مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں کی فہرست
پیش نظر فہرست منتخب بنائے جانے کے لیے امیدوار ہے۔ منتخب فہرستیں ویکیپیڈیا کی بہترین کارکردگی کا نمونہ ہیں چنانچہ نامزد کردہ فہرست کا ہر لحاظ سے منتخب فہرست کے معیار پر پورا اُترنا ضروری ہے۔ براہ کرم اس فہرست |
مغلیہ سلطنت شاہانِ مغل | |||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
20 اپریل 1526ء; 498 سال پہلے–21 ستمبر 1857ء; 167 سال پہلے | |||||||||||||||||||||||||||
دار الحکومت | آگرہ (1526 تا1540؛ 1555تا1571) فتح پور سیکری (1571تا1585) دہلی (1648 تا1857) | ||||||||||||||||||||||||||
عمومی زبانیں | فارسی، چغتائی ترکی، اردو | ||||||||||||||||||||||||||
حکومت | بادشاہت، وحدانی ریاست مع وفاقی نظام | ||||||||||||||||||||||||||
تاریخی دور | ابتدائی عہدِ جدید | ||||||||||||||||||||||||||
• | 20 اپریل 1526ء; 498 سال پہلے | ||||||||||||||||||||||||||
• | 21 ستمبر 1857ء; 167 سال پہلے | ||||||||||||||||||||||||||
رقبہ | |||||||||||||||||||||||||||
1700 | 5,200,000 کلومیٹر2 (2,000,000 مربع میل) | ||||||||||||||||||||||||||
آبادی | |||||||||||||||||||||||||||
• 1700 | 150000000 | ||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||
موجودہ حصہ | افغانستان بنگلادیش بھارت پاکستان بھوٹان ایران نیپال | ||||||||||||||||||||||||||
آبادی کے ذرائع:[1] |
مغل بادشاہ ( اردو: مغل شہنشاہ، فارسی: شاهنشاهان هندوستان ) برصغیر پاک و ہند پر مغل سلطنت کے اعلیٰ ترین سربراہان مملکت تھے، جو بنیادی طور پر بھارت، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے جدید ممالک کے علاقوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ مغل حکمرانوں نے خود کو بادشاہ (عظیم بادشاہ) یا شہنشاہ کا لقب اختیار کیا۔[2] مغلوں نے 1526ء سے ہندوستان کے کچھ حصوں پر حکومت کرنا شروع کی اور 1707ء تک برصغیر کے تقریباً تمام حصوں پر حکومت کی۔ اس کے بعد وہ تیزی سے زوال پزیر ہوئے، لیکن 1857ء کے ہندوستانی بغاوت تک برائے نام علاقوں پر حکومت کی۔ مغل وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ترک منگول نسل کے تیموری خاندان کی شاخ تھے۔ ان کا بانی بابر، وادی فرغانہ (جدید دور کا ازبکستان) سے تعلق رکھنے والا تیموری شہزادہ تھا، جو امیر تیمور کی براہ راست اولاد سے تھا (جسے عام طور پر مغربی اقوام میں تیمرلین کے نام سے جانا جاتا ہے) اور تیمور کی بورجیگین شہزادی سے شادی کے ذریعے چنگیز خان سے بھی وابستہ تھا۔ بہت سے مغل شہنشاہوں نے شادی کے ذریعے اتحاد قائم کیا اور ہندوستانی راجپوت اور فارسی نسب قائم کیا تھا کیونکہ شہنشاہ راجپوت اور فارسی شہزادیوں کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔[3][4] مثال کے طور پر، اکبر آدھا فارسی تھا (اس کی ماں فارسی نژاد تھی)، جہانگیر آدھا راجپوت اور چوتھائی فارسی تھا اور شاہ جہاں تین چوتھائی راجپوت تھا۔[5]
اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں مغلیہ سلطنت، دنیا کی سب سے بڑی معیشت طاقت تھی جس کی مالیت عالمی جی ڈی پی کے مطابق 25% سے زیادہ تھی۔[6] مغلیہ سلطنت نے تقریباً تمام برصغیر پاک و ہند پر حکمرانی کی۔ مغل علاقہ مشرق میں چٹاگانگ سے کابل اور مغرب میں بلوچستان تک پھیلا ہوا تھااور شمال میں کشمیر سے جنوب میں دریائے کاویری کے طاس تک علاقے شامل تھے۔[7]
مغل سلطنت کی اس وقت کی آبادی کا تخمینہ 110 سے 150 ملین (دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی) کے درمیان لگایا گیا تھا۔ [1] 18ویں صدی کے دوران مغلوں کی طاقت تیزی سے کم ہوتی گئی اور آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو 1857ء میں برطانوی راج کے قیام کے ساتھ ہی معزول کر دیا گیا۔ [8]
مغلیہ سلطنت
[ترمیم]مغل سلطنت کی بنیاد بابر نے رکھی تھی، جو ایک تیموری شہزادہ اور وسطی ایشیا کا حکمران تھا۔[9] بابر اپنے والد کی طرف سے تیموری شہنشاہ امیر تیمور کی براہ راست اولاد سے تھا اور اپنی ماں کی طرف سے منگول حکمران چنگیز خان کی طرف سے۔ اس خاندان کو شیبانی خان کے ذریعہ ترکستان میں اپنے آبائی علاقوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ 40 سالہ شہزادہ بابر نے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان کا رخ کیا۔ اس نے کابل میں حکمرانی قائم کی اور پھر درۂ خیبر کے ذریعے افغانستان سے ہندوستان میں جنوب کی طرف حملے کیے۔ بابر کی افواج نے 1526ء میں پانی پت میں فتح کے بعد شمالی ہندوستان کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ [10] تاہم مسلسل جنگوں اور فوجی مہمات میں مصروفیت کی وجہ سے نئے شہنشاہ کو ہندوستان میں خود کو مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دی۔[11] سلطنت کا عدم استحکام اس کے بیٹے ہمایوں کے تحت واضح ہوا، جسے باغیوں نے فارس میں جلاوطن کر دیا تھا۔ ہمایوں کی فارس میں جلاوطنی نے صفوی اور مغل درباروں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کیے اور مغل دربار میں مغربی ایشیائی ثقافتی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا۔ مغل حکومت دوبارہ ہندوستان میں ہمایوں کی فارس سے فاتحانہ واپسی کے بعد شروع ہوئی، لیکن اس کے فوراً بعد ایک حادثے میں ہمایوں کی موت ہو گئی۔ ہمایوں کا بیٹا اکبر اپنے وزیر بیرم خان کے ماتحت تخت پر بیٹھا، جس نے ہندوستان میں بابری سلطنت کو مستحکم کرنے میں مدد کی۔ [10]
مغل سلطنت کو اکبر نے جنگ اور سفارت کاری کے ذریعے تمام علاقوں میں پھیلانے میں کامیاب رہا اور دریائے گوداوری کے شمال میں تقریباً پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا۔[12] اس نے اپنی وفادار ایک نئی حکمران اشرافیہ تشکیل دی اور ثقافتی ترقی کی حوصلہ افزائی کی۔ اس نے یورپی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ تجارت میں اضافہ کیا۔ [13] ہندوستانی مورخ ابراہم ارالی نے لکھا ہے کہ بابری دربار کی شاندار دولت سے غیر ملکی اکثر متاثر ہوتے تھے لیکن سلطنت کی مجموعی قومی پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ 655 خاندانوں کے پاس تھا جب کہ ہندوستان کے 120 خاندانوں کے پاس ایم حکومتی عہدے تھے۔ لیکن اس دور میں عوام غربت کی زندگی میں پس رہے تھے۔[14] 1578 میں اکبر کو شیروں کا شکار کرتے ہوئے مرگی کا دورہ پڑا جس کی وجہ سے اکبر اسلام سے بے زار ہو گیا اور ہندو مت اور اسلام کے ہم آہنگ مذہب کو قبول کر لیا۔[15] اکبر نے اپنے دربار میں مذہب کی آزادی کی اجازت دی اور اپنی سلطنت میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی اختلافات کو
