"ابن تیمیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← انھوں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(3 صارفین 5 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 23:
|influenced = [[ابن قیم|ابن القیم]]، [[علامہ ذہبی]]، [[شمس الدین محمد بن مفلح]]، [[جمال الدین مزی|حافظ مزی]]، [[محمد بن عبد الہادی]]، [[ابن کثیر]]، [[ابن الوردی]]، [[شاہ ولی اللہ]]، [[محمد بن عبدالوہاب]]
}}
'''تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام [[بنو عامر|النمیری]] الحرانی''' (ولادت: 22 جنوری 1263ء، [[621ھ]] - وفات: 26 ستمبر 1328ء، 20 ذوالقعدہذو القعدہ [[728ھ]]) جو '''ابن تیمیہ''' کے نام سے زیادہ مشہور ہیں، ایک مشہور عالم دین، [[فقہ|فقیہ]]، محدث، الٰہیات دان، [[منصف]]، فلسفی، ماہر معاشیات اور [[جامع العلوم]] تھے۔<ref>Ibn Taymiyya and his Times, Oxford University Press, Pakistan. {{cite web|url=http://ukcatalogue.oup.com/product/9780195478341.do|title=Archived copy|access-date=2016-12-11|url-status=dead|archive-url=https://web.archive.org/web/20151011185024/http://ukcatalogue.oup.com/product/9780195478341.do|archive-date=2015-10-11}}</ref><ref>Ibn Taymiyyah, Taqi al-Din Ahmad, The Oxford Dictionary of Islam. http://www.oxfordreference.com/view/10.1093/acref/9780195125580.001.0001/acref-9780195125580-e-959?rskey=2XYR29&result=959 {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20161220132424/http://www.oxfordreference.com/view/10.1093/acref/9780195125580.001.0001/acref-9780195125580-e-959?rskey=2XYR29&result=959|date=2016-12-20}}</ref><ref name="tandfonline.com">{{cite journal|last1=Ghobadzdeh|first1=Naser|last2=Akbarzadeh|first2=Shahram|date=18 May 2015|title=Sectarianism and the prevalence of 'othering' in Islamic thought|url=https://www.tandfonline.com/doi/full/10.1080/01436597.2015.1024433|journal=Third World Quarterly|volume=36|issue=4|pages=691–704|doi=10.1080/01436597.2015.1024433|s2cid=145364873|access-date=6 June 2020|quote=Yet Ibn Taymiyyah remained unconvinced and issued three controversial fatwas to justify revolt against mongol rule.}}</ref><ref name="Grigoryan, S. 2011">Grigoryan, S. (2011). ''Anti-Christian Polemics of Ibn Taymiyya: Corruption of the Scriptures'' (Doctoral dissertation, MA thesis), Central European University, Budapest).</ref><ref>{{cite journal|last1=Nadvi|first1=Syed Suleiman|year=2012|title=Muslims and Greek Schools of Philosophy|journal=Islamic Studies|volume=51|issue=2|pages=218|jstor=23643961|quote=All his works are full of bitter condemnation of philosophy and yet he was a great philosopher himself.}}</ref><ref>{{cite book|title=Islamic Theology, Philosophy and Law: Debating Ibn Taymiyya and Ibn Qayyim Al-Jawziyya|last1=Kokoschka|first1=Alina|publisher=De Gruyter|year=2013|pages=218|quote=Identifying him, especially in regards to his comprehensive view, as a true philosopher, they describe him as an equal to or even superseding the most famous medieval Muslim philosophers.}}</ref><ref>Abdelhakim, Nedjah. ''A comparative study of the economic ideas of Ibn Taymiyyah and Ibn Khaldun and its relevance to conventional economic thought.'' MS thesis. Kuala Lumpur: International Islamic University Malaysia, 2000, 2000.