیان: نہیں البتہ اس دوران میں حال معلوم نہیں، (ابو سفیان کا بیان ہے کہ اس سوال کے علاوہ اورکسی میں مجھے اپنی طرف سے ملانے کا موقع نہیں ملا) ہرقل: اس شخص سے اورتم لوگوں سے کبھی کوئی جنگ بھی ہوئی ہے۔ ابو سفیان: ہاں ہرقل: اس کا کیا نتیجہ رہا ابوسفیان: کبھی ہم غالب رہے اورکبھی وہ ہرقل: وہ تم کو کسی چیز کا حکم دیتا ہے۔ ابو سفیان: وہ کہتا ہے، تنہا خدائے واحد کی عبادت کرو، اس میں کسی کو شریک نہ کرو اوراپنے اٰباواجداد کے مذہب کو چھوڑدو، نماز پڑھو، خیرات کرو، صلہ رحمی کرو، پاک دامن رہو۔ اس گفتگو کے بعد ہرقل کو آنحضرتﷺ کی صداقت اورآپ کی نبوت کا پورا یقین ہو گیا اوراس نے بطارقہ کے سامنے علی الاعلان آپ کی رسالت کا اعتراف کیا۔ [7] بنی خزاعہ اوربنی بکر کے قبائل مدتوں سے حریف چلے آ رہے تھے، لیکن اسلام کے مقابلہ میں دونوں متحد ہو گئے تھے، صلح حدیبیہ کے زمانہ میں بنی خزاعہ مسلمانوں کے اور بنی بکر قریش کے حلیف ہو گئے ہیں متضاد تحائف نے پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا، اوربنی بکر نے عین حرم میں بنی خزاعہ پر حملہ کر کے انھیں قتل کیا، بنی خزاعہ کے ارکان آنحضرتﷺ کے پاس فریاد لے کر پہنچے، بنی خزاعہ آپ کے حلیف تھے، اس لیے صلحِ حدیبیہ کی رو سے ان پر قریش یا ان کا کوئی حلیف حملہ نہیں کرسکتا تھا؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے قریش کے پاس ضمرہ کو یہ پیام دیکر بھیجا کہ یا بنی خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے یا قریش ان کی حمایت سے الگ ہو جائیں ورنہ اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا، یہ شرائط سن کر قزط بن عمر نے کہا ہم کو تیسری صورت منظور ہے ضمرہ نے آکر آنحضرتﷺ کو یہ جواب سنادیا، قرظ نے یہ جواب تو دیا، لیکن بعد میں جب قریش نے اس جواب اوراس کے نتائج پر غور کیا، تو بہت نادم ہوئے اوراسی وقت ابو سفیان کو حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کے لیے مدینہ بھیجا، انھوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں جاکر کہا کہ ہم حدیبیہ کے موقع پر موجود نہ تھے، اس لیے چاہتے ہیں کہ تم دوبارہ ہمارے سامنے اس معاہدہ کی تجدید کردو، اوراس کی مدت میں بھی اضافہ کردو، آپ نے پوچھا کیا تم مخصوص اسی کے واسطے آئے ہو، انھوں نے کہا ہاں فرمایا اس درمیان میں کوئی جدید واقعہ تو نہیں پیش آیا، ابو سفیان نے کہا پنا بخدا ہم لوگ سابق معاہدہ پر قائم ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی، آنحضرتﷺ اصل حقیقت سے واقف تھے، اس لیے تجدید معاہدہ پر راضی نہ ہوئے ؛لیکن ابو سفیان کسی نہ کسی طرح قریش کی غلطی کی تلافی چاہتا تھا، اس لیے آنحضرتﷺ سے جواب پانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو درمیان میں ڈالنا چاہا، لیکن ان دونوں بزرگوں نے انکار کیا، ان کے انکار کے بعد وہ حضرت فاطمہؓ کے پاس گیا اوران سے کہا اگر اس وقت حسن درمیان میں پڑ کر محمد ﷺ سے کہدے تو ہمیشہ کے لیے عرب کا سردار کہلائیگا، لیکن اس پر فاطمہ زہراؓ رضا مند نہ ہوئیں، ان سب سے مایوس ہوکر مہاجرین وانصار کے پاس جاکر کہا، لیکن سب نے صاف انکار کر دیا، ہر جگہ مایوسی ہونے کے بعد آخر میں حضرت علیؓ کے مشورہ سے مسجد نبویﷺ میں کھڑے ہوکر خود سے تجدید معاہدہ کا اعلان کرکے مکہ لوٹ گیا۔ [8]