حل کرنے کی کوشش کی، ایک نیا مذہب، دین الٰہی ایجاد کیا۔ اس نے اپنے بیٹے کے لیے اندرونی طور پر ایک مستحکم ریاست چھوڑی، جو اپنے سنہری دور کے لیے جانی جاتی تھی۔ [13] اکبر کا بیٹا جہانگیر، افیون کا عادی تھا اور ریاست کے معاملات سے غفلت برتتا تھا اور لالچی وزیروں کے زیر اثر آ گیا تھا۔ جہانگیر کے بیٹے شاہ جہاں کے دور میں بابری دربار کی شان و شوکت اپنے عروج پر پہنچی جس کی مثال تاج محل ہے۔ تاہم حکومت کو برقرار رکھنے کی لاگت آنے والی آمدنی سے زیادہ ہونے لگی۔ [16]
شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا دارا شکوہ اپنے والد کی بیماری کے نتیجے میں 1658ء میں جانشین بن گیا۔ دارا شکوہ نے ہم آہنگی پر مبنی ہندو مسلم مذہب اور ثقافت کی حمایت کی۔ تاہم مذہبی افراد کی حمایت کے ساتھ، شاہ جہاں کے چھوٹے بیٹے اورنگ زیب نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ اورنگ زیب نے 1659ء میں دارا کو شکست دی اور اسے پھانسی پر چڑھا دیا۔ اگرچہ شاہ جہاں اپنی بیماری سے مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا تھا، لیکن دارا اور اورنگزیب کے درمیان تخت کے لیے جانشینی کی جنگ ہوتی ہوئی دیکھی۔ آخر کارجب اورنگ زیب تخت نشین ہوا تو اس نے شاہ جہاں کو نظر بند کر دیا۔[17]
اورنگ زیب کے دور میں مغل سلطنت نے ایک بار پھر سیاسی طاقت حاصل کی اور یہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گئی۔ لیکن اورنگزیب نے جب شریعت کے قیام کے نفاذ کا اعلان کیا تو بڑے بڑے تنازعات نے جنم لیا۔ اورنگ زیب نے مغلیہ سلطنت کو وسعت دی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج پر3.2 ملین مربع کلومیٹر تک پھیلی ہوئی تھی، جس میں اب ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش شامل تھے۔[18] 1707 میں اورنگزیب کی موت کے بعد مغلیہ سلطنت میں بغاوت ہونا شروع ہو گئی اور سلطنت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ [19] اورنگ زیب کی وسطی ایشیا میں اپنے خاندان کی آبائی زمینوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ اورنگ زیب کے لیے ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ فوج ہمیشہ شمالی ہندوستان کے زمیندار اشرافیہ پر مبنی تھی جنھوں نے مہمات کے لیے گھڑ سوار دستے فراہم کیے تھے اور سلطنت عثمانیہ کے ینی چری کے برابر کچھ بھی نہیں تھی۔ دکن کی طویل اور مہنگی فتح نے اورنگ زیب کو گھیرنے والی "کامیابی کی چمک" کو بری طرح سے کم کر دیا تھا۔ [20] دکن کی فتح کے اختتام پر، اورنگ زیب نے دکن میں کچھ شریف خاندانوں کو ضبط شدہ اراضی سے نوازا تھا، جس سے اشرافیہ کو ضبط شدہ اراضی کا انعام نہیں دیا گیا تھا اور وہ مزید مہمات میں حصہ لینے کے لیے سخت ناراض اور ناخوش تھے۔ [21] اورنگزیب کے بیٹے شاہ عالم نے اپنے والد کی مذہبی پالیسیوں کو منسوخ کر دیا اور انتظامیہ میں اصلاحات کی کوشش کی۔ تاہم 1712ء میں اس کی موت کے بعدمغلیہ خاندان افراتفری اور پرتشدد جھگڑوں میں ڈوب گیا۔ 1719ء تک چار بادشاہ یکے بعد دیگرے تخت پر براجمان ہوئے تھے۔ [22]
