مندرجات کا رخ کریں

درۂ خیبر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نظرثانی بتاریخ 11:09، 2 نومبر 2024ء از Fahads1982 (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (سانچہ/سانچہ جات کا اضافہ)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
درہ خیبر میں موجود باب خیبر

دیکھیے: خیبر (ضد ابہام)

پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر پشاور سے چند میل دور، 33 میل طویل ایک درہ۔ اونچے اونچے خشک اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ چوڑائی ایک جگہ صرف دس فٹ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاریخ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے برصغیر میں شمال مغرب کی طرف سے جتنے فاتح آئے۔ اسی راستے سے آئے۔ انگریزوں نے 1879ء میں اس پر قبضہ کیا۔ درہ خیبر جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم تک چلا گیا ہے۔ جو پاک افغان سرحد کی آخری چوکی ہے۔باب خیبر اور قلعہ جمرود پاس ہی واقع ہیں۔

مشہور زمانہ ڈیورنڈ لائن درہ خیبر کے بلند پہاڑوں سے گزرتی ہوئی اپنا طویل فاصلہ طے کرتی ہے یہ مشہور درہ جو تاریخی اہمیت کا حامل ہے، سلسلہ کوہ سلیمان میں پشاور سے ساڑھے 17 کلومیٹر(تقریبا 11 میل) کے فاصلے پر قلعہ جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم (پاک افغان سرحد)56 کلومیٹر (35 میل) تک پھیلا ہوا ہے برصغیر اور جنوبی ایشیاء کے وسیع میدانوں تک رسائی کے لیے چاہے وہ نقل مکانی کی خاطر ہو یا حملے کی، اس درے نے ہمیشہ تاریخ میں اہم مقام کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ درہ قوموں، تہذیبوں، فاتحوں اور نئے نئے مذاہب کی بقاء اور فنا عروج اور زوال کی ایک مکمل تاریخ سمجھا جاتا ہے۔

اصل میں یہ رہ درہ جمرود کے کچھ آگے شادی گھیاڑ کے مقام سے شروع ہو کر پاک افغان سرحد پر واقع مقام طورخم تک پہنچتا ہے جو تقریباََ 33 میل لمبا ہے۔ جمرود کے مقام پر درہ خیبر کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے شاہراہ پر ایک خوبصورت محرابی دروازہ بنایا گیا ہے جسے ’’باب خیبر‘‘ کہتے ہیں جو مقامی ثقافت کی ایک علامت بھی ہے۔ باب خیبر کا دروازہ جون1963ء میں بنا۔ باب خیبر پر مختلف تختیاں بھی نصب ہیں جن پر اس درہ سے گزرنے والے حکمرانوں اور حملہ آوروں کے نام درج ہیں۔باب خیبر کے پاس ایک جرگہ ہال بھی موجود ہے جہاں قبائلی نمائندوں کے اجلاس منعقد ہوا کرتے ہیں، جمرود میں ایک اونچے مقام پر مٹیالے رنگ کا قلعہ بھی ہے جس کی شکل و صورت ایک بحری جہاز کے ساتھ ملتی جلتی نظر آ رہی ہوتی ہے اس کو سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے 1836ء میں درہ خیبر کی حفاظت کے لیے تعمیر کروایا تھا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تین بار درہ خیبر کا دورہ کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1948ء میں قائد اعظم درہ خیبر آئے تو انھوں نے قبائلی عوام پر پورے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قبائلی علاقوں سے فوجیں واپس بلالیں اور مقامی لوگوں کی تعریف کی۔ درہ خیبر پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارت اور آمد و رفت کا راستہ ہے۔

سلاطین کی گزرگاہ

[ترمیم]

یہاں نصب کتبے کے مطابق جن حملہ آوروں کا درہ خیبر سے گذر ہوا ان کی تفصیل اس پر درج ہے سلطانی خاندان سلطان محمود غزنوی کے علاوہ آریا 1600 قبل مسیح ،یونانی حکمران 326قبل مسیح ،موریہ خاندان 190.223قبل مسیح ،چنگیز خان اور اس کے جانشین 1220تا 1369بعد از مسیح ،تیموریہ خاندان 1380تا 1501،مغلیہ خاندان 1526تا 1729، بابر خاندان 1507عیسوی میں اس درے سے گذرا ،درانی خاندان 1747تا 1818،سکھ راج 1825تا 1840،برطانوی راج 1826تا 1947،اسلامی جمہوریہ پاکستان 1947سے تاحال درج ہے

نگارخانہ

[ترمیم]