شرح سود (interest rate) سے مراد قرض کی رقم کا کرایہ ہے جو قرض لینے والا ایک مقررہ مدت کے بعد قرض دینے والے کو بطور سود ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اسے عام طور پر فیصد میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر شرح سود دس فیصد سالانہ ہے تو قرض لینے والے کو ہر سو روپے کے قرض پر ایک سال بعد دس روپیہ قرض دینے والے کو سود ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد اگر قرض لینے والا اصل رقم (Principal) بھی واپس ادا کر سکے تو قرض کا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ مزید سود ادا کرنے سے آزاد ہو جاتا ہے۔

پچھلے 60 سالوں میں امریکا کی شرح سود۔ جنوری 1980ء میں جب سونے چاندی کی قیمتیں اچانک بڑھنے لگی تھیں تو اسے روکنے کے لیے فیڈرل ریزرو نے شرح سود 20 فیصد تک بڑھا دی تھی۔ 2009 کے بعد اسٹاک مارکیٹوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے شرح سود گرائی گئی ہے۔[1]
عمودی سرمئی لکیروں سے وہ عرصہ واضح ہوتا ہے جب امریکا میں معیشت سست روی (recession) کا شکار تھی۔

شرح سود میں اضافے کا نتیجہ

ترمیم

جب بھی کسی ملک میں بینکوں کی طرف سے دیے جانے والے قرضوں پر شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو ملک کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں۔ چونکہ اس سے معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے اس لیے کوئی بھی ملک شرح سود میں اضافہ کرنا پسند نہیں کرتا۔ معیشت میں آنے والی تبدیلیاں یہ ہیں:

  • جب شرح سود بڑھتی ہے تو سرمائیہ کار (انویسٹر) پرانی انویسٹمنٹ سے پیسہ نکال کر نئی انویسٹمنٹ میں لگا دیتے ہیں مثلاً پرانے حکومتی بونڈز (قرضے) بیچ کر نئے حکومتی بونڈز خرید لیتے ہیں۔
  • جب شرح سود لمبے عرصے تک بہت کم رہنے کے بعد بڑھتی ہے تو بینک فیل ہونے لگتے ہیں[2] اور اسٹاک مارکیٹ گرنے لگتی ہے۔
  • قرض لینے کا رجحان کم ہو جاتا ہے کیونکہ قرض کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ نئی سرمائیہ کاری کم ہو جاتی ہے اور مقابلے کی فضا (Competition) کم ہو جاتی ہے جس سے قیمتیں بڑھنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ مہنگائ کی وجہ سے خریداری(کھپت-Consumption) کم ہو جاتی ہے۔
  • قسطوں پر مکان یا گاڑی خریدنے کا رجحان کم ہو جاتا ہے کیونکہ اب ہر قسط پہلے سے زیادہ گراں ہو جاتی ہے۔
  • نئی سرمائیہ کاری اور کھپت کم ہونے سے ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
  • بچت کا رجحان بڑھ جاتا ہے کیونکہ بینک میں بچت کی رقم رکھنے پر اب زیادہ منافع ہوتا ہے۔ بچت کی وجہ سے بازاروں میں مال کی فروخت اور کم ہو جاتی ہے۔
  • ملکی کرنسی کی قیمت بڑھ جاتی ہے کیونکہ دوسرے ممالک کے لوگ اپنی بچت اب بلند شرح سود والے ملک میں منتقل اور انویسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں[3] جسے carry trade کہتے ہیں۔ ملکی کرنسی کی قیمت بڑھنے سے برآمدات میں کمی آ جاتی ہے جبکہ درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔
  • جب بچت اور بینک ڈپازٹ بڑھتے ہیں تو زیر گردش نوٹوں کی مقدار میں کمی آتی ہے۔ افراط زر (کرنسی کی فراوانی) کم ہونے لگ جاتی ہے۔
  • حکومت پر واجب الادا قرضوں کی قسطیں بھی بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت عوام پر ٹیکس بڑھا دیتی ہے۔ اس سے نئی سرمائیہ کاری کا رجحان اور بھی کم ہو جاتا ہے۔
  • امیروں کو اپنی بچت پر زیادہ سود ملتا ہے اس لیے امیر اور امیر ہو جاتا ہے جبکہ غریب پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔[4]
  • جب شرح سود بڑھتی ہے تو پہلے سے جاری شدہ حکومتی بونڈز (قرضوں) کی قیمت گرتی ہے[5][6] جس کی وجہ سے سونا مہنگا ہو جاتا ہے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے لوگ اس موقع کو غنیمت جان کر اپنا سونا بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔

شرح سود میں کمی کا نتیجہ

ترمیم
  • جب شرح سود کم ہو جاتی ہے تو لوگ نیا قرضہ لے کر اس رقم سے پرانا قرضہ بے باق کر دیتے ہیں۔
  • جب شرح سود کم ہو جاتی ہے تو ہر منچلا قرض لینے کا خواہش مند ہو جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ قرض واپس کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس طرح Risky قرضے بہت بڑھ جاتے ہیں جو بینکوں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
  • لوگ بینکوں سے قرض لے کر اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیتے ہیں[7] یا زمین خرید لیتے ہیں۔ اس سے شئیرز اور پلاٹوں کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ ایکنومک بلبلہ آخرکار پھٹتا ہے جس سے بینک بھی کنگال ہو جاتے ہیں۔ جاپان میں شرح سود کم رکھنے کی وجہ سے چالیس سالوں میں (یعنی 1949ء سے 1989ء تک) اسٹاک مارکیٹ انڈیکس (Nikkei index) میں 400 گنا اضافہ ہوا۔ اس asset bubble کو کامیابی سے ختم کرنے کے لیے 1989ء میں بینک آف جاپان نے شرح سود بڑھا دی اور جائیدادوں کی قیمتیں بتدریج دس گنا کم ہو گئیں۔[8] لوگوں کا نقصان سینٹرل بینکرز کا منافع ہوتا ہے۔ آج جاپان کی کرنسی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
  • حکومت اور بڑی بڑی کارپوریشنوں کو شرح سود میں کمی سے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے اوپر بڑے بڑے قرضے ہوتے ہیں جبکہ ان کے منافع دینے والے اثاثے کم ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ملازمین جن کو پنشن ملنی ہوتی ہے یا جن کا انشورنس کی آمدنی پر انحصار ہوتا ہے وہ شدید مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
  • جب لمبی مدت کے لیے شرح سود بہت کم ہو جاتی ہے تو امیروں کی اجارہ داری (مونوپولی) میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ چھوٹے بزنس ڈوب جاتے ہیں۔[9]
  • کم شرح سود مردہ معیشت (zombie companies) کو عارضی طور پر ڈوبنے سے بچاتی ہے۔

شرح سود کیوں بڑھانی پڑتی ہے؟

ترمیم
  • اگر شرح سود صفر ہو تو کوئی بھی کسی کو محنت سے کما کر قرض دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ صفر یا منفی شرح سود پر صرف وہی قرض دے سکتا ہے جو نوٹ چھاپ سکتا ہے یعنی مرکزی بینک۔
  • جب دوسرے ممالک حکومتی بونڈز خریدنا بند کر دیتے ہیں تو شرح سود بڑھانی پڑتی ہے۔[10]
  • جب کسی ملک پر قرض بہت بڑھ جاتا ہے تو اُسے شرح سود بڑھانی پڑتی ہے۔[11]
  • جب حکومت زیادہ نوٹ چھاپتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے ساتھ شرح سود میں اضافہ بھی لازمی ہوتا ہے ورنہ لوگ اپنے پیسے بینکوں میں رکھنے کی بجائے کسی اور چیز (سونا، چاندی، تانبا وغیرہ) کی خریداری میں لگا دیتے ہیں جسے قیمت بڑھنے کے بعد بیچ کر بینک سے زیادہ منافع کما سکیں۔ یعنی مارکیٹ کا منافع بینک کی شرح سود کو گرنے نہیں دیتا۔
  • جہاں قرض کی واپسی کے امکانات کم ہوں وہاں بینک شرح سود بڑھا دیتے ہیں جیسا کہ کریڈٹ کارڈ۔
  • جب سونے کی قیمت بڑھنے لگتی ہے تو اسے گرانے کے لیے مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کر دیتے ہیں تاکہ ہارڈ کرنسی (سونے چاندی کے سکے) کا دور واپس نہ آ جائے۔
  • جب ملکی کرنسی کی قیمت بہت گرنے لگتی ہے تو اسے سہارا دینے کے لیے مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ جب روبل کی قیمت اچانک گرنے لگی تو 15 دسمبر، 2014ء کو روس نے شرح سود 10.5 سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی۔[12] 27 فروری 2022ء کو یوکرین پر حملہ کرنے کے جرم میں امریکا اور یورپی یونین نے روس کے بینکوں کو SWIFT سے منقطع کر دیا (یعنی روسی بینک دنیا بھر کے بینکوں سے لین دین نہیں کر سکیں گے)۔ اس سے توقع کے مطابق روبل کی قیمت گرنی شروع ہو گئی۔ اس پر روس نے اگلے دن شرح سود 9.5 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی۔[13]