محمد شاہ کے دور میں، سلطنت ٹوٹنا شروع ہوئی اور وسطی ہندوستان کا وسیع علاقہ بوبورید سے مراٹھا کے ہاتھ میں چلا گیا۔ [23] کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے مغلوں نے ہمیشہ اس علاقے کے اہم قلعہ پر حملہ کر کے قبضہ کیا۔[23][23] ہندو مرہٹہ ماہر گھڑ سوار تھے جنھوں نے مغلوں کے ماتحت جنگوں میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ [23] مرہٹہ محاصروں کے ذریعے قلعوں پر قبضہ کرنے سے قاصر تھے کیونکہ ان کے پاس توپ خانے کی کمی تھی۔ لیکن وہ مغل فوج کو سپلائی کرنے والے کاروانوں کو مسلسل روک کر مغل قلعوں کی فوج کو بھوکا مارنے میں کامیاب ہو گئے۔ [23] مرہٹوں کی وجہ سے مغل کمانڈروں نے بار بار اپنی حکمت عملیوں کو تبدیل کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے، جس کی وجہ سے مغل اپنی قدھی سے زیادہ زمین مراٹھوں کے ہاتھ کھو بیٹھے۔ [24] فارس کے نادر شاہ کی ہندوستانی مہم کا اختتام دہلی کی فتح کے ساتھ ہوا اور اس نے مغل سلطنت کی طاقت اور وقار کی باقیات کو چکنا چور کر دیا اور ساتھ ہی شاہی خزانے پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلطنت کے بہت سے اشرافیہ نے اپنے معاملات کو خود کنٹرول کرنے کی کوششیں کیں اور خود مختار مملکتیں بنانے کے لیے الگ ہو گئے۔ تاہم مغل شہنشاہ، خود مختاری کا اعلیٰ ترین مظہر رہا۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مراٹھا، ہندو اور سکھ رہنماؤں نے شہنشاہ کو ہندوستان کے خود مختار شہنشاہ ہونے کا رسمی اعتراف کیا۔[25][26]
افغانوں، سکھوں اور مراٹھوں نے ایک دوسرے اور مغلوں کے خلاف جنگ کی۔ مغل شہنشاہ شاہ عالم دوم نے مغل سلطنت کے زوال کو پلٹانے کی ناکام کوششیں کیں، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا اور مجبوراً اسے بیرونی طاقتوں کا تحفظ حاصل کرنا پڑا۔ 1784ء میں مہادجی شندے کے ماتحت مراٹھوں نے دہلی میں شہنشاہ کو محافظ کے طور پر تسلیم کیا اور یہ ماتحتی دوسری اینگلو مرہٹہ جنگ کے بعد تک جاری رہی۔ اس کے بعد، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی میں مغل خاندان کی محافظ بن گئی۔ [27] 1835 کے بعد کمپنی نے شہنشاہ کے اختیار کو تسلیم نہیں کیا اور اسے صرف 'دہلی کے بادشاہ' کے طور پر قبول کیا اور ان کے سکے سے تمام حوالہ جات کو ہٹا دیا۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر دیا اور بہادر شاہ ظفر کو میانمار جلاوطن کر دیا۔ انگریزوں نے سابقہ مغل سلطنت پر قبضہ کر لیا اور ہندوستان پراپنی حکمرانی کی۔ [28]
فہرستِ شاہانِ مغل
[ترمیم]خاندان مغل یا سلسلہ مغل یا آل تیموری بادشاہوں کی فہرست
[ترمیم]درج ذیل میں مغل بادشاہوں کی فہرست ہے۔[29][30][31]