</ref><ref>Bazzano, Elliott A. "Ibn Taymiyya, radical polymath, Part I: scholarly perceptions." ''Religion Compass'' 9.4 (2015): 100-116.</ref> آپ کا اصل نام احمد، کنیت ابو العباس اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ [[621ھ]] میں پیدا ہوئے۔ [[حنبلی|حنبلی مذہب]] کے فروغ اور اس کو پروان چڑھانے میں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ کی خدمات جلیلہ قدر ہیں۔ اُن کو مذہبِ حنبلی کا شارح سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بعض مسائل میں ابن تیمیہ نے امام [[احمد بن حنبل]] سے بھی اختلاف کیا۔<ref>حیات احمد بن حنبل از ابو زہرہ مصری ص 494</ref> قلعہ دمشق [[سوریہ|ملک شام]] میں بحالت قید و بند 20 ذوالقعدہذو القعدہ [[728ھ]] میں وصال ہوا۔
 
ابن تیمیہ عقائد میں جمہور مسلمین ہم نوا تھے، وہ توسل اور [[وسیلہ]] کے قائل نہیں تھے۔ وہ تقرب بالموتیٰ سے سخت روکتے تھے۔ فقہیات میں ابن تیمیہ کا مسلک احمد بن حنبل کے [[حنبلی|مذہب]] پر ہے۔ گو واقعہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ بعض مسائل میں مذہبِ حنبلی سے منفرد تھے، جن میں وہ اپنی رائے اور بصیرت کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور ان میں وہ کسی کے مقلد نہیں تھے۔<ref>سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 111 {{dash}} 112</ref> ابن تیمیہ ایک حنبلی المسلک عالم تھے، لیکن عقائد و عبادات سے متعلق بہت سے مسائل میں انھوں نے جمہور سے علیحدگی کی تھی، جس پر بہت سے علما، مثلاً [[ابن حجر عسقلانی]]، [[ابن حجر ہیتمی]]، [[تاج الدین سبکی]]، فقیہ [[ولی الدین عراقی]] اور [[تقی الدین سبکی]] وغیرہ نے سخت رد کیا ہے۔
سطر 30:
کسی عالم کی عظمت اور مرتبے کا اندازہ اس کے شاگردوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ کے شاگردوں میں [[ابن قیم جوزیہ|امام ابن قیمؒ]] اور مشہور [[مفسر]] قرآن [[ابن کثیر|حافظ ابن کثیرؒ]] جیسی عظیم المرتبت علما بھی شامل ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ 661 ہجری میں موجودہ ترکی کے علاقے [[حران]] میں پیدا ہوئے۔ ان کے بچپن میں ان کا گھرانہ تاتاریوں کے حملوں کی وجہ سے ہجرت کرکے شام آ گیا۔
 
شیخ الاسلام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن الخضر بن محمد بن الخضر بن علی بن عبد اللہ ابن تیمیہ نمیرى، حرانى، دمشقى، حنبلى، عہد مملوکى کے نابغہ روزگار علما میں سے تھے۔ اللہ تعالى نے انھیں ایک [[مجدد]] کى صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آپ نے عقائد، فقہ، رد فرق باطلہ، تصوف اور سیاست سمیت تقریبا ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور اہل علم میں منفرد مقام پایا۔ آپ بہت فصیح اللسان اور قادر الکلام تھے۔ علم وحکمت، تعبیر وتفسیر اور علمِ اصول میں انھیں خاص مہارت حاصل تھی۔
=== پہلا درس ===
اپنے والد کى وفات کے بعد دمشق کے دارالحدیث السکریة کى مسندِ حدیث پر جب آپ نے پہلا درس دیا، اس وقت آپ کى عمر بیس سال کے قریب تھی، اس میں قاضی القضاة اور دیگر مشایخ زمانہ موجود تھے۔ آپ نے صرف [[بسم اللہ الرحمٰن الرحیم|بسم اللہ الرحمن الرحیم]] کے بارے میں اتنے نکات بیان کیے کہ سامعین دنگ رہ گئے۔ شیخ الاسلام تاج الدین فزارى شافعى ( 690 ہجرى) نے ان کا پورا درس حرف بحرف قلم بند کر کے دارالحدیث السکریة کے [[کتب خانہ]] میں محفوظ کروا دیا۔
سطر 45:
 