شرح سود کیوں گرانی پڑتی ہے؟

ترمیم
  • جب اسٹاک مارکیٹ بہت زیادہ گر جاتی ہے تو مرکزی بینک اسے سہارا دینے کے لیے شرح سود گرا دیتے ہیں۔ [14]
  • جب کساد بازاری (recession) بہت بڑھ جاتی ہے تو بینک شرح سود گرا دیتے ہیں تاکہ لوگ سستے قرضے لے کر کاروبار کر سکیں اور معیشت کو بڑھاوا ملے اور بے روزگاری کم ہو۔
  • جب حکومتی بونڈز (قرضے) ضرورت سے زیادہ بکنے لگیں تو شرح سود گرانی پڑتی ہے تاکہ حکومت پر سود دینے کا بوجھ کچھ کم ہو جائے۔[15]

جب شرح سود گرانی ہو تو سینٹرل بینک بڑی مقدار میں نوٹ چھاپنا شروع کر دیتے ہیں جسے quantitative easing کہتے ہیں۔[16]
جنوری 2015ءمیں 11 ممالک کے سینٹرل بینکوں نے شرح سود میں کمی کری۔ فروری میں مزید 7 اور مارچ کے وسط تک مزید 6 دفعہ شرح سود کم کی گئی۔ اس طرح صرف ڈھائی مہینوں میں 24 ممالک کو شرح سود گرانی پڑی۔[17]

ستمبر 2024ء میں دنیا بھر میں سینٹرل بینکوں نے 26 دفعہ شرح سود گرائی۔ معیشت کو بڑھاوا دینے کے لیے پچھلے سو سالوں میں صرف ایک مہینے میں ایسا چوتھی بار ہوا ہے۔[18]

سن 2015 میں سینٹرل بینکوں کا شرح سود گرانا [19]
1 Jan. 1 ازبکستان
2 Jan. 7/Feb. 4 رومانیا
3 Jan. 15 سوئزرلینڈ
4 Jan. 15 مصر
5 Jan. 16 پیرو
6 Jan. 20 ترکی
7 Jan. 21 کینیڈا
8 Jan. 22 یورپی سینٹرل بینک
9 Jan. 24 پاکستان
10 Jan. 28 سنگاپور
11 Jan. 28 البانیہ
12 Jan. 30 روس
13 Feb. 3 آسٹریلیا
14 Feb. 4 & 28 چین
15 Jan. 19/22/29/Feb. 5 ڈنمارک
16 Feb. 13 سوئیڈن
17 February 17, انڈونیشیا
18 February 18, بوٹسوانا
19 February 23, اسرائیل
20 March 1, چین
21 Jan. 15, March 3, انڈیا
22 March 4, پولینڈ
23 March 11, تھائی لینڈ
24 March 11, جنوبی کوریا

منفی شرح سود

ترمیم

سود کو قرض لینے کا معاوضہ یا جرمانہ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن جب شرح سود منفی (Negative) ہو جاتی ہے تو یہ قرض لینے کا انعام بن جاتی ہے۔ ہارڈ کرنسی میں شرح سود کبھی منفی نہیں ہو سکتی۔ لیکن بغیر محنت کے تخلیق ہونے والی کاغذی کرنسی یا الیکٹرونک کرنسی میں یہ اس وقت ممکن ہو جاتی ہے جب معیشت Deflation کا شکار ہو جاتی ہے۔ منفی شرح سود دوسرے ممالک سے کاغذی سرمائے کی یلغار کو روکنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اگر ایسی یلغار نہ روکی جائے تو ملکی کرنسی کی قیمت بڑھ جاتی ہے جو مستقبل میں ایکسپورٹ گرا دیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں منفی شرح سود carry trade کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ منفی شرح سود سینٹرل بینکوں کے لیے بڑا مشکل وقت ہوتا ہے۔[20]
جب شرح سود منفی ہو جاتی ہے تو بینک میں رقم رکھنے پر کوئی سود نہیں ملتا۔ رقم ہر سال بڑھنے کی بجائے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں رقم کے مالک کو یہ دھمکی ملتی ہے کہ اپنے پیسے خرچ کر دو ورنہ یہ ضبط ہو جائینگے۔
اس کے برعکس بینک سے قرضہ لینے والے کو اصل رقم سے کچھ کم رقم واپس کرنی پڑتی ہے یعنی انعام ملتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب معیشت بالکل سست ہو چکی ہو اور سینٹرل بینک اسے تیز کرنے کے لیے کھپت (Consumption) بڑھانا چاہتے ہیں۔[21] جون 2014ءسے یورپیئن سینٹرل بینک نے شرح سود منفی کر رکھی ہے۔[22] ڈنمارک اور سوئزرلینڈ میں بھی شرح سود منفی ہو چکی ہے۔ ڈنمارک اگرچہ یورو کرنسی استعمال نہیں کرتا مگر اس نے اپنی کرنسی کرون کو یورو سے منسلک کیا ہوا ہے۔سوئیڈن نے 12 فروری، 2015ء کو شرح سود منفی کر دی اور 18 مارچ، 2015ء کو شرح سود منفی 0.1 سے گرا کر منفی 0.25 فیصد کر دی۔[23]