تصویر | لقب | پیدائشی نام | پیدائش | دورِ حکومت | وفات | مدفون |
---|---|---|---|---|---|---|
بابر | ظہیر الدین محمد بابر | 23 فروری 1483
اندیجان، ازبکستان |
30 اپریل 1526ء – 26 دسمبر 1530ء | 26 دسمبر 1530
(عمر 47) |
باغ بابر، کابل،
افغانستان | |
ہمایوں | نصیر الدین محمد ہمایوں | 17 مارچ 1508
کابل، افغانستان |
26 دسمبر 1530ء – 17 مئی 1540ء
22 فروری 1555ء – 27 جنوری 1556ء |
27 جنوری 1556
(عمر 47) |
مقبرہ ہمایوں،
دہلی | |
اکبر اعظم | جلال الدین اکبر | 14 اکتوبر 1542
موجودہ پاکستان |
27 جنوری 1556 – 27 اکتوبر 1605 | 27 اکتوبر 1605ء
(63 سال) |
اکبر کا مقبرہ،
آگرہ | |
جہانگیر | نورالدین جہانگیر نور الدین بیگ محمد خان سلیم |
20 ستمبر 1569
آگرہ، ہندوستان |
15 اکتوبر 1605 – 8 نومبر 1627 | 8 نومبر 1627
( 58 سال) |
مقبرہ جہانگیر،
لاہور | |
شاہ جہان اعظم |
شہاب الدین محمد خرم | 5 جنوری 1592
موجودہ پاکستان |
8 نومبر 1627 – 2 اگست 1658 | 22 جنوری 1666
( 74 سال ) |
تاج محل،
آگرہ | |
عالمگیر | محی الدین محمداورنگزیب | 4 نومبر 1618
گجرات، ہندوستان |
31 جولائی 1658 – 3 مارچ 1707 | 3 مارچ 1707
(88 سال) |
اورنگ زیب کا مقبرہ،
خلد آباد | |
اعظم شاہ | ابو الفیض قطب الدین محمد اعظم | 28 جون 1653
برہان پور، ہندوستان |
14 مارچ 1707 – 8 جون 1707 | 8 جون 1707
( 53 سال) |
خلد آباد | |
بہادر شاہ | قطب الدین محمد معظم | 14 اکتوبر 1643
برہان پور، ہندوستان |
19 جون 1707 – 27 فروری 1712
(4 سال، 253 دن) |
27 فروری 1712 (عمر 68) | مہرؤلی،دہلی | |
جہاں دار شاہ | معز الدین جہاندار شاہ بہادر | 9 مئی 1661
دکن، ہندوستان |
27 فروری 1712 – 11 فروری 1713
(0 سال، 350 دن) |
12 فروری 1713 (عمر 51) | مقبرہ ہمایوں،دہلی | |
فرخ سیر | ابو مظفر معین الدین محمد شاہ فرخ سیرعالم اکبر ثانی والا شان پادشاہ بحر و بر | 20 اگست 1685
اورنگ آباد، ہندوستان |
11 جنوری 1713 – 28 فروری 1719
(6 سال، 48 دن) |
29 اپریل 1719 (عمر 33) | مقبرہ ہمایوں،دہلی | |
رفیع الدرجات | ابو برکات شمس الدین محمد رفیع الدرجات پادشاہ غازی شہنشاہ بحر و بر | 30 نومبر 1699 | 28 فروری – 6 جون 1719
(0 سال، 98 دن) |
9 جون 1719 (عمر 19) | دہلی | |
شاہجہان ثانی | رفیع الدین محمد رفیع الدولہ شاہجہان ثانی | جون 1696 | 6 جون 1719 – 19 ستمبر 1719
(0 سال، 105 دن) |
19 ستمبر 1719 (عمر 23) | بدیا پور،
فتح پور سیکری | |
محمد شاہ | روشن اختر بہادر | 17 اگست 1702
غزنی، افغانستان |
27 ستمبر 1719 – 26 اپریل 1748
(28 سال، 212 دن) |
26 اپریل 1748 (عمر 45) | نظام الدین درگاہ،
دہلی | |
احمد شاہ بہادر | ابو ناصر مجاہد محمد احمد شاہ بہادر | 23 دسمبر 1725
دہلی، ہندوستان |
26 اپریل 1748 – 2 جون 17 | 1 جنوری 1775 (عمر 49) | مہرؤلی،دہلی | |
عالمگیر ثانی | عزیز الدین عالمگیر ثانی | 6 جون 1699
برہان پور، ہندوستان |
2 جون 1754 – 29 نومبر 1759
(5 سال، 180 دن) |
29 نومبر 1759 (عمر 60)
کوٹلہ فتح شاہ |
مقبرہ ہمایوں،دہلی | |