فتح مکہ
[ترمیم]8ھ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تطہیر کعبہ کے لیے مکہ پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو گو اسے مخفی رکھنے کا اہتمام کیا تھا مگر مکہ میں آپ کی آمد کی خبریں پہنچ گئیں اس وقت وہ مشرکین اور جبابرۂ قریش جنھوں نے آپ کو نہایت بے کسی کی حالت میں اس ارض مقدس سے جلا وطن کیا تھا، اپنے انجام سے بہت گھبرائے کہ اب اسلام کے سیلاب کو روکنا ان کے بس سے باہر ہو چکا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کے قریب پہنچ کر مرظہران میں قیام فرمایا، ابو سفیان، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء تحقیقات کے لیے نکلے تھے دور سے دیکھا کہ مرظہران کا میدان رات کی تاریکی میں روشنی کی کثرت سے وادیِ ایمن بنا ہوا ہے، ابوسفیان نے کہا یہاں عرفہ کی جیسی روشنی کیسے ہو رہی ہے، بدیل نے کہا بنی عمرو آگ روشن کیے ہیں ابو سفیان نے اعتراض کیا کہ ان کی تعداد اتنی کہاں ہے۔ [9] گو قریش نے مسلمانوں پر بڑی ستم آرائیاں کی تھیں، پھر بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اکثر اکابر صحابہ کے ہم خاندان تھے اور ان میں ان کے اعزۂ واقربا بھی موجود تھے، اس لیے حضرت عباس کے دل میں خیال آیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ میں داخل ہو گئے اور قریش نے پہلے سے جان و مال کی امان نہ لے لی تو سب تباہ ہو جائیں گے؛ چنانچہ وہ اس تلاش میں نکلے کہ اگر مکہ جانے والا کوئی آدمی مل جائے تو اس کی زبانی قریش سے کہا بھیجیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرظہران تک پہنچ چکے ہیں وہ لوگ آ کر جان بخشی کرا لیں، اتفاق سے حضرت عباس اسی سمت گئے، جدھر ابو سفیان اور بدیل تھے، ابو سفیان کی آواز سن کر حضرت عباس نے اس کو پکارا اس نے آواز پہچان کر کہا ابو الفضل! حضرت عباس نے فرمایا، ہاں میں ہوں، ابو سفیان بولا میرے ماں باپ فدا ہوں تم یہاں کہاں، فرمایا رسول اللہ اور مسلمان آ گئے ہیں، ابو سفیان نے سراسیمہ ہوکر کہا پھر کوئی تدبیر بتاؤ، حضرت عباس نے ان کے ساتھیوں کو لوٹا دیا اورانہیں عفوِ تقصیر کے لیے اپنے ساتھ سوار کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے چلے۔ [10] حضرت عباس، ابو سفیان کو لے تو چلے، مگر وہ اشتہاری مجرم تھا اور تمام مسلمان اس سے خوار کھاتے تھے، روشنی کی کثرت مزید بھی راز فاش کیے دیتی تھی، قدم قدم پر لوگ سوال کرتے کہ یہ کون ہے؟ لیکن پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اونٹ اور حضرت عباس کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ہیں، حضرت عباس لوگوں کی نظریں بچاتے ہوئے آ رہے تھے، لیکن وہ حضرت عمر کی فرودگاہ کے سامنے سے گذرے تو انھوں نے ابو سفیان کو پہچان لیا اور جوشِ غضب میں بے تاب ہو کر چلائے: او دشمنِ خدا! خدا کا شکر ہے کہ اس نے بلا کسی عہد و پیمان اور ذمہ داری کے تجھ پر قابو دے دیا، مگر حضرت عباس ساتھ تھے، اس لیے حضرت عمرؓ سیدھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں گئے، لیکن حضرت عباس ان سے پہلے پہنچ چکے تھے، حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ ابو سفیان ہے، خدانے اس کو بغیر کسی عہد وپیمان کے ہمارے حوالہ کر دیا ہے، اجازت دیجئے کہ اس دشمن خدا کی گردن اڑا دوں، حضرت عباس نے فرمایا یا رسول اللہ میں نے ان کو امان دیدی ہے، ابو سفیان کا سر پکڑ کے بیٹھ گئے، حضرت عمر برابر ابو سفیان کے قتل پر مصر تھے، ان کا اصرار دیکھ کر حضرت عباس نے فرمایا اے عمر! اگر تمھارے قبیلہ کا کوئی شخص ہوتا تو تم ہرگز اتنا اصرار نہ کرتے، لیکن تم کو بنی عبد مناف کی کیا پروا، حضرت عمر نے اس طنز کے جواب میں کہا عباس ! خدا کی قسم مجھ کو تمھارے اسلام کی اتنی خوشی ہوئی کہ اپنے باپ خطاب کے اسلام لانے سے نہ ہوتی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا، اس وقت انھیں لے جا کر اپنے پاس سلاؤ، صبح کو فیصلہ کیا جائے گا۔ [11] اس ارشاد پر حضرت عباسؓ ابو سفیان کو ساتھ لے گئے، رات بھر پاس رکھا اور صبح کو حسب ہدایت بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں لاکر حاضر کیا، اس وقت اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خون کا پیاسا، جس نے آپ کی تحقیر و تذلیل اور جان لینے تک میں کوئی تامل نہ کیا تھا، مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی تھیں، اسلام کے استیصال میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا، بے کس وناچار اور بے حامی و مدد گار بارگاہ رسالت میں حاضر تھا اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دامن عفو وکرم کے علاوہ دنیا میں اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی،
قبول اسلام
[ترمیم]بار گاہ رسالت سے اس سنگین مجرم کے لیے قتل کی سزا نہیں تجویز ہوتی، قید خانہ کی چار دیواری میں بند نہیں کیا جاتا، جِلائے وطن کا حکم نہیں ملتا، بلکہ و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین کی عملی تفسیر ہوتی ہے، فرماتے ہیں ابو سفیان افسوس کا مقام ہے کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ خدا کی وحدانیت کا اقرار کرو، اس سوال پر وہ زبان جو معلوم نہیں کتنی مرتبہ رسول اللہ کے دل پر تیر و نشتر لگا چکی تھی، یوں گویا ہوتی ہے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کتنے بڑے شریف اور کتنے بڑے صلہ رحم کرنے والے ہیں، خدا کی قسم اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا، تو آج میرے کام نہ آتا، پھر ارشاد ہوتا ہے، ابو سفیان تمھاری حالت قابل افسوس ہے، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم مجھے خدا کا رسول مانو "جاہلی حمیت اور قومی عصبیت اب بھی اعترافِ رسالت کی اجازت نہیں دیتی، جواب ملتا ہے، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کس قدر حلیم، کس قدر شریف اور کس قدر صلہ رحمی کرنے والے ہیں خدا کی قسم ابھی تک مجھ کو اس میں شک ہے، حضرت عباس یہ جاہلی حمیت سن کر