29 جنوری، 2016ء کو جاپان نے بھی شرح سود گرا کر منفی 0.1 فیصد کر دی ہے۔ اس طرح دنیا کی 20 فیصد جی ڈی پی اب ایسے سینٹرل بینکوں کے کنٹرول میں ہے جہاں شرح سود منفی ہو چکی ہے۔[24]

منفی شرح سود
سینٹرل بینک شرح سود- فیصد
سوئیڈن منفی 1.1
سوئیزرلینڈ منفی 0.75
ڈنمارک منفی 0.65
یورپیئن سینٹرل بینک منفی 0.3
جاپان منفی 0.1


"جب امریکی سینٹرل بینک اپنے ملک کے بینکوں کو مفت رقم بانٹنے میں مصروف تھا تو یورپی یونین میں شرح سود منفی ہو چکی تھی جس کی وجہ سے لوگ بینکوں سے اپنا پیسہ نکال رہے تھے اور اس طرح یورپی بینکوں کی کنگالی کا خطرہ اور بھی بڑھ رہا تھا۔ اگر ہدف یہ تھا (جو درحقیقت تھا) کہ امریکی بینکوں کو عوام کے پیسے سے امداد دے کر کنگالی سے بچا لیا جائے تو یہ واضح ہے کہ برنانکے کا منصوبہ یورپی سینٹرل بینک سے کہیں بہتر تھا"
"While the Fed has been busy giving banks free money by paying interest on excess reserves, banks in the EU have suffered with negative interest rates, essentially taking money from banks and making them more insolvent.
If the goal was to bail out the banks at public expense (and it was), it's clear Bernanke had a far better plan than the ECB."[25]
"منفی شرح سود مردہ معیشت کو رواں رکھتی ہے اور پیداواری طبقوں اور بچت کنندگان کی بہت ساری دولت نکمے اور مقروضوں کو منتقل کرتی ہے۔"
"Negative rates zombify the economy and are a massive transfer of wealth from savers and productive sectors to the indebted and inefficient."[26]

سود ِ مرکب

ترمیم

جب بروقت ادائیگی نہ کرنے پر سود کی رقم پر بھی سوددینا پڑے تو اسے سود مرکب کہتے ہیں۔
اگر شرح سود ایک فیصد ماہانہ ہو اور ادائیگی ایک سال بعد کی جائے تو یہ 12 فیصد کی بجائے 12.68 فیصد بن جاتی ہے۔ اسے Effective Annual Rate کہتے ہیں۔
اسی طرح 4 فیصد ماہانہ شرح سود سال کے آخیر میں 48 کی بجائے 60 فیصد سے تجاوز کر جاتا ہے۔(اگر ادائیگی ایک سال بعد کی جائے۔)

شرح سود (فیصد)
ماہانہ شرح سود بظاہر سالانہ شرح سود حقیقی سالانہ شرح سود[27]
1 12 12.68
2 24 26.82
3 36 42.58
4 48 60.1
5 60 79.59
6 72 101.22
7 84 125.22

ایکسپونینشیئل گروتھ (Exponential Growth)

ترمیم

سود اگر وقت پر ادا نہ کیا جائے تو اسے بھی قرض کی رقم میں جمع کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح قرض کی رقم بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسے "سود در سود" یا "سود مرکب" کہتے ہیں۔
نہ ادا کرنے پر قرض شروع میں بہت آہستہ آہستہ بڑھتا ہے مگر آگے چل کر بہت تیزی سے بڑھنے لگ جاتا ہے جیسے شطرنج کے ہر اگلے خانے میں مقدار دوگنی کرتے چلے جانے سے ہوتا ہے۔
اگر شرح سود 5 فیصد سالانہ ہو تو قرض کی رقم کو دگنا ہونے میں لگ بھگ پندرہ سال لگتے ہیں اور بظاہر یہ بُرا سودا نہیں لگتا۔ لیکن 50 سال بعد یہی قرض گیارہ گنا، سو سال بعد 130 گنا اور500 سال بعد 40 ارب گنا بن جاتا ہے۔
اگر 5 فیصد سالانہ شرح سود پر کوئی ملک صرف ایک گرام سونا قرض لے تو سود مرکب کی وجہ سے 1310 سال بعد قرض اتارنے کے لیے اُس ملک کو پوری دنیا کے وزن کے برابر سونا ادا کرنا پڑے گا یعنی 6000 ارب ارب ٹن۔ دنیا میں دستیاب شدہ سونے کی کل مقدار صرف ایک لاکھ 70 ہزار ٹن ہے۔

