ادویت
ادویت ۔ (سنسکرت:अद्वैत वेदान्त) یعنی وحدت وجود۔ یہ خاص قسم کا تصور بہت ہی قدیم ہے۔ اگرچہ اس کی آخری شکل میں یہ زیادہ تر شنکر آچاریہ کا مرہون منت ہے۔[1][2][3] نظری پہلو کے لحاظ سے اس کی اہم ترین خصوصیات یہ ہیں:
- اساسی اور آخری حقیقت کے طور پر نرگن برہم کا تصور۔
- نتیجہ کے طور پر مایا کے نظریے میں اعتقاد۔
- جیو اور برہم کا بالکل ایک اور یکساں ہونا
- نجات کا تصور جو برہم میں جیو کے جذب ہو جانے پر مشتمل ہے اور عملی پہلو کے لحاظ سے اس میں مکمل ترک کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس مفہوم میں کہ گیان اور صرف گیان ہی نجات کا ذریعہ ہے۔
تفصیل
[ترمیم]اس نظریہ کا قدیم ترین موجود اور محفوظ باضابطہ پیش کش گوڑپاد کی "کاریکا" سے دستیاب ہوا ہے جس میں مانڈوکیہ اپنیشد کی تعلیم کا خلاصہ پایا جاتا ہے[4] لیکن درحقیقت اس نے ادویت کی تعلیم کا قابل تعریف خلاصہ پیش کر کے ایک بڑے کام کی تکمیل کی ہے۔ شنکر نے ادویت کے نظریے کو سمجھنے کے لیے اور اس کی قدر معلوم کرنے کے لیے "برہم سوتر" اور چند اہم ترین اپنیشد اور بھگود گیتا پر شرحیں لکھی ہیں۔ خصوصاً چھاندوگیہ اپنیشد اور برہد آرن یک اپنیشد کی شرحوں میں کئی ایک مسائل پر بحث کی گئی ہے جو برہم سوتر کی شرح میں موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک تصنیف "اپدیش سہسری" ہے جو اگرچہ کچھ مختصر و جامع ہے لیکن ادویت کے خیالات کا ایک عالیشان بیان کرتی ہے۔ شنکر کے بعد مختلف مفکرین نے اس نظریہ کی تفصیلات میں جا کر اس کی حمایت کی اور اس میں اضافہ بھی کیا جس کی وجہ سے اس کے پیروؤں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ ادویت کے نظام کی تشریح میں لکھے گئے بہت سے رسالوں میں سے ہم سریشور کی "منیش کرمیہ سدھی" کا ذکر کر سکتے ہیں جو اس سے قبل میماسا کا پیرو تھا۔ ایک اور خاص قدرومنزلت کی تصنیف "اشٹ سدھی" مصنفہ ویمکت آتمن ہے۔ اس میں خاص طور پر مایا کے نظریے کے متعلق ذکر کیا گیا ہے۔ ایک اور مقبول رسالہ "پنج دشی" مصنفہ ودیار منیہ ہے۔ سدانند کی تصنیف "ویدانت سار" ادویت فلسفہ کا آسان تعارف ہے۔ اس نظام پر خالص بحث کے متعلق جو تصانیف لکھی گئی ہیں ان میں سری ہرش کا "کھنڈ کھنڈ کھادیہ" قابل ذکر ہے۔ مدھوسدن سرسوتی کی "ادویت سدھی" اور اس کی شرح "لگھوچندریکا" مصنفہ برہمانند کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ اس کا مطالعہ صحیح ویدانتی علم کے لیے نہایت ضروری ہے۔
کسی غلطی کے بغیر ہمیں اگر ادویت کے آخری اساس تک پہنچنا ہے تو سگن برہم کے نصب العین میں ظاہر ہونے والی ظاہری شائستگی میں معمولی تجربہ کے تناقضات اور بے ضابطگیوں کو سب سے پہلے درست کرنا ہوگا۔
دوسرے الفاظ میں جیو کی جہالت یا اودیا کو مایا کے کے طور پ عالمگیر بنائے بغیر ہم عالم خارجی کو محض ایک ذاتی مظہر بنا ڈالیں گے۔ کیونکہ اس وقت ہمارے لیے انفرادی شعور کے علاوہ کچھ اور فرض کرنے کے لیے کوئی اور وجہ باقی نہ رہے گی۔ لہذا ادویت کا حامی جو سگن برہم کی تنقید کرتا ہے اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف اس تصور کے لیے ناکافی ہے جو فلسفہ کے منزل مقصود کے لیے کام آ سکے۔ لیکن اس کی قدرومنزلت تجربی حلقہ کی حد تک محدود ہے۔ یہ خیال عام طور پہ ادویت کے مسئلہ سے بالکل موافقت رکھتا ہے کہ عملی افادیت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مابعد الطبیعیاتی صداقت پر مبنی ہو۔ یہی امتیاز ہے جو ادویت میں دو مدارج کی تعلیم کا باعث بنا ہے۔ اعلیٰ تر نرگن برہم کی تعلیم اور ادنٰی تر سگن برہم کی تعلیم۔ ادویت میں نجات کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے جس کو نئے طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اپنی ذات کی اصلی ماہیئت ہے۔ اس لیے معمولی مفہوم میں مشکل سے ہی اس کے حاصل کرنے کے ذرائع کے متعلق کچھ کہا جا سکتا ہے۔ یہ اس باطنی سیرت کو محقق کرتا ہے جو کبھی اپنی ذاتی کہی جاتی تھی۔ مگر فی الحال فراموش کر دی گئی ہے۔ یہاں عام مثال ایک شہزادہ کی دی جاتی ہے جو بچپن سے ہی ایک شکاری کے گھر پرورش پاتا ہے اور بعد میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رگوں میں شاہی خون دوڑ رہا ہے۔ اس کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے کو محسوس کرے یا متحقق کرے کہ وہ شہزادہ ہے۔ اسی طرح ادویت کی نجات کی صورت میں اس رکاوٹ کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو حقیقت کو ہم سے پوشیدہ رکھتی ہے۔ تجربی حیات چونکہ بالکل اگیان کا نتیجہ ہے۔ اس لیے رکاوٹ اگیان بھی ہے اور وہ صرف اس کے متضاد گیان سے ہی ہٹائی جا سکتی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو گیان اس کو عمل میں لا سکتا ہے اس کو بلاواسطہ وجدانی (ساکشات کار) ہونا چاہیے اور برہم کے ساتھ اس کا تعلق بالکل ایک ہونا چاہیے۔ اس کی فراموشی سے ہی دنیا پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقیاتی کمال اور مذہبی اعمال اس میں بلاواسطہ مدد نہیں دے سکتے۔ ارادہ کی سعی اور محبت کی پاکیزگی بے شک ضروری ہیں لیکن یہ صرف گیان کے لیے ممد و معاون ہیں۔ جب ایک مرتبہ گیان طلوع ہو جاتا ہے تو وہ اپنے اپ اگیان کو مٹا دیتا ہے اور اسی وقت اپنی تمام باطنی شان و شوکت میں روح کا انکشاف ہی موکش کہلاتا ہے۔ اگر علم ہی قید سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے تو گیان حاصل ہوتے ہی نجات مل جانی چاہیے۔ چنانچہ جیون مکتی کا تصور عالم خارجی کے ایسے خیال اور اس نجات کا منطقی نتیجہ ہے اور انسانی وجود میں کسی نفسی یا کسے دوسرے سازوسامان کی ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو اس وقت اور یہاں اس کے حصول کو ناممکن بنا سکے۔ لیکن اگر اس کے ذہن نشیں کرائے ہوئے علم کو سچی آزادی دلانا ہے تو ہمیں اپنے زندہ تجربہ سے اس کی تصدیق کرنا ضروری ہے اور اس صورت میں کہ "میں برہم ہوں" (اہم برہم اسمی) اس بلاواسطہ تجربہ یا مطلب کے راست وجدان کو دنیا دارانہ تجربہ سے امتیاز حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی یہاں آخری سچائی کا معیار قرار پاتا ہے۔ جیون مکت کی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک پہلو عارفانہ روحانی احتراز کا ہے۔ جبکہ وہ اپنا رخ اندر کو کر لیتا ہے اور اور برہم میں محو ہوجاتا ہے۔ اسی برہم یا جوہر اعلیٰ کو وجود، شعور یا سرور (ست چت آنند) کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی وجہ سے اس کو بہت بڑا آنند عطا کرنے والا برہم یا شیو کہتے ہیں۔ تمام کائنات کو اساسی قوت کی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے اسی کو شونیہ یا خلا کہا جاتا ہے۔ تمام کائنات میں استحکام کے ساتھ بودوباش اختیار کرنے سے اس کو پورن یا مطلق کہا جاتا ہے۔ نقاط نظر کے فرق سے اسی ایک جوہر کے کثیر نام ہیں۔ یہ بھی ایک مذاق ہے کہ نام، شکل اور ذات سے ماورا ہستی رکھنے والے وجود کا بھی ایک نام رکھا جاتا ہے، لیکن یہ نام بھی لفظی عمل کا مددگار ہونے سے غلط ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے ادویت واد یا مطلقیت کا اساسی اور اصلی فلسفہ "مون" یا سکوت ہے۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کی حالت معمولی زندگی کی کایا پلٹ کہلاتی ہے اور جب عالم خارجی کا منظر واپس آ جاتا ہے تو اس کو دھوکا نہیں دیتا اس لیے کہ اس نے ہمیشہ کے لیے مابعد الطبیعیاتی بطلان کا تحقق کر لیا ہے۔ ایک جیون مکت دکھ سکھ کا تجربہ کرتا ہے لیکن وہ اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ لازمی طور پر تمام عمل سے دست بردار نہیں ہوتا۔ وہ سب سے یکساں محبت کرتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے جیسا کہ وہ خود اپنے ساتھ کرتا ہے اس لیے کہ وہ خود میں اور دوسروں میں کوئی اختلاف نہیں دیکھتا۔ وہ تمام وجود کو اپنے اندر دیکھتا ہے اور اپنے کو تمام وجود میں۔ اس لیے کسی سے نفرت نہیں کرتا وہ جو ادویت کے علم ذات سے واقف ہو جاتا ہے اس میں رحم و کرم کی طرح نیکیوں کے لیے کچھ بھی شعوری جدوجہد درکار نہیں ہوتی۔ وہ سب اس کی فطرت ثانی ہو جاتی ہے اور آخر کار جب وہ مادی لوازمہ سے قطع تعلق کر لیتا ہے تو دوبارہ جنم نہیں لیتا بلکہ برہم کی طرح باقی رہتا ہے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Olivelle 1992, pp. x–xi, 8–10, 17–18.
- ↑ Stephen Phillips (1998), Classical Indian Metaphysics, Motilal Banarsidass, آئی ایس بی این 978-8120814899, page 332 note 68
- ↑ Nakamura 1950, pp. 221, 680.
- ↑ Chandradhar Sharma (1997)، A Critical Survey of Indian Philosophy، Motilal Banarsidass، صفحہ: 239، ISBN 81-208-0365-5
ماخذ
[ترمیم]- Michael S. Allen، Anand Venkatkrishnan (25 September 2017)۔ "Introduction to Special Issue: New Directions in the Study of Advaita Vedānta"۔ International Journal of Hindu Studies۔ 21 (3): 271–274۔ ISSN 1022-4556۔ doi:10.1007/s11407-017-9218-9
- R. Balasubramanian (2000)۔ "Introduction"۔ $1 میں Chattopadhyana۔ History of Science, Philosophy and Culture in Indian Civilization. Volume II Part 2: Advaita Vedanta۔ Delhi: Centre for Studies in Civilizations
- Vidhushekhara Bhattacharya (1943)۔ Gauḍapādakārikā۔ Delhi: Motilal Banarsidass
- Shlomo Biderman (1978)۔ "Śankara and the Buddhists"۔ Journal of Indian Philosophy۔ 6 (4)۔ doi:10.1007/BF00218430
- Michael Brannigan (2009)، Striking a Balance: A Primer in Traditional Asian Values, Rowman & Littlefield، ISBN 978-0739138465
- Donald A. Braue (1984)، Māyā in Radhakrishnanʾs Thought: Six Meanings Other Than Illusion، Motilall Banarsidass
- Douglas Renfrew Brooks (1990)۔ The Secret of the Three Cities: An Introduction to Hindu Shakta Tantrism۔ Chicago: The University of Chicago Press۔ ISBN 978-0-226-07569-3
- C. Mackenzie Brown (1983)۔ "The Origin and Transmission of the Two "Bhāgavata Purāṇas": A Canonical and Theological Dilemma"۔ Journal of the American Academy of Religion۔ Oxford University Press۔ 51 (4): 551–567۔ JSTOR 1462581۔ doi:10.1093/jaarel/li.4.551
- Mariana Caplan (2009)، Eyes Wide Open: Cultivating Discernment on the Spiritual Path، Sounds True
- Christopher Chapple (1984)۔ "Introduction"۔ The Concise Yoga Vāsiṣṭha۔ ترجمہ بقلم S Venkatesananda۔ State University of New York Press۔ ISBN 0-87395-955-8۔ OCLC 11044869
- Michael Comans (2000)، The Method of Early Advaita Vedānta: A Study of Gauḍapāda, Śaṅkara, Sureśvara, and Padmapāda، Delhi: Motilal Banarsidass
- Neil Dalal (2009)۔ "Contemplative Practice and Textual Agency in Advaita Vedanta"۔ Method and Theory in the Study of Religion۔ 21: 15–27۔ doi:10.1163/157006809X416788
- Neil Dalal (2014)۔ "Contemplative Grammars: Śaṅkara's Distinction of Upāsana and Nididhyāsana"۔ Journal of Indian Philosophy۔ 44: 179–206۔ doi:10.1007/s10781-014-9258-z
- R.N. Dandekar (2005)، "Vedanta"، $1 میں Lindsay Jones، MacMillan Encyclopedia of Religion، MacMillan