== ابن تیمیہ کے بعض عقائد ومسائل ==
امام ابن تیمیہ کے زمانے میں مسلمانوں میں یونانی فلسفہ اور [[منطق]] کا بہت چرچا تھا۔ یونانی فلسفے کے آمیزش کی وجہ سے مسلمانوں کے بہت سے عقائد خراب ہو گئے تھے۔ فلسفیوں اور خود فلسفے سے متاثرہ مولویوں نے بھی عجیب و غریب عقائد کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔
بات یہ ہے کہ اسلام بہت ہی سادہ سا دین ہے۔ ایک عام انسان بھی قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھ سکتا اور اس سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ جہاں کوئی بات سمجھ نہ آئے وہاں انسان علما سے رہنمائی حاصل کرے۔ قرآن و حدیث میں [[توحید]]، [[ایمان بالرسالت|رسالت]]، [[جہاد]]، [[سود (ربا)|سود]]، [[زنا]]، [[نماز]]، [[روزہ (اسلام)|روزہ]]، [[زکات|زکوۃ]] غرض تمام تر شعبوں میں سادہ زبان میں رہنمائی کی گئی ہے۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ قرآن و حدیث میں عجیب و غریب موشگافیاں کرتے اور نت نئی تاویلات پیش کرکے سادہ لوح لوگوں کو الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عجیب و غریب فلسفے جھاڑتے ہیں۔ شاید ان کا مقصد اپنی بڑائی کا اظہار کرنا، علم کا رعب جمانا ہوتا ہے۔ یا پھر وہ نادان یا بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو امام ابن تیمیہؒ جب پیدا ہوئے وہ دور بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
امام ابن تیمیہ نے فلسفے کا پرزور انداز میں رد کیا۔ مسلمان جو یونانی فلسفے سے بہت زیادہ مرعوب ہو گئے تھے، انھیں اس سحر سے نکالا۔ اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بہت سادہ اور آسان کرکے عوام الناس کے سامنے پیش کیا۔
سطر 54:
جنگ ختم ہونے کے بعد امام نے بدعت اور شرک کے خلاف پوری طاقت سے سرگرم ہو گئے۔ ایک چٹان تھی جہاں لوگ منت مانتے تھے۔ امام نے اس چٹان کو توڑا۔ پھر انھوں نے ملحدوں اور، [[نصیریہ|نصیری قبائل]] کے خلاف لشکر کشی کی کیونکہ انھوں نے مسیحیوں اور تاتاریوں کو شام پر حملے کی دعوت دی تھی۔
اس طرح کرتے کرتے امام ابن تیمیہؒ کا زور بہت بڑھ گیا۔ وہ دیکھتے کہ جہاں حکومت منکر کو ختم کرنے میں سستی کر رہی، تو قانون ہاتھ میں لے کر خود شرعی حکم نافذ کردیتے۔ اس کے نتیجے میں مولویوں اور حاسدوں کا ایک طبقہ ان کا مخالف ہو گیا۔ مناظرے شروع ہو گئے۔ لوگوں نے سلطان کو شکایت کردی جس نے امام کو [[قاہرہ|دار الخلافہ مصر]] طلب کر لیا۔ انھیں ایک سال تک قید کر دیا گیا۔ تو انھوں نے جیل میں ہی دعوت و تبلیغ کا اتنا کام کیا کہ قیدیوں کی حالت ہی بدل گئی۔ رہائی کے بعد دوبارہ درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔ انھیں پھر نظر بند کر دیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد پھر رہا کر دیا گیا۔ اس دوران مصر کا سلطان ناصر تبدیل ہو گیا۔ نئے حکمراں رکن الدین نے پھر امام کو قید کر دیا۔ ایک سال بعد سلطان ناصر دوبارہ حکومت میں آیا تو اس نے امام کو رہا کیا۔ سلطان ناصر امام کا بہت احترام کرتا تھا۔ امام چاہتے تو اپنے تمام مخالفین کو سزا دلوا سکتے تھے لیکن انھوں نے سب کو معاف کر دیا۔ پھر دوبارہ درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔
اس دوران میں تین طلاقوں کا مسئلہ سامنے آیا۔ امام نے فتویٰ دیا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دراصل ایک ہی طلاق شمار ہوگی، جس کے بعد رجوع کیا جاسکتاجا سکتا ہے۔