5 فیصد سالانہ شرح سود پر لیا گیا قرض
کتنے سالوں بعد قرض کتنے گنا بن گیا
1 1.05 گنا
15 2.08گنا
50 11.47 گنا
100 131.50 گنا
200 17,292.58 گنا
500 39,323,261,827.22 گنا
1000 1,546,318,920,731,990,000,000.00 گنا

اقتصادی ترقی

ترمیم

جب بھی کوئی ملک ترقی کی جانب گامزن ہوتا ہے تو وہاں بے روزگاری میں کمی آتی ہے لیکن تین چیزوں میں اضافہ لازمی ہو جاتا ہے۔[28]

  • شرح سود
  • توانائی کی کھپت (پٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی، کوئلہ وغیرہ)
  • حکومت کو ٹیکس سے ہونے والی آمدنی

شرح سود اس لیے بڑھتی ہے کیونکہ قرضوں کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جب معیشت سست روی کی جانب گامزن ہوتی ہے (جسے مندی recession کہتے ہیں) تو بے روزگاری یکدم بڑھ جاتی ہے۔[29][30] اور قرضوں کی طلب کم ہو جاتی ہے۔
شرح سود بڑھنے کی سب سے عام وجہ افراط زر (inflation) یعنی نوٹ چھپائی ہوتی ہے جو مہنگائی اور غربت میں اضافہ کرتی ہے۔[31] اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ 30 سالوں کے دوران ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سود 22 جون 1996ء میں 20 فیصد مقرر کی گئی تھی، جسے 362 دنوں بعد 18 جون 1997ء کو کم کر کے 19 فیصد کر دیا گیا تھا۔[32] لیکن 2023ء میں ایک نیا ریکارڈ بنا جب شرح سود 22 فیصد ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ستمبر 2023ء میں افراط زر بڑھ کر 31.4 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ مہنگائی کم کرنے کے لیے حکومت کو پٹرول ڈیزل وغیرہ کے دام کم کرنے پڑے تھے۔[33]


EFFECTS OF SHOCKS ON OBSERVABLE VARIABLES[34]
Rise in: Income Money Credit Interest Rate
Bank Reserves + + + -
Money Demand - + - +
Credit Supply + + + +
Credit Demand - - + -
Commodity Demand + + + +