- Surendranath Dasgupta (1955)، A history of Indian philosophy. 5. Southern schools of ́Saivism, Volume 5، CUP Archive
- Sanghamitra Dasgupta، Dilip Kumar Mohanta (1998)۔ "Indian Philosophical Quarterly"۔ XXV (3, July 1998)
- Leesa S. Davis (2010)، Advaita Vedānta and Zen Buddhism: Deconstructive Modes of Spiritual Inquiry، Continuum International Publishing Group
- Richard Davis (2014)، Ritual in an Oscillating Universe: Worshipping Siva in Medieval India، Princeton University Press، ISBN 978-0691603087
- Christian D. Von Dense (1999)، Philosophers and Religious Leaders، Greenwood Publishing Group
- Paul Deussen (1980)۔ Sixty Upaniṣads of the Veda, Volume 1۔ Motilal Banarsidass
- Eliot Deutsch (1973)، Advaita Vedanta: A Philosophical Reconstruction، University of Hawaii Press، ISBN 978-0-8248-0271-4
- Eliot Deutsch (1988)، Advaita Vedanta: A Philosophical Reconstruction، University of Hawaii Press، ISBN 0-88706-662-3
- Eliot Deutsch، Rohit Dalvi (2004)، The Essential Vedanta: A New Source Book of Advaita Vedanta، World Wisdom, Inc.، ISBN 9780941532525
- Wendy Doniger (1999)، Merriam-Webster's Encyclopedia of World Religions، Merriam-Webster، ISBN 9780877790440
- Mark Dyczkowski (1989)، The Canon of the Śaivāgama، Motilal Banarsidass Pvt. Ltd.، ISBN 978-8120805958
- Andrew Fort (1998)، Jivanmukti in Transformation: Embodied Liberation in Advaita and Neo-Vedanta، State University of New York Press، ISBN 978-0791439043
- Frederic F. Fost (1998)۔ "Playful Illusion: The Making of Worlds in Advaita Vedanta"۔ Philosophy East and West۔ University of Hawai'i Press۔ 48 (3): 387–405۔ JSTOR 1400333۔ doi:10.2307/1400333
- Gavin Flood (1996)، An Introduction to Hinduism، Cambridge University Press، ISBN 978-0521438780
- Gavin Flood، Patrick Olivelle (2003)۔ The Blackwell Companion to Hinduism۔ Blackwell
- Andrew O. Fort (1998)، Jivanmukti in Transformation: Embodied Liberation in Advaita and Neo-Vedanta، SUNY Press
- Jeaneane D Fowler (2002)، Perspectives of Reality: An Introduction to the Philosophy of Hinduism، Sussex Academic Press، ISBN 978-1898723936[مردہ ربط]
- Ann Louise Gleig (2011)، Enlightenment After the Enlightenment: American Transformations of Asian Contemplative Traditions، RICE UNIVERSITY/ProQuest (PhD Thesis)
- Dominic Goodall (1996)، Hindu Scriptures, University of California Press، ISBN 978-0520207783
- John Grimes (1998)، "Book reviews: Early Advaita Vedanta and Buddhism: The Mahayana Context of the Gaudapadiya-karika, by Richard King. SUNY Press (1995)"، Journal of the American Academy of Religion، 66 (3): 684، doi:10.1093/jaarel/66.3.684، اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2011
- John A. Grimes (1990)، The seven great untenables: Sapta-vidhā anupapatti، Motilal Banarsidass
- John A. Grimes (1996)، A Concise Dictionary of Indian Philosophy: Sanskrit Terms Defined in English، SUNY Press
- J. G. Suthren Hirst (2005)، Śaṃkara's Advaita Vedānta: A Way of Teaching، Routledge
- William Indich (2000)، Consciousness in Advaita Vedanta، Motilal Banarsidass، ISBN 978-8120812512