ڈانٹتے ہیں، "ابو سفیان اس سے پہلے کہ سر تن سے جدا ہو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ لو، حضرت عباس کی ڈانٹ پر ابو سفیان کلمۂ توحید پڑہتے ہیں اور وہ سرکش جو جاہلی رعونت سے خدا کے سامنے بھی نہ جھکنا تھا، آستانِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر خم ہو جاتا ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام:2/235، یہ واقعہ بخاری میں بھی ہے، لیکن نہایت مختصر ہے) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف ابو سفیان کی جان بخشی کا اعلان فرماتے ہیں ؛بلکہ ان کے اس گھر کو جس میں بارہا مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو چکی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کے مشورے ہو چکے تھے، "من دخل دار ابی سفیان فہو امن" کے اعلان کرم سے بیت الامن قرار دیتے ہیں۔[12] قبولِ اسلام کے بعد جب حضرت عباس ان کو لے کر لوٹنے لگے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لیجا کر کھڑا کر دو کہ افواج الہیٰ کا جلال اور مسلمانوں کی شوکت و عظمت کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، اس ارشاد پر حضرت عباس نے انھیں لیجا کر کھڑا کر دیا، تھوڑی دیر کے بعد دریائے اسلام میں تلاطم پیدا ہوا، ہر قبیلہ کے پرچم گذرنے لگے، پہلے غفار کا پرچم نظر آیا، پھر جہینہ ندیم اور سلیم یکے باد دیگرے ہتھیاروں میں ڈوبے تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے گذرے سب سے آخر میں انصار کا قبیلہ اس شان سے پرچم لہراتا ہوا نکلا کہ ابو سفیان متحیر ہو گئے اور پوچھا یہ پرچم کس کا ہے، حضرت عباس نے نام بتایا، دفعۃً سردارِ فوج حضرت سعد بن عبادہ ہاتھ میں علم لیے ہوئے برابر سے گذرے، ابو سفیان کو دیکھ کر پکار اُٹھے۔ الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الکعبۃ، آج گھمسان کا دن ہے، آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔ ابو سفیان گھبرا گئے اور حضرت عباسؓ سے کہا آج میری حفاظت تمھارے اوپر فرض ہے۔ سب سے آخر میں کوکبۂ رسالت نمودار ہوا، حضرت زبیر بن عوام کے ہاتھوں میں علم تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابو سفیان کے قریب سے گذرے اور جمال مبارک پر ان کی نظر پڑی، تو با آواز بلند پکار کر کہا، آپ کو معلوم ہے، ابھی سعد بن عبادہ کیا کہہ گئے ہیں، پوچھا کیا کہا؟ ابو سفیان نے بتایا، ارشاد فرمایا غلط ہے، آج کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج اس پر غلاف چڑھایا جائے گا۔ [13]
غزوات
[ترمیم]قبولِ اسلام کے بعد ابو سفیان سب سے اول غزوۂ حنین میں شریک ہوئے، آنحضرتﷺ نے حنین کے مالِ غنیمت سے انھیں سو اونٹ مرحمت فرمائے، حنین کے بعد طائف کے محاصرہ میں شرکت کی، جب طائف کے محصورین مسلمانوں پر لوہے کی گرم سلاخیں برسانے لگے، تو اس کے جواب میں مسلمانوں نے ان کی انگور کی ٹیٹوں کو نذر آتش کرنا شروع کیا قریش کی بہت سی لڑکیاں قبیلہ ثقیف میں بیاہی ہوئی تھیں، خود ابو سفیان کی لڑکی آمنہ عروہ بن مسعود ثقفی کے عقد میں تھی، اس لیے ابو سفیان اور مغیرہ بن