اقتباس

ترمیم
یورپیئن سینٹرل بینک کی شرح سود[35]
کب تبدیل ہوئی کتنے فیصد ہو گئی
september 04 2014 0.050 %
june 05 2014 0.150 %
november 07 2013 0.250 %
may 02 2013 0.500 %
july 05 2012 0.750 %
december 08 2011 1.000 %
november 03 2011 1.250 %
july 07 2011 1.500 %
april 07 2011 1.250 %
may 07 2009 1.000 %
  • جب کرنسی تخلیق کی جا سکتی ہے تو شرح سود بے معنی ہو جاتی ہے۔ شرح سود کا تعلق ہارڈ کرنسی سے ہوا کرتا تھا جو تخلیق نہیں کی جا سکتی جیسے سونے چاندی کے سکے۔
When money is created out of nothing, the true interest rate is not 8% or 9% or even 22%. It is infinity.[36]
  • سنہ 2009ء سے پہلے کے 315 سالوں میں شرح سود کبھی 2 فیصد سے کم نہیں رہی۔[37]
  • بڑے بینکوں کے لیے شرح سود صفر ہو چکی ہے جبکہ وہی بینک عوام سے کریڈٹ کارڈ پر 18 فیصد سود وصول کر رہے ہیں۔[38]
  • سنہ 2007ء کے وسط سے دنیا بھر میں 511 دفعہ شرح سود کم کی گئی۔
  • 36 ممالک میں حقیقی شرح سود منفی ہو چکی ہے۔
  • پچھلے 20 مہینوں میں دنیا بھر میں معیشت کو تحریک دینے کی 385 پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔
  • پچھلے مہینے G20 ممالک میں کسی کا بھی بجٹ متوازن نہیں تھا۔
  • ریٹنگ ایجنسی Moody's نے واشنگٹن کو وارننگ دی ہے کہ اس کے قرضوں پر اعتبار دوبارہ کم کیا جا سکتا ہے۔[39]
  • اس صدی کے اوائل میں آخری دفعہ فیڈرل ریزرو نے شرح سود 2006 میں بڑھائی تھی۔ اس کے نتیجے میں لوگ اپنے مکان کی قسطیں ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور صرف دو سال بعد امریکا میں زبردست مالی بحران آیا۔ اس کے بعد سے فیڈرل ریزرو نے شرح سود لگ بھگ صفر کر رکھی تھی۔ کئی بار تسلی دینے کے بعد کہ وہ شرح سود بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے، آخر کار 16 دسمبر، 2015ء میں فیڈرل ریزرو نے شرح سود بڑھا دی مگر صرف 0.25 فیصد۔ اس کے بعد بتدریج اس میں قدرے اضافہ کیا لیکن نتیجہ اتنا بُرا نکلا کہ بعد میں کئی دفعہ شرح سود گرانی پڑی اور آخرکار منفی شرح سود سے بچنے کے لیے مارچ 2020ء سے نوٹ چھپائی (quantitative easing) شروع کرنی پڑی۔[40]
  • 2008ء کے مالی بحران کے بعد اپریل 2011ء میں یورپی سینٹرل بینک نے پہلی دفعہ شرح سود ایک فیصد سے بڑھا کر 1.25% کی جسے پھر جولائی میں 1.5 فیصد کر دیا۔ مگر نتیجہ اتنا بھیانک نکلا کہ بعد میں شرح سودکئی دفعہ گرانی پڑی۔ نومبر 2013ء میں یہ گر کر 0.25 اور 4 ستمبر، 2014ء کو یہ 0.05 فیصد رہ گئی اور اس کے بعد منفی ہو گئی۔[41]
  • سرمائیہ دارانہ نظام (Capitalism) کی بنیاد امید ہے۔ امید کہ انویسٹر کو اپنی سرمائیہ کاری پر زیادہ سود ملے گا۔
“Capitalism depends on hope - rational hope that an investor gets his or her money back with an attractive return,”[42]
  • اور اسی امید پر ہی لوگ اپنی اصل دولت بینکاروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو رقم بڑھا کر ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے۔
hope that could be used to induce people into surrendering their real wealth in exchange for a promise of greater wealth...[43]
  • (حکومتی بونڈ پر) ڈسکاونٹ ریٹ لوگوں کے خرچ کرنے کے رجحان سے کنٹرول ہوتا ہے جبکہ شرح سود لوگوں کی بچت کرنے (یعنی خرچ نہ کرنے) کی خواہش کے طابع ہوتی ہے۔
The discount rate is governed by the propensity to consume, while the rate of interest is governed by the propensity to save.[44]
  • سائنسی ایجادات کی طرح ثالیثوں (بینکوں) کی مدد سے قرضے دینا (مراد نوٹ چھاپنا) ایک زبردست ایجاد تھی۔ اور سائنسی ایجادات کی طرح قرضوں کے بھی خطرات، نقصانات، غلط استعمال اور تاریک پہلو ہوتے ہیں۔ بینک کے نظام میں ایک بھیانک بنیادی خامی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ وہ کم مدت کے قرضے (ڈپازٹ) کے عوض لمبی مدت کے لیے قرضے دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بینک لیکویڈیٹی کی کمی کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں جو بینکوں پر عوام کا اعتماد ختم کر سکتا ہے۔ اور جب وبا کی طرح ایسا ہوتا ہے تو پورا نظام بیٹھ جاتا ہے جس کی بڑی بھاری قیمت ٹیکس دہندگان اور معیشت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ پچھلے 25 سالوں میں دنیا کے 70 فیصد ممالک میں یا تو بینک کنگال ہو گئے یا انھیں عوام کے پیسے سے امداد دی گئی۔۔۔ بینک اب مستقبل کی پیشنگوئی کرنے کا دھندا بھی کرنے لگے ہیں۔
Like scientific inventions, credit via intermediaries was an ingenious invention. Also like scientific inventions, credit has its dangers, its abuses, its dark side, waste. Banks have a serious in-built flaw. This is that they borrow short to lend long. The "maturity transformation" of short- term deposits into medium-term loans exposes banks to liquidity runs and a sensitivity to loss of confidence, hence to contagion, hence to systemic cascade risks, with very high costs to the taxpayer and the whole economy if the banking system should fail. In the past 25 years, perhaps 70 per cent or more of the world's nations have experienced either a systemic bank collapse or a major collapse necessitating the infusion of large amounts of the citizens' [45]money...Banks are also engaged in the business of prophecy...By Philip R. Wood
  • مارکیٹ میں طے ہونے والی شرح سود مارکیٹ کے مستقبل کا آئینہ ہوتی ہے۔ لیکن سینٹرل بینک کی طے کردہ شرح سود گمراہ کن ہوتی ہے۔
market-determined interest rates inform. Manipulated [central bank controlled] interest rates misinform.[46]