- Daniel H. Ingalls (1954)، "Śaṁkara's arguments against the buddhists"، Philosophy East and West، 3 (4): 291–306، JSTOR 1397287، doi:10.2307/1397287
- N.V. Isaeva (1993)، Shankara and Indian Philosophy، SUNY Press
- Alan Jacobs (2004)، "Advaita and Western Neo-Advaita"، The Mountain Path Journal، Ramanasramam: 81–88، 18 مئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- Constance Jones، JamesD. Ryan (2006)۔ Encyclopedia of Hinduism۔ Infobase Publishing
- Richard H. Jones (2004)۔ "Shankara's Advaita"۔ Mysticism and Morality: A New Look at Old Questions۔ Lanham: Lexington Books۔ صفحہ: 95–114
- David J. Kalupahana (1994)، A history of Buddhist philosophy، Delhi: Motilal Banarsidass Publishers Private Limited
- Richard King (1995)، Early Advaita Vedānta and Buddhism: The Mahāyāna Context of the Gauḍapādīya-kārikā، SUNY Press
- Richard King (1999)۔ "Orientalism and the Modern Myth of "Hinduism""۔ NUMEN۔ BRILL۔ 46 (2): 146–185۔ doi:10.1163/1568527991517950
- Richard King (2002)، Orientalism and Religion: Post-Colonial Theory, India and "The Mystic East"، Routledge
- Klaus K. Klostermaier (1984)، Mythologies and Philosophies of Salvation in the Theistic Traditions of India، Wilfrid Laurier University Press، ISBN 978-0-88920-158-3
- Klaus k. Klostermaier (2007)، Hinduism: A Beginner's Guide، Oneworld Publications، ISBN 978-1851685387
- Thomas A. Kochumuttom (1999)، A buddhist Doctrine of Experience. A New Translation and Interpretation of the Works of Vasubandhu the Yogacarin، Delhi: Motilal Banarsidass
- John M. Koller (2006)، "Foreword"، A thousand teachings: the Upadeśasāhasrī of Śaṅkara، Motilall Banarsidass
- John M. Koller (2013)، "Shankara"، $1 میں Chad Meister، Paul Copan، Routledge Companion to Philosophy of Religion، Routledge
- Sisir Kumar Das (2006)۔ A history of Indian literature, 500–1399۔ Sahitya Akademi۔ ISBN 978-81-260-2171-0
- James G. Lochtefeld (2002)، The Illustrated Encyclopedia of Hinduism. Volume One: A-M، The Rosen Publishing Group
- James Lochtefeld (2002a)، "Brahman"، The Illustrated Encyclopedia of Hinduism, Vol. 1: A–M، Rosen Publishing، ISBN 978-0823931798
- David N. Lorenzen (2006)۔ Who Invented Hinduism: Essays on Religion in History۔ Yoda Press۔ ISBN 9788190227261
- Phillip Charles Lucas (2011)، "When a Movement Is Not a Movement"، Nova Religio، 15 (2): 93–114، JSTOR 10.1525/nr.2011.15.2.93، doi:10.1525/nr.2011.15.2.93
- James Madaio (24 May 2017)۔ "Rethinking Neo-Vedānta: Swami Vivekananda and the Selective Historiography of Advaita Vedānta1"۔ Religions۔ 8 (6): 101۔ doi:10.3390/rel8060101
- William Mahony (1997)۔ The Artful Universe: An Introduction to the Vedic Religious Imagination۔ State University of New York Press۔ ISBN 978-0791435809
- David Marek (2008)، Dualität – Nondualität. Konzeptuelles und nichtkonzeptuelles Erkennen in Psychologie und buddhistischer Praxis (PDF)
- Sengaku Mayeda (1992)، "An Introduction to the Life and Thought of Sankara"، $1 میں Sengaku Mayeda، A Thousand Teachings: The Upadeśasāhasrī of Śaṅkara، State University of New York City Press، ISBN 0-7914-0944-9
