ابو القاسم خوئی
ابو القاسم خوئی | |
---|---|
(عربی میں: أبو القاسم الخوئي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 نومبر 1899ء [1] خوی |
وفات | 8 اگست 1992ء (93 سال)[1][2][3] کوفہ |
شہریت | دولت علیہ ایران (1899–1925) عراق |
مذہب | اسلام [4]، شیعہ اثنا عشریہ [4] |
اولاد | محمد تقی خوئی ، عبد المجید خوئی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | حوزہ علمیہ نجف |
نمایاں شاگرد | سیستانی |
پیشہ | الٰہیات دان ، فقیہ ، مفسر قرآن ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
کارہائے نمایاں | البیان فی تفسیر القرآن |
تحریک | اصولی (اہل تشیع) [4] |
درستی - ترمیم |
سید ابو القاسم موسوی خوئی (ولادت 29 نومبر 1899ء، مقام ولادت: ایران، شہر خوی – وفات: 8 اگست 1992ء، مقام وفات: نجف اشرف، اپنے زمانے کے نمایاں ترین شیعہ فقہا اور مراجع تقلید میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے نجف اشرف کے بڑے اساتذہ سے فیض حاصل کیا اور خود بھی نمایاں شاگردوں کی تربیت کی اور ان کے بعد کی نسل کے بہت سے مراجع تقلید ان کے شاگرد ہیں۔ آپ حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم بھی تھے۔ آیت اللہ سید علی السیتانی آپ کے معروف شاگرد اور جانشین بھی ہے۔
وہ حوزات علمیہ میں رائج بہت سے اسلامی علوم میں معدودے چند بے مثل اساتذہ میں شمار ہوتے تھے اور ان کی فقہی، اصولی، رجالی اور تفسیری آراء حوزات علمیہ کی مقبول ترین آراء سمجھی جاتی ہیں۔ حوزہ میں کوئی بھی تدریسی مسند ان کی آراء سے بے اعتناء نہیں ہو سکتی۔
علوم اسلامی کے بہت سے موضوعات میں انھوں نے گرانقدر آثار تخلیق کیے ہیں جن میں البیان فی تفسیر القرآن اور معجم رجال الحدیث بہت زیادہ نمایاں اور مشہور ہیں۔ دنیا بھر کے کروڑوں شیعہ عرصۂ دراز تک ان کی تقلید کرتے رہے ہیں اور انھوں نے دنیا بھر میں اسلام کی ترویج کی طرف اپنی خاص توجہ کی بنا پر بہت سے ممالک میں بہت سے علمی و تربیتی مراکز یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں۔
ولادت اور نسب
[ترمیم]سید ابو القاسم خوئی نے 15 رجب سنہ 1317ہجری کو ایران کے صوبہ مغربی آذربائیجان کے شہر خوی میں ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا سلسلۂ نسب امام موسی کاظم(ع) تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد سید علی اکبر خوئی نامی گرامی عالم اور شیخ عبداللہ مامقانی کے شاگرد تھے۔ وہ حصول علم کے بعد اپنے آبائی وطن واپس لوٹ گئے اور وہیں اپنے دینی اور علمی فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد خوی کو نجف اشرف میں سکونت اختیار کرنے کی غرض سے ترک کر دیا۔[5]
فرزند
[ترمیم]وہ سید خوئی کے بڑے فرزند تھے جنھوں نے اپنی بیشتر عمر اپنے والد کی مرجعیت کے معاملات کے انتظام و انصرام میں گزار دی۔ وہ سرطان کے مہلک بیماری میں مبتلا ہوکر علاج معالجے کے لیے تہران آئے اور 1984ء میں دنیا سے رحلت کر گئے اور قم میں حرم حضرت معصومہ(س) میں سپرد خاک کیے گئے۔ ان کے آثار میں شرح کفایۃ الاصول، بحث فی الفلسفة و علم الکلام، توضیح المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، شرح دیوان متنبی، فارسی میں ایک دیوان شعر اور۔.۔[6]
- سید عباس خوئی:
- سید علی خوئی: وہ 1344 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ 1388 ہجری میں وفات پاکر نجف میں ہی مدفون ہوئے۔