  • جب مرکزی بینک شرح سود صفر کر دیتے ہیں یا مارکیٹ کی سطح پر نہیں رکھتے تو غلط سرمائیہ کاری فروغ پاتی ہے۔ اور جب تک ایسی صورت حال برقرار رہتی ہے غلط سرمائیہ کاری بڑھتی جاتی ہے۔ اس سے پیداواری معیشت سخت متاثر ہوتی ہے۔ کوئی پیداواری بزنس کیوں کرے گا جب اُسے غیر پیداواری (مراد اسٹاک) مارکیٹ سے مقابلہ کرنا پڑے گا جسے غلط سرمائیہ مدد فراہم کرتا ہے؟
When central banks hold the cost of capital at zero, or at levels inconsistent with market forces, this induces mal-investment in the system. And the longer this environment persists the further this mal-investment is promoted.
I think most people understand that but what this translates into is severe deterioration in productivity growth. After all, why build a productive business when you are forced to compete with unproductive competitors who are supported by mal-investment?[47]
  • 2008ء سے شروع ہونے والی کم ترین شرح سود کی پالیسی نے ثابت کر دیا کہ امریکی ڈالر درختوں پر اُگتے ہیں۔
Ten years of ultra-­low rates, beginning in 2008, proved that money grew on trees. From Silicon Valley to Washington, D.C., from venture capital to private equity to cryptocurrency to private credit and the public debt, there was money for very nearly anything and everything.[46]
  • جب شرح سود صفر کے نزدیک ہوتی ہے تو اثاثوں (اسٹاک، بونڈز، پلاٹ وغیرہ) کی قیمتیں بڑی تیزی سے بڑھتی ہیں۔
Near-zero interest rates are literally rocket fuel for the acceleration of asset bubbles.[48]
  • وہ واحد طاقت جو لوگوں کو اپنا سونا اُگلنے پر مجبور کرتی ہے وہ زیادہ شرح سود ہے۔
"Interest is the only force that can pull gold out of private hoards and into circulation."[49]
  • اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ تخلیق دولت (Credit formation) کے لیے سینٹرل بینک کا شرح سود گرا دینا اور نوٹ چھاپنا کافی نہیں ہوتا۔ تخلیق دولت کے لیے قرضوں کی طلب میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔
The paper shows that supply of base money and reduced interest rates by the Central Banks are ineffective in driving credit formation. Credit formation needs to be pulled through by borrower demand. 'Seth Carpenter Monetary Transmission Mechanism'[50]
Einstein said it: the biggest force in the Universe is compound interest.[51]
  • ارجنٹینا میں شرح سود 60 فیصد ہے۔[52]
  • زمبابوے نے 13 ستمبر 2019ء کو شرح سود 50 فیصد سے بڑھا کر 70 فیصد کر دی کیونکہ صرف دس سال بعد دوبارہ ہائپرانفلیشن ہونے کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔[53]
  • "یہ سمجھنا غلطی ہے کہ شرح سود سے قرضوں کی طلب کنٹرول ہو گی۔ شرح سود صرف یہ طے کرتی ہے کہ قرضہ کس طرح خرچ ہوگا۔" (بہت کم شرح سود سے فضول خرچی بڑھتی ہے۔)
"The function of interest rates is misunderstood. They cannot be used to regulate overall demand for money, they only regulate its use. "[54]
  • "ہر چیز کا بلبلہ اور حد سے زیادہ قرض کرنسی کو کمزور کر دیتا ہے۔ شرح سود کم ہونی چاہیے تاکہ مقروض قسطیں ادا کر سکیں لیکن اس طرح کرنسی کمزور ہو جاتی ہے۔ یا پھر شرح سود زیادہ ہونی چاہیے لیکن اس طرح بینکوں کی کنگالی کرنسی کو کمزور کر دیتی ہے۔ ہماری حکومتوں اور سینٹرل بینکوں نے دنیا کو کرنسی کے پھندے تک پہنچا دیا ہے۔"
The “everything bubble” and excess debt will weaken currencies. Interest rates must remain low so debtors can afford the interest payments, which will weaken currencies. Or interest rates will reset higher and the bankruptcies will weaken currencies. Our central banks and governments have led the world into an ugly currency trap.[55]
  • بہت کم شرح سود جنگ کی طرف لے جاتی ہے۔
very low interest rates tend "to coincide with high risk events such as wars, financial crises, and breaks in the monetary regime"[56]
  • منفی شرح سود سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سینٹرل بینکوں کی حکمت عملی اب ناکام ہو چکی ہے اور اب اسے کسی طرح بدلنے کی ضرورت ہے۔
the truth negative yields reveal is an economic and central banking paradigm that no longer works, and which must change somehow.[57]
  • جب شرح سود بہت کم ہو جاتی ہے تو کمپنیاں قرض لے کر اپنے ہی شیئر خرید لیتی ہیں۔ اس طرح کمپنی میں کوئی ترقی نہ ہونے کے باوجود ان کے شیئر کی قیمت بڑھ جاتی ہے جس کا فائیدہ کمپنی کے ڈائریکٹروں کو ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب شرح سود زیادہ ہوتی ہے تو کمپنی کے ڈائریکٹر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کمپنی کو بہتر بنائیں۔
In a low–interest rate environment, the appeal of debt financing increases relative to equity. This seemingly benign influence has profound implications for capital markets and the economy more broadly. By means of debt finance, earnings per share can be enhanced without the need for productivity gains. For the executives who direct those companies, the incentive to borrow externally, rather than improve internally, increases as debt-financing costs decline. Conversely, in a rising–interest rate environment these same executives are incentivized to improve the internal efficiency of their enterprises. To this extent, higher financing costs can contribute to improved productivity.[58]