شعبہ ثقیف سے گفتگو کرنے کے لیے گئے، جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس لیے عورتوں نے گرفتاری کے خوف سے ملنے سے انکار کر دیا، ابن الاسود ثقفی اپنے قبیلہ کے نہایت متمول شخص تھے، انھوں نے آکر کہا کہ اگر محمدﷺ نے ہمارے سر سبز اور شاداب باغوں کو تاراج کر دیا، تو پھر وہ کبھی آباد نہ ہوسکیں گے، اس لیے تم دونوں جاکر میرے لیے انھیں خدا اور صلہ رحمی کے واسطہ سے چھوڑ دینا چاہیے، آنحضرتﷺ نے ان کی درخواست منظور کرلی [14] اس غزوہ میں ابو سفیان کی ایک آنکھ جاتی رہی اورجہاد فی سبیل اللہ کا پہلا تمغا ملا۔ [15] طایف کے بعد مغیرہ بن شعبہ کے ساتھ بنی ثقیف کا صنم کدہ ڈھانے پر مامور ہوئے [16] ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجران کا عامل بھی بنایا تھا اور آپ کی وفات کے وقت وہ یہیں تھے، لیکن واقدی اس کا منکر ہے۔ [17]
جنگ یرموک میں شرکت
[ترمیم]حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں شام کی فوج کشی میں اپنے پورے کنبہ کو لے کر شریک ہوئے، خود یہ ان کے بیٹے یزید، معاویہ اوران کی بیوی ہندہ سب شریک تھے، یرموک کی جنگ میں انھوں نے بڑا نمایاں حصہ لیا، جب مسلمانوں پر رومیوں کا ریلا زیادہ ہوا، تو ابو سفیان بارگاہ ایزدی میں فتح ونصرت کی دعا کرتے جاتے تھے اور مسلمانون کو ابھارتے جاتے تھے کہ، اللہ اللہ تم لوگ عرب کا ہالہ اس کا خلاصہ اوراسلام کے دست وبازو ہو اور تمھارے حریف روم کا ہالہ، اس کا خلاصہ اور مشرکین کے مددگار ہیں، خدایا آج کا دن تیرا دن ہے، اپنے عاجز بندوں کی مدد فرما، [18] ان کی بیوی ہندہ مردانہ ہمت کے ساتھ مسلمانوں کو للکارتی تھیں کہ مسلمانو! غیر مختونوں کو لینا [19] اس غزوہ میں ابو سفیان کی دوسری آنکھ بھی جاتی رہی اور وہ خدا کی راہ میں ظاہری بینائی سے محروم ہو گئے۔
وفات
[ترمیم]حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت 31 سے لے کر 34 تک کسی 34ھ (640ء) میں وفات پائی اس وقت اٹھاسی سال کی عمر تھی، حضرت عثمان نے نماز جنازہ پڑھائی، بعض روایتوں کے مطابق خود امیر معاویہ نے نماز پڑھائی تھی۔
حلیہ
[ترمیم]حلیہ یہ تھا قد بلند وبالا، سر بڑا رنگ گندم گوں، دونوں آنکھیں راہ خدا میں جاتی رہی تھیں، اس لیے غلام کے سہارے چلتے تھے۔
اولاد
[ترمیم]اولاد میں یزید اور معاویہ رض دونامور بیٹے تھے، دونوں نے تاریخ اسلام میں بڑا نام پیدا کیا، یزید نے شام کی فتوحات میں کارہا ئے نمایاں کیے اورامیر معاویہ رض تاریخ اسلام کے مشہور بادشاہ ہوئے، کہا جاتا ہے کہ مشہور اموی عامل عبید اللہ کا باپ زیاد ابو سفیان رض کی زمانہ جاہلیت کی ناجائز اولاد تھا۔
ذریعۂ معاش
[ترمیم]ابو سفیان قریش کے رئیس تھے، ان کا تجارتی کاروبار نہایت وسیع پیمانہ پر تھا، ان کا تجارتی مال شام تک جاتا تھا۔
ایک ضروری بحث