- سيد عبد الصاحب خوئى
- سید محمد تقی خوئی: وہ سنہ 1378 ہجری میں پیدا ہوئے۔ علمی مراحل طے کرنے کے بعد تدریس میں مصروف ہوئے۔ 1989ء میں آیت اللہ خوئی فاؤنڈیشن ۔[7] کی تاسیس پر انھیں اس فاؤنڈیشن کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا اور وہ بعثی نظام حکومت کے خلاف شروع ہونے والی انتفاضۂ شعبانیہ (شعبان 1412ہجری) شروع ہوئی تو وہ والد کے حکم پر آزاد ہونے والے علاقوں کے لیے تشکیل شدہ بورڈ کے رکن بنے؛ انتفاضہ کو کچلے جانے اور شیعیان عراق کے قتل عام کے بعد، انھیں اپنے والد کے ہمراہ نظربند کیا گیا۔ وہ والد کی وفات کے دو سال بعد 12 صفر 1415ہجری کو کار کے ایک مشکوک حادثے میں انتقال کر گئے۔ ان کے علمی کارناموں میں والد کے دروس کی تقریرات کے علاوہ کتاب "الالتزامات التبعیة فی العقود" شامل ہے۔[8]
- سید عبدالمجید خوئی: وہ 1382 ہجری کو نجف میں پیدا ہوئے اور اعلیٰ علمی مدارج طے کیے۔ انتفاضۂ شعبانیہ ناکام ہوئی تو وہ عراق سے نکل کر لندن ہجرت کر گئے اور بھائی سید محمد تقی کی وفات کے بعد آیت اللہ خوئی فاؤنڈیشن کے سربراہ بنے۔ 2003ء میں امریکا نے عراق پر حملہ کیا اور بعثی نظام حکومت کا تخت الٹا تو وہ وہ عراق واپس آئے لیکن کچھ ہی دنوں بعد ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوئے اور اپنے والد کے پہلو میں سپرد خاک کیے گئے۔[9]
- شہید سید ابراہیم خوئی:
وہ سنہ 1964ء میں پیدا ہوئے اور سنہ 1980ء میں ایران پر صدام کے حملے تک حصول تعلیم میں مصروف رہے۔ دو سال بعد حوزہ علمیہ میں داخل ہوئے اور کچھ عرصہ بعد کپڑے کی تجارت میں مصروف ہوئے۔ اور 1991 کے انتفاضۂ شعبانیہ میں فعال کردار ادا کیا۔ انھی دنوں بعثی حکومت نے آیت اللہ خوئی کے گھر پر ہلہ بول دیا اور سید ابراہیم سمیت تمام افراد کو گرفتار کرکے لے گئی۔ اور حکومت کی سرنگونی کے بعد معلوم ہوا کہ گرفتار افراد کو گرفتاری کے فورا بعد شہید کر دیا گیا تھا۔[10]
تعلیمی مراحل
[ترمیم]سید ابو القاسم سنہ 1330 ہجری میں 13 سال کی عمر میں اپنے بھائی سید عبد اللہ خوئی کے ہمراہ نجف اشرف میں اپنے والد سے جا ملے۔ عربی ادب اور منطق سیکھنے کے بعد حوزہ علمیہ کے اعلیٰ علمی سطوح کو طے کیا۔ سید خوئی 21 سال کی عمر میں شیخ الشریعۂ اصفہانی کے درس خارج میں حاضر ہوئے اور دوسرے علوم میں بھی نامور اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ان اساتذہ میں سے بعض کا انھوں نے اپنی عظیم 20 جلدی کاوش "معجم رجال الحدیث" میں ذکر کیا ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Abolqasem-al-Khoei — بنام: Abolqasem al Khoei — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb122495574 — بنام: Abū al-Qāsem al- Kho'î — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/61771 — بنام: Abū al-Qāsim ibn ʿAlī al-Ḫūʾī
- ^ ا ب ISBN 9645662281
- ↑ صدرایی خوئی، علی، سیمای خوی، ص169۔۔
- ↑ معجم رجال الفکر و الادب، امینی، ص170۔
- ↑ بنیاد اسلامی ایت اللہ خوئی[مردہ ربط] ۔
- ↑ شاکری، الامام السید الخوئی: سیرہ و ذکریات، 1414، ص254، 256-257۔
- ↑ رئیس زادہ، محمد، دانشنامہ جهان اسلام، ج16، ص522۔
- ↑ فرزندان آیت اللہ خوئی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ alkhoei.net (Error: unknown archive URL)۔