شاہجہان ثالث | مہی الملک الملت شاہجہان | 1711 | 10 دسمبر 1759 – 10 اکتوبر 1760 | 1772 | ||
شاہ عالم ثانی | عبداللہ جلال الدین ابو مظفر ہام الدین محمد علی گوہر شاہ عالم ثانی | 25 جون 1728
دہلی، ہندوستان |
24 دسمبر 1759 – 19 نومبر 1806 (46 سال، 330 دن) | 19 نومبر 1806 (عمر 78) | مہرؤلی،دہلی | |
اکبر شاہ ثانی | ابو ناصر معین الدین محمد اکبر شاہ ثانی | 22 اپریل 1760
مکند پور، ہندوستان |
19 نومبر 1806 – 28 ستمبر 1837 | 28 ستمبر 1837 (عمر 77) | موتی مسجد، | |
بہادر شاہ ثانی | ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر | 24 اکتوبر 1775
دہلی، ہندوستان |
28 ستمبر 1837 – 14 ستمبر 1857 (19 سال، 351 دن) | 7 نومبر 1862 | یانگون،
میانمار |
دعویدار
[ترمیم]پیدائش | وفات | نام | دورِ حکومت |
---|---|---|---|
1505؟ یا 1509 | 1557 | کامران مرزا | |
16 اگست 1587 | 26 جنوری 1622 | خسرو میرزا | 1606 |
23 جنوری 1628 | داور بخش | 8 نومبر 1627ء – 23 جنوری 1628ء | |
23 جنوری 1628 | شہریار میرزا | 28 اکتوبر 1627ء– 30 جنوری 1628ء | |
1679 | 12 اپریل، 1723 | محمد شاہ نیک سیر | 1719 |
9 اگست 1703 | 31 جنوری 1746 | محمد ابراہیم | 15 اکتوبر 1720ء – 13 نومبر 1720ء |
1772 | محی الملت، شاہ جہاں تریہم | 10 دسمبر 1759 – 10 اکتوبر 1760 | |
1749ء | 1790ء | بیدار بخت محمود شاہ بہادر | 29 اگست 1788ء– 16 اکتوبر 1788ء |
مغل بادشاہوں کا خاندانی نصب
[ترمیم] مغل خاندان کا نصب
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
Notes:
|
اعزازی القابات
[ترمیم]- عالم پناہ یا عالم جہاں پناہ ---اس لقب کا مطلب ہے امن دینے والا۔
- سلطان یا سلطان دو ---عربی الفاظ ہیں۔
- پادی شاہ (پدشگیز) ---اس کا مطلب ہے عظیم بادشاہ۔
- صاحب قرآن ---(صاحب القرآن)
- شہنشاہ ---فارسی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔
- عزت مآب خاقان۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب Richards، John F. (26 مارچ 1993)۔ Johnson، Gordon؛ Bayly، C. A. (مدیران)۔ The Mughal Empire۔ The New Cambridge history of India: 1.5۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ ج I. The Mughals and their Contemporaries۔ ص 1, 190۔ DOI:10.2277/0521251192۔ ISBN:978-0-521-25119-8
{{حوالہ کتاب}}
: الوسيط|accessdate
بحاجة لـ|مسار=
(معاونت) - ↑ Faruqui، Munis D. (2012)۔ The Princes of the Mughal Empire, 1504–1719۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ص 25۔ ISBN:978-1-107-02217-1
- ↑ Jeroen Duindam (2015)، Dynasties: A Global History of Power, 1300–1800، page 105، کیمبرج یونیورسٹی پریس
- ↑ Mohammada، Malika (1 جنوری 2007)۔ The Foundations of the Composite Culture in India۔ Akkar Books۔ ص 300۔ ISBN:978-8-189-83318-3
- ↑ Dirk Collier (2016)۔ The Great Mughals and their India۔ Hay House۔ ص 15۔ ISBN:9789384544980
- ↑ "The World Economy (GDP) : Historical Statistics by Professor Angus Maddison" . World Economy. Retrieved 21 May 2013.
