فنیگنز ویک (انگریزی: Finnegans Wake) ایک ناول ہے جسے آئرستانی مصنف جیمز جوائس نے لکھا۔ یہ ناول 4 مئی 1939ء کو شائع ہوا اور جدید ادب کا ایک پیچیدہ اور تجرباتی شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول کو اپنی منفرد زبان، مبہم طرز تحریر، اور مختلف زبانوں کے امتزاج کی وجہ سے ادب کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔[1]

فنیگنز ویک
فائل:Finnegans Wake 1st.jpg
فنیگنز ویک کا پہلا ایڈیشن (1939ء)
مصنفجیمز جوائس
ملکآئرلینڈ
زبانانگریزی
ناشرفابر اینڈ فابر (برطانیہ)، وائکنگ پریس (ریاستہائے متحدہ)
تاریخ اشاعت
4 مئی 1939ء
طرز طباعتکتاب (ہارڈ کور)
صفحات628

پس منظر اور موضوعات

فنیگنز ویک جیمز جوائس کا آخری بڑا ادبی کام تھا۔ یہ ناول ڈبلن کے ایک خیالی خاندان "ایچ سی ای" کے گرد گھومتا ہے اور ان کی زندگی، خوابوں، اور لاشعور کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی ساخت غیر روایتی ہے اور اس میں زبان کے تجربات اور مختلف ثقافتی حوالوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔[2] ناول کے عنوان کا تعلق ایک آئرش لوک گیت فنیگنز ویک سے ہے، جو کہ زندگی، موت، اور تجدید کے موضوعات پر مبنی ہے۔

زبان اور طرز تحریر

فنیگنز ویک اپنی غیر معمولی زبان اور پیچیدہ طرز تحریر کے لیے مشہور ہے۔ جوائس نے اس ناول میں کئی زبانوں، بولیوں، اور الفاظ کو یکجا کیا، جس سے یہ ناول ایک ادبی تجربہ بن گیا۔ اس کی زبان کو سمجھنا ایک مشکل کام ہے، لیکن اس کی خوبصورتی اور گہرائی قاری کو ایک منفرد تجربہ فراہم کرتی ہے۔[3]

اشاعت اور ردعمل

یہ ناول 1939ء میں شائع ہوا اور اس وقت ادبی دنیا میں ایک بحث کا موضوع بن گیا۔ اگرچہ کچھ ناقدین نے اسے "نا قابل فہم" قرار دیا، لیکن دیگر نے اسے جدید ادب کی ایک غیر معمولی تخلیق کہا۔[4] آج، فنیگنز ویک کو ادب کے عظیم ترین کارناموں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

جیمز جوائس کا مقصد

جوائس نے فنیگنز ویک کو لکھتے ہوئے یہ خیال کیا کہ ادب کو زندگی کے پیچیدہ تجربات اور لاشعور کی دنیا کو عکاس کرنا چاہیے۔ ان کے اس ناول نے جدید ادب کے قواعد و ضوابط کو چیلنج کیا اور ایک نئی ادبی روایت قائم کی۔[5]

اہمیت

فنیگنز ویک کو ادبی دنیا میں ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ اس نے نہ صرف جدید ادب کے نظریات کو متاثر کیا بلکہ زبان اور تحریر کی حدود کو بھی وسیع کیا۔[6]

حوالہ جات