آل زیاریان
Ziyarid dynasty زیاریان | |||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
930–1090 | |||||||||||||||
دار الحکومت | اصفہان (931–935) Ray (935–943) گرگان (943–1035) آمل (1035-1090)[1] | ||||||||||||||
عمومی زبانیں | فارسی زبان گیلکی زبان طبری زبان | ||||||||||||||
مذہب | زرتشتیت (930–935)[2] اہل سنت (935–1090) | ||||||||||||||
حکومت | Monarchy | ||||||||||||||
King | |||||||||||||||
• 930–935 | Mardavij (first) | ||||||||||||||
• 1087–1090 | Gilanshah (last) | ||||||||||||||
تاریخی دور | قرون وسطی | ||||||||||||||
• | 930 | ||||||||||||||
• | 1090 | ||||||||||||||
|
آل زیاریان – دولت زیاریان، دولت زیاریہ (عہد: 928ء – 1090ء) طبرستان، عراق عجم اور جرجان کے علاقوں پر قائم ہونے والی دسویں صدی عیسوی کی ایک حکومت تھی جس کی بنیاد زیاری خاندان نے رکھی تھی۔ یہ سلطنت سامانی سلطنت کی باجگزار تھی اور سامانی سلطنت کے زیرِ اثر ہی اپنے دائرہ سلطنت کو بڑھاتی رہی۔ 1090ء میں اِس سلطنت کو اسماعیلیوں نے ختم کر دیا اور بعد ازاں خاندان زیاری بھی صفحہ ہستہ سے مٹتے چلے گئے۔ تاریخ میں خاندانِ زیاریہ کا نام ہی باقی رہ گیا ہے جبکہ موجودہ زمانے میں آل زیاریہ کی نسلوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
ابتدائی پس منظر اور قیام سلطنت
[ترمیم]آل زیاریان کی حکومت کا پس منظر دیکھنے کے لیے ہمیں خلافت عباسیہ کا دسویں صدی کا منظر دیکھنا لازمی ہے۔ دسویں صدی میں جب خلافت عباسیہ رُو بہ زوال ہو رہی تھی تو بحیرہ قزوین کے جنوب مغربی علاقوں بالخصوص آل دیالمہ کے زمانہ حکومت کے دورِ افتادہ اور پسماندہ کوہستانی خطوں سے فوج اور سپاہ نے بغداد اور خلافت عباسیہ کی عسکری چھاؤنیوں میں کرائے پر خدمات سر انجام دینا شروع کیں۔ کرائے کے اِن سپاہیوں میں سے ہی ایک مرداویج بن زیار بھی شامل تھا جو سامانی سلطنت کی فوج کے ایک جرنیل اسفار کی بغاوت کے موقع پر شمالی فارس پر قابض ہو گیا تھا۔928ء کے قریب قریب اِس کا اقتدار جلد ہی جنوب میں اصفہان اور ہمدان تک وسیع ہوتا چلا گیا لیکن 935ء میں مرداویج اپنے ہی ایک ترک فوجی کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ مرداویج کے قتل کے بعد اُس کا بھائی ظہیر الدولہ وشمگیر تخت نشین ہو گیا۔ اُس نے اپنے بھائی مرداویج کے قتل کے بعد نوزائدہ سلطنت کو دوبارہ منظم کیا۔ وشمگیر جب تخت نشین ہوا تو اُس نے سامانی سلطنت کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے بحیرہ قزوین کے صوبوں پر ہی حکومت کرنے پر اکتفاء کیا۔ دسویں صدی کے نصفِ آخر میں آل زیاریہ نے شمالی فارس پر قبضہ کرنے کے لیے آل بویہ اور سامانیوں کے مابین جاری جدوجہد میں اہم کردار اداء کیا۔ قابوس ابن وشمگیر کی صورت میں ادبی ذوق اور قابلیت کا حامل ایک بہترین حکمران بھی اِس خاندان کو میسر آیا۔ آل دیالمہ کی دیگر سلطنتوں سے جدا کرنے والی ایک چیز آل زیاریہ کی شیعی عقائد کی بجائے سنی عقائد سے وابستگی بھی تھی۔[3]
عہد زوال اور اختتام
[ترمیم]بارہویں صدی میں آل زیاریہ کو آل غزنویہ کا بھی نائب بننا پڑا کیونکہ دونوں شاہی خاندان ایک دوسرے سے شادیوں کے بندھن میں بھی بندھے ہوئے تھے۔ 1030ء سے بعد کی تاریخ نہایت مبہم ہے۔ سلجوقیوں نے بحیرہ قزوین کے ساحلی علاقے گرگان اور طبرستان زیاریوں سے چھین لیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زیاری خاندان کے افراد کم قابلِ رسائی کوہستانی علاقوں میں ہی موجود رہے۔ آخری امیروں میں سے امیر کیکاؤس اپنی شاندار تصنیف قابوس نامہ کے باعث مشہور ہے۔ امیر کیکاؤس کا فرزند گیلان شاہ آل زیاریہ کا آخری معلوم فرد ہے۔ غالباً اِسی کا تخت اسماعیلوں نے کوہ البرز میں اُلٹا اور اُس کے بعد یہ سلطنت صفحہ تاریخ سے ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گئی۔[4]
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑
- ↑ A. Christian Van Gorder, Christianity in Persia and the Status of Non-Muslims in Modern Iran, (Rowman & Littlefield, 2010), 81 n27.
- ↑ کلیفورڈ اِی باسورتھ: اسلامی سلطنتیں، ترجمہ یاسر جواد۔ صفحہ 96- 97۔ مطبوعہ لاہور، 2007ء
- ↑ کلیفورڈ اِی باسورتھ: اسلامی سلطنتیں، ترجمہ یاسر جواد۔ صفحہ 97۔ مطبوعہ لاہور، 2007ء