- Sengaku Mayeda (2006)، "An Introduction to the Life and Thought of Sankara"، $1 میں Sengaku Mayeda، A Thousand Teachings: The Upadeśasāhasrī of Śaṅkara، Motilal Banarsidass، ISBN 978-8120827714
- Sankara (2006)، "A Thousand teachings"، $1 میں Sengaku Mayeda، A Thousand Teachings: The Upadesasahasri of Sankara، Motilal Banarsidass، ISBN 978-81-208-2771-4
- June McDaniel (2004)، Offering Flowers, Feeding Skulls، Oxford University Press، ISBN 978-0-19-534713-5
- Axel Michaels (2004)، Hinduism. Past and present، Princeton, New Jersey: Princeton University Press
- Joseph Milne (April 1997)، "Advaita Vedanta and typologies of multiplicity and unity: An interpretation of nindual knowledge"، International Journal of Hindu Studies، 1 (1): 165–188، doi:10.1007/s11407-997-0017-6
- Brian Morris (2006)، Religion and Anthropology: A Critical Introduction، Cambridge University Press
- Paul E. Muller-Ortega (2010)، Triadic Heart of Siva: Kaula Tantricism of Abhinavagupta in the Non-Dual Shaivism of Kashmir، SUNY press
- TRV Murti (1955)۔ The central philosophy of Buddhism۔ Routledge (2008 Reprint)۔ ISBN 978-0-415-46118-4
- Hajime Nakamura (1950a)، A History of Early Vedanta Philosophy. Part One (1990 Reprint)، Delhi: Motilal Banarsidass Publishers Private Limited
- Hajime Nakamura (1950)، A History of Early Vedanta Philosophy. Part Two (2004 Reprint)، Delhi: Motilal Banarsidass Publishers Private Limited
- Maheswar Neog (1980)، Early History of the Vaiṣṇava Faith and Movement in Assam: Śaṅkaradeva and His Times، Motilal Banarsidass، ISBN 978-81-208-0007-6
- Andrew J. Nicholson (2010)، Unifying Hinduism: Philosophy and Identity in Indian Intellectual History، Columbia University Press
- Hugh Nicholson (2011)۔ Comparative Theology and the Problem of Religious Rivalry۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-977286-5
- Swami Nikhalananda (1931)، Drg-Drsya-Viveka. An inquiry inti the nature of the 'seer' and the 'seen.'، Sri Ramakrishna Asrama
- Christian Novetzke (2007)۔ "Bhakti and Its Public, International Journal of Hindu Studies"۔ 11 (3)
- Patrick Olivelle (1992)، The Samnyasa Upanisads، Oxford University Press، ISBN 978-0195070453
- Govind Chandra Pande (1994)، Life and Thought of Śaṅkarācārya، Motilal Banarsidass Publ، ISBN 978-81-208-1104-1
- S.L. Pandey (2000)، Pre-Sankara Advaita. In: Chattopadhyana (gen.ed.), "History of Science, Philosophy and Culture in Indian Civilization. Volume II Part 2: Advaita Vedanta"، Delhi: Centre for Studies in Civilizations
- John Plott (2000)، Global History of Philosophy: The Patristic-Sutra period (325 - 800 AD), Volume 3، Motilal Banarsidass، ISBN 978-8120805507
- Karl H. Potter (2008)، The Encyclopedia of Indian Philosophies: Advaita Vedānta Up to Śaṃkara and His Pupils، Delhi: Motilal Banarsidass Publishers Private Limited
- Karl Potter (2008a)، Encyclopedia of Indian Philosophies: Advaita Vedānta, Volume 3، Motilal Banarsidass، ISBN 978-8120803107
- Karl. H. Potter (1981)، Gaudapada, Encyclopedia of Indian Philosophies: Advaita Vedānta up to Śaṃkara and his pupils, Volume 3، Motilal Banarsidass، ISBN 81-208-0310-8
- Ramakrishna Puligandla (1997)، Fundamentals of Indian Philosophy، New Delhi: D.K. Printworld (P) Ltd.