- ↑ Chandra، Satish۔ Medieval India: From Sultanate to the Mughals۔ ص 202
- ↑ (Spear 1990)
- ↑ Keay, 309–311
- ^ ا ب Berndl، Klaus (2005)۔ National Geographic Visual History of the World۔ National Geographic Society۔ ص 318–320۔ ISBN:978-0-7922-3695-5
- ↑ Keay, 293–296
- ↑ Keay, 311–319
- ^ ا ب Berndl، Klaus (2005)۔ National Geographic Visual History of the World۔ National Geographic Society۔ ص 318–320۔ ISBN:978-0-7922-3695-5
- ↑ Eraly, Abraham The Mughal Throne The Sage of India's Great Emperors, London: Phonenix, 2004 p. 520.
- ↑ Eraly, Abraham The Mughal Throne The Sage of India's Great Emperors, London: Phonenix, 2004 p. 191.
- ↑ Berndl، Klaus (2005)۔ National Geographic Visual History of the World۔ National Geographic Society۔ ص 318–320۔ ISBN:978-0-7922-3695-5
- ↑ Berndl، Klaus (2005)۔ National Geographic Visual History of the World۔ National Geographic Society۔ ص 318–320۔ ISBN:978-0-7922-3695-5
- ↑ "The great Aurangzeb is everybody's least favourite Mughal – Audrey Truschke | Aeon Essays". Aeon (انگریزی میں). Retrieved 2020-08-02.
- ↑ Berndl، Klaus (2005)۔ National Geographic Visual History of the World۔ National Geographic Society۔ ص 318–320۔ ISBN:978-0-7922-3695-5
- ↑ D'souza, Rohan "Crisis before the Fall: Some Speculations on the Decline of the Ottomans, Safavids and Mughals" pp. 3–30 from Social Scientist, Volume 30, Issue # 9/10, September–October 2002 p. 21.
- ↑ D'souza, Rohan "Crisis before the Fall: Some Speculations on the Decline of the Ottomans, Safavids and Mughals" pp. 3–30 from Social Scientist, Volume 30, Issue # 9/10, September–October 2002 p. 21.
- ↑ Berndl، Klaus (2005)۔ National Geographic Visual History of the World۔ National Geographic Society۔ ص 318–320۔ ISBN:978-0-7922-3695-5
- ^ ا ب پ ت ٹ D'souza, Rohan "Crisis before the Fall: Some Speculations on the Decline of the Ottomans, Safavids and Mughals" pp. 3–30 from Social Scientist, Volume 30, Issue # 9/10, September–October 2002 p. 21.
- ↑ D'souza, Rohan "Crisis before the Fall: Some Speculations on the Decline of the Ottomans, Safavids and Mughals" pp. 3–30 from Social Scientist, Volume 30, Issue # 9/10, September–October 2002 p. 21.
- ↑ Keay, 361–363, 385–386
- ↑ Bose، Sugata؛ Jalal، Ayesha (2004)۔ Modern South Asia: History, Culture, Political Economy (2nd ایڈیشن)۔ Routledge۔ ص 41۔ ISBN:978-0-203-71253-5
- ↑ Bose، Sugata؛ Jalal، Ayesha (2004)۔ Modern South Asia: History, Culture, Political Economy (2nd ایڈیشن)۔ Routledge۔ ص 41۔ ISBN:978-0-203-71253-5
- ↑ Berndl، Klaus (2005)۔ National Geographic Visual History of the World۔ National Geographic Society۔ ص 318–320۔ ISBN:978-0-7922-3695-5
- ↑ sakshi (26 مارچ 2023). "Mughal Emperors List, Names, Map, Timeline in Chronological Order". StudyIQ (Indian English میں). Retrieved 2023-06-30.
- ↑ "List of Mughal Emperors (1526–1857) – Name , Reign, Description [Medieval Indian History]". BYJUS (انگریزی میں). Retrieved 2023-06-30.
- ↑ "From Babur to Bahadur Shah Zafar: Check full list of Mughal emperors who ruled India". News9live (امریکی انگریزی میں). 30 مئی 2022. Archived from the original on 2023-06-30. Retrieved 2023-06-30.
مزید پڑھیے
[ترمیم]- مجمدار، رمیش چندر؛ پوسالکر، اے ڈی؛ مجمدار، اے کے، ویکی نویس (1973)۔ ہندوستانی لوگوں کی تاریخ اور ثقافت۔ VII: مغلیہ سلطنت۔ بمبئی: بھارتیہ ودیا بھون۔