سورہ الطارق
الطارق | |
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 86 |
تعداد آیات | 17 |
الفاظ | 61 |
حروف | 249 |
گذشتہ | البروج |
آئندہ | الاعلیٰ |
قرآن مجید کی 86 ویں سورت جس میں 17 آیات ہیں۔
نام
پہلی ہی آیت کے لفظ الطارق کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے مضمون کا اندازِ بیاں مکۂ معظمہ کی ابتدائی سورتوں سے ملتا جلتا ہے، مگر یہ اس زمانے کی نازل شدہ ہے جب کفار مکہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے ہر طرح کی چالیں چل رہے تھے۔
موضوع اور مضمون
اس میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو مرنے کے بعد خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ دوسرے یہ کہ قرآن ایک قولِ فیصل ہے جسے کفار کی کوئی چال اور تدبیر زک نہیں دے سکتی۔
سب سے پہلے آسمان کے تاروں کو اس بات کی شہادت میں پیش کیا گیا ہے کہ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ایک ہستی کی نگہبانی کے بغیر اپنی جگہ قائم اور باقی رہ سکتی ہو۔ پھر انسان کو خود اس کی اپنی ذات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کس طرح نطفے کی ایک بوند سے اس کو وجود میں لایا گیا اور جیتا جاگتا انسان بنا دیا گیا۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ جو خدا اس طرح اسے وجود میں لایا ہے وہ یقیناً اس کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور یہ دوبارہ پیدائش اس غرض کے لیے ہوگی کہ انسان کے ان تمام رازوں کی جانچ پڑتال کی جائے جن پر دنیا میں پردہ پڑا رہ گیا تھا۔ اس وقت اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے سے انسان نہ اپنے بل بوتے پر بچ سکے گا اور نہ کوئی اس کی مدد کو آ سکے گا۔
خاتمۂ کلام پر ارشاد ہوا ہے جس طرح آسمان سے بارش کا برسنا اور زمین سے درختوں اور فصلوں کا اگنا کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ کام ہے، اسی طرح قرآن میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ بھی کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے بلکہ پختہ اور اٹل باتیں ہیں۔ کفار اس غلط فہمی میں ہیں کہ ان کی چالیں اس قرآن کی دعوت کو زک دے دیں گی، مگر انھیں خبر نہیں ہے کہ اللہ بھی ایک تدبیر میں لگا ہوا ہے اور اس کی تدبیر کے آگے کفار کی چالیں سب دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ پھر ایک فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ تسلی اور درپردہ کفار کو یہ دھمکی دے کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ذرا صبر سے کام لیں اور کچھ مدت کفار کو اپنی سی کر لینے دیں، زیادہ دیر نہ گذرے گی کہ انھیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ان کی چالیں قرآن کو زک دیتی ہیں یا قرآن اُسی جگہ غالب آ کر رہتا ہے جہاں یہ اُسے زک دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