- P.T. Raju (1971)، The Philosophical Traditions of India، Delhi: Motilal Banarsidass (1992 Reprint)
- P.T. Raju (1992)، The Philosophical Traditions of India، Delhi: Motilal Banarsidass Publishers Private Limited
- Anantanand Rambachan (1984)، The attainment of moksha according to Shankara and Vivekananda with special reference to the significance of scripture (sruti) and experience (anubhabva) (PDF)، University of Leeds
- Anantanand Rambachan (1991)، Accomplishing the Accomplished: Vedas as a Source of Valid Knowledge in Sankara، University of Hawaii Press، ISBN 978-0-8248-1358-1
- Anatanand Rambachan (1994)، The Limits of Scripture: Vivekananda's Reinterpretation of the Vedas، University of Hawaii Press
- Philip Renard (2010)، Non-Dualisme. De directe bevrijdingsweg، Cothen: Uitgeverij Juwelenschip
- Antonio Rigopoulos (1998)۔ Dattatreya: The Immortal Guru, Yogin, and Avatara: A Study of the Transformative and Inclusive Character of a Multi-faceted Hindu Deity۔ State University of New York Press۔ ISBN 978-0-7914-3696-7
- Steven Rosen (2006)، Essential Hinduism، Greenwood Publishing Group، ISBN 9780275990060
- Pulasth Soobah Roodurmum (2002)، Bhāmatī and Vivaraṇa Schools of Advaita Vedānta: A Critical Approach، Delhi: Motilal Banarsidass Publishers Private Limited
- Candradhara Sarma (1996)۔ The Advaita Tradition in Indian Philosophy۔ Motilal Banarsidass۔ ISBN 978-81-208-1312-0
- Arvind Sharma (1995)، The Philosophy of Religion and Advaita Vedanta، Penn State University Press، ISBN 978-0271028323
- Arvind Sharma (2007)، Advaita Vedānta: An Introduction، Motilal Banarsidass، ISBN 978-8120820272
- Chandradhar Sharma (1996)۔ The Advaita Tradition in Indian Philosophy۔ Delhi: Motilal Banarsidass
- Chandradhar Sharma (1997)، A Critical Survey of Indian Philosophy، Motilal Banarsidass، ISBN 81-208-0365-5
- Daniel Sheridan (1986)۔ The Advaitic Theism of the Bhāgavata Purāṇa۔ Columbia: South Asia Books۔ ISBN 81-208-0179-2
- Daniel Sheridan (1991)۔ Texts in Context: Traditional Hermeneutics in South Asia (Editor: Jeffrey Timm)۔ State University of New York Press۔ ISBN 978-0791407967
- Sivananda (1977)، Brahma Sutras، Motilal Banarsidass
- K. Sivaraman (1973)، Śaivism in Philosophical Perspective: A Study of the Formative Concepts, Problems, and Methods of Śaiva Siddhānta، Motilall Banarsidass
- David Smith (2003)، The Dance of Siva: Religion, Art and Poetry in South India، Cambridge University Press، ISBN 978-0-521-52865-8
- Munagala Venkatramaiah (2000)، Talks With Sri Ramana Maharshi: On Realizing Abiding Peace and Happiness، Inner Directions، ISBN 1-878019-00-7
- Karel Werner (1994)، The Yogi and the Mystic، Routledge
- Frank Whaling (1979)۔ "Shankara and Buddhism"۔ Journal of Indian Philosophy۔ 7 (1): 1–42۔ doi:10.1007/BF02561251
- Ken Wilber (2000)، Integral Psychology، Shambhala Publications
- Yogani (2011)، Advanced Yoga Practices Support Forum Posts of Yogani, 2005–2010، AYP Publishing