[ترمیم]کچھ بنی امیہ اوربنی ہاشم کی خاندانی چشمک اورکچھ ابو سفیان کے قبل از اسلام کے کارناموں نے ان کے متعلق عجیب و غریب روایتیں مشہور کردی ہیں کہ وہ دل سے کبھی مسلمان نہیں ہوئے، فتح مکہ میں محض جان کے خوف سے اسلام قبول کر لیا تھا، لیکن ان کے دل میں کبھی اسلام راسخ نہیں ہوا اوران کی زندگی شروع سے آخر تک منافقانہ رہی اور ان کے نفاق کے ثبوت میں بعض واقعات بھی بیان کیے جاتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ مشہور واقعہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہوئے، تو ابو سفیان نے حضرت علیؓ کے پاس جاکر کہا کہ قریش کا سب سے کمزور گھرانا تمھارے ہوتے ہوئے، خلافت پر قابض ہو گیا، اگر تم کہو تو میں پیادوں اور سواروں کا دریا بہادوں، حضرت علیؓ نے فرمایا تم ہمیشہ اسلام کے دشمن رہے، لیکن تمھاری دشمنی اس کو ذرہ برابر بھی نقصان نہ پہنچا سکی، ہم لوگ ابو بکرؓ کو خلافت کا اہل سمجھتے ہیں، اس کے بعد جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے، تو ان سے آکر کہا بنی تمیم اور بنی عدی کے بعد اب تمھارے ہاتھوں میں خلافت آئی اس لیے بنی امیہ کو بڑھانا چاہیے، لیکن حضرت عثمانؓ نے ڈانٹ کر خاموش کر دیا۔ اولاً تو اس قسم کے جس قدر واقعات ہیں کوئی بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتے چنانچہ علامہ ابن عبد البر ان واقعات کے متعلق لکھتے ہیں "لم اخبار من نحو ھذا رویۃ یعنی ابو سفیان کے متعلق اس قسم کے جس قدر واقعات ہیں، وہ لغو اور مہمل ہیں [20] صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں فقل عنہ من ھذا لجنس اشیاء کثیرۃ لا تثت یعنی ابو سفیان کے اس قبیل کے بہت سے واقعات بیان کیے جاتے ہیں مگر کوئی بھی ثابت نہیں ہیں۔ لیکن بالفرض اگر اس قسم کے واقعات کو صحیح بھی مان لیا جائے، تو ان سے ان کی اسلام دشمنی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ سے زیادہ ان کی خاندانی عصبیت کا ثبوت ملتا ہے اور اس سے انکار نہیں کہ بنی امیہ میں خاندانی تعصب موجود تھا، قبول اسلام سے پہلے ابو سفیان کی اسلام دشمنی کے بارہ میں جو کچھ بھی کہا جائے، سب صحیح ہے، لیکن قبول اسلام کے بعد ان کی زندگی کے واقعات خود ان کے مومن کامل ہونے کا ثبوت ہیں، طائف میں ایک آنکھ کھوئی شام کی لڑائیوں میں مع بیوی بچوں کے شریک ہوئے اور دوسری آنکھ بھی نذر کی۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ عنوان : Абу Суфьян ибн Харб — اقتباس: Родился в Мекке приблизительно за 57 лет до хиджры (ок. 565 г.) в богатой и влиятельной семье.
- ↑ عنوان : Абу Суфьян ибн Харб
- ↑ (اسد الغابہ:5/316)
- ↑ (سیرۃ ابن ہشام :1/138)
- ↑ (سیرت ابن ہشام:1/426)
- ↑ (سیرت ابن ہشام، جلد1،صفحہ436،وابن سعد حصہ مغازی :25)
- ↑ (بخاری)
- ↑ (زرقانی:2/332،338 ملحضاً)
- ↑ (بخاری کتاب المغازی غزوۂ فتح)
- ↑ (ابو داؤد کتاب الخراج والامارہ باب ماجاء فی فتح مکہ)
- ↑ (سیرۃ ابن ہشام :2/233،234)
- ↑ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب فتح مکہ
- ↑ (بخاری کتاب المغازی باب ابن رکز النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الرایہ یوم الفتح)
- ↑ (سیرت ابن ہشام:2/292،293)
- ↑ (استیعاب:2/710)
- ↑ (سیرۃ ابن ہشام:2/239)
- ↑ (استیعاب :2/710)
- ↑ (اسد الغابہ :212)
- ↑ (فتوح البلدان بلاذری:142)
- ↑ (استیعاب :2/710)