پھر ایک مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کا اٹھا۔ امام نے کہا کہ کسی کی بھی قبر کی زیارت کے لیے اہتمام سے سفر کرکے جانا جائز نہیں۔ اس معاملے پر حکومت نے امام ابن تیمیہؒ کو ان کے شاگرد [[ابن قیم جوزیہ|امام ابن قیمؒ]] کے ساتھ دوبارہ قید کر دیا۔ اور اسی میں ان کی موت ہو گئی۔
 
=== دور جدید پر ابن تیمیہ کے اثرات ===
 
امام ابن تیمیہ نے جہاد کا مشہور فتویٰ جاری کیا جس کا القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے حوالہ بھی دیتی ہیں۔ [[سعودی عرب]] کے مشہور عالم دین [[محمد بن عبد الوہاب|محمد بن عبد الوہابؒ]] کی تحریک پر امام ابن تیمیہؒ کی تعلیمات کا بہت زیادہ اثر ہے۔ امام ابن تیمیہؒ نے لوگوں کو مزاروں پر جانے اور بزرگان دین کو وسیلہ بنانے سے منع کیا۔ جب وہ تیس سال کے تھے تو ایک مسیحی پادری اصف النصرانی نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔ حکومت نے النصرانی کو کہا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے تو اس کی جان بخشی جاسکتیجا سکتی ہیں۔ وہ راضی ہو گیا۔ لیکن امام ابن تیمیہؒ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان ہو یا کافر اگر بقائمی ہوش و حواس توہین رسالت کرے گا تو اس کی گردن اڑائی جائے گی۔ اس پر حکومت نے انھیں قید کر دیا۔
اسی قید میں انھوں نے اپنی پہلی معرکہ آرا کتاب ’’الصارم المصلول علی شاتم الرسول‘‘ لکھی۔ یہ کتاب مکتبہ قدوسیہ لاہور سے اردو زبان میں بھی شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے نام کے معنی ہیں ’’شاتم رسول کے سر پر لٹکتی ننگی تلوار‘‘۔ موجودہ حالات میں اس کتاب کا مطالعہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے اپنے شاگردوں کی مدد سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تحریک چلائی۔ اس دوران میں انھوں نے ہاتھ سے لوگوں کو گناہوں سے روکا اور سزائیں دیں۔ جب مملوک حکمراں الملک المنصور نے لبنان کے پہاڑوں میں [[نصیریہ|علوی قبائل]] (بشارالاسد کا تعلق بھی علوی خاندان سے ہے) کے خلاف کارروائی کی تو امام نے متعدد بار حکومت کا ساتھ دیا۔ کیونکہ وہ علویوں کو یہود و نصاریٰ سے بھی زیادہ ملحد قرار دے دیتے تھے۔ اور اس لیے بھی کہ انھوں نے [[بغداد]] و شام پر حملے میں [[صلیبی ریاستیں|صلیبیوں]] اور تاتاریوں کی مدد کی تھی۔
جب تاتاری رہنما قازان خان نے شام پر حملہ کیا تو تب امام ابن تیمیہ نے اپنا مشہور فتویٰ جاری کیا کہ تاتاری جو اگرچہ اسلام قبول کرچکے ہیں لیکن ان کے خلاف جہاد [[فرض کفایہ]] ہی نہیں بلکہ جہاد [[فرض عین و فرض کفایہ|فرض عین]] ہے، کیونکہ وہ شریعت کی بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت نہ صرف حکومت کرتے ہیں بلکہ انھیں شریعت سے بہتر بھی سمجھتے ہیں لہذا وہ حالت جاہلیت میں ہی ہیں۔ دراصل تاتاریوں نے اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن اپنے پرانے ’’الیاسق قانون‘‘ کو برقرار رکھا تھا اور شریعت کو نافذ نہیں کیا تھا۔ یہ کسی عالم کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا پہلا فتویٰ تھا۔ اور آج جہادی تنظیمیں اسی کو اپنا جواز بناتی ہیں۔ پھر مصر و شام کی اسلامی فوج اور تاتاری فوج میں جنگ ہوئی جس میں امام ابن تیمیہ نے خود بھی شرکت کی۔ امام کے دونوں مشہور شاگردوں امام [[ابن قیم جوزیہ|ابن قیم]] اور [[ابن کثیر|حافظ ابن کثیر]] نے بھی اپنے استاد کے اس موقف کی تائید کی۔
سطر 90:
{{اسلامی الٰہیات}}
{{اسلامی فلسفہ}}
{{شیوخ الاسلام}}
 
[[زمرہ:ابن تیمیہ| ]]
[[زمرہ:1263ء کی پیدائشیں]]
سطر 119:
[[زمرہ:تیرہویں صدی کے مسلم الٰہیات دان]]
[[زمرہ:چودہویں صدی کے مسلم الٰہیات دان]]
[[زمرہ:سلفی بلحاظ ملک]]
[[زمرہ:علمائے اسلام]]