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی ربط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. The Next Round of the Great Crisis has Begun
  2. Peter Schiff: This Banking Crisis Is the Cusp of a Much Worse Financial Crisis
  3. Macleod: The End Of The Road For The Dollar
  4. Macro Economic Notes and Essays
  5. Schiff: Federal Reserve Launches "QE Extra Lite" To Bail Out Banks
  6. Hudson: Why The Banking System Is Breaking Up
  7. Polleit: How Central Banks Lift Stock Prices
  8. The Land Of The Setting Sun: The Currency Crisis Of Japan Has Just Started
  9. Could Ultra-Low Interest Rates Be Contractionary?
  10. Foreign Share of US Debt Plunging; Fed Picking Up the Slack
  11. THE END OF THE US ECONOMIC AND MILITARY EMPIRE & THE RISE OF GOLD
  12. Back To Basic Fundamentals
  13. بی بی سی
  14. "امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history" (PDF)۔ 2013-05-14 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-23
  15. The Roots Of The UK Implosion And Why War Is Inevitable
  16. "The Fed Are A Bunch Of Liars"
  17. more central bank panic
  18. Hartnett: These Are The Biggest Pain Trades For Q4
  19. zerohedge
  20. کاہن CNBC
  21. zero hedge
  22. Key ECB interest rates
  23. The Economist
  24. شرح سود کا منفی ہو جانا سینٹرل بینکوں کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے
  25. More Free Money For Banks: St Louis Fed Discloses 'A Carry Trade In Liquidity'
  26. Draghi's New ECB QE4EVA Is A Mistake. Here Is What He Should Have Done...
  27. Effective Annual Rate (EAR) Calculator
  28. The Great Western Economic Depression
  29. The Hidden Revelation
  30. Civilian Unemployment Rate
  31. Peter Schiff: Jerome Powell Is Just Guessing
  32. پاکستان میں شرح سود 26 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
  33. Pakistan central bank keeps key rate unchanged at 22%
  34. IS IT MONEY OR CREDIT, OR BOTH, OR NEITHER? Credit, Money, and Aggregate Demand By BEN S. BERNANKE AND ALAN S. BLINDER
  35. "ECB refi rate - European Central Bank's current and historic interest rates"۔ 2019-11-05 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-06-13
  36. History Of Fractional Reserve Banking
  37. “Killing the Cash Cow: Why Andy Haldane is Wrong on Demonetisation”
  38. The Burning Platform
  39. "صرف امریکا کے دشمن ہی کیوں سونا خرید رہے ہیں؟"۔ 2015-01-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-02
  40. The Narrative Problem After Peak Oil
  41. European Central Bank - Wikipedia
  42. Fed Will Raise Rates This Year to Save Capitalism
  43. خاموش جنگ کا بے آواز ہتھیار
  44. Borrowing Short to Lend Long by Prof. Antal E. Fekete
  45. Comparative Law of Security Interests and Title Finance, Volume 2 By Philip R. Wood
  46. ^ ا ب Gold: A Constructively Inhibiting Institution
  47. Monetary Expansion But Where's the Growth?
  48. Certified Gold Exchange, Inc[مردہ ربط]
  49. The Great Reset
  50. Money, Reserves, and the Transmission of Monetary Policy
  51. Forex Factory - 7am-9am Big Dog USD Breakout Strategy[مردہ ربط]
  52. ‘Tipping Point’: These Are Some of The Worst Currencies Of 2018 - Thanks to the Fed
  53. Zimbabwe Hikes Rates To 70% To Halt Hyperinflation 2.0
  54. "It Will Not End Well" - How Gibson's Paradox Has Been Buried
  55. End Of The World?
  56. In Ominous Warning, Dalio Says The Current Period Is Just Like 1935-1945
  57. The Central Banking "Stimulus" Paradigm Is Flat-Out Busted
  58. America's Giant Debt-For-Equity